EPAPER
Updated: December 28, 2019, 2:57 PM IST | Nazish Ansari
وزیر، ہم اپنی زندگی میں ہی اپنی سلطنت کا وارث چن لینا چاہتے ہیں، تاکہ ہمارے بعد کوئی جھگڑا نہ ہو۔ مگر ہم اپنا ولی عہد چننے سے قاصر ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ فیصلہ کس کے حق میں دیں۔ بادشاہ نے کہا۔ وزیر نے پھر کہا عالی جاہ، یہ تو بہت آسان ہے۔ آپ کیوں نہ دونوں کا امتحان لے لیں۔ جو زیادہ عقلمند ثابت ہو اسی کو ولی عہد بنا دیجئے گا۔
ایک بادشاہ کے دو بیٹے تھے۔ ایک بیٹے کا نام شاکر تھا، دوسرے کا قادر۔ دونوں جڑواں بھائی تھے۔ جب بادشاہ نے اپنا ولی عہد چننے کا ارادہ کیا تو اُسے بڑی پریشانی ہوئی۔ بادشاہ بہت انصاف پسند تھا، اسی لئے وہ دونوں میں سے کسی کا بھی حق مارنا نہیں چاہتا تھا۔ قانوناً دونوں کو بیک وقت ولی عہد نہیں بنایا جاسکتا تھا۔ بادشاہ آخر کرے تو کیا کرے؟
ایک دن بادشاہ اسی پریشانی میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ اُدھر سے وزیر کا گزر ہوا۔ وزیر نے جب بادشاہ کو اس عالم میں دیکھا تو پوچھا عالم پناہ کیا مَیں آپ کی پریشانی کا سبب دریافت کر سکتا ہوں؟
وزیر، ہم اپنی زندگی میں ہی اپنی سلطنت کا وارث چن لینا چاہتے ہیں، تاکہ ہمارے بعد کوئی جھگڑا نہ ہو۔ مگر ہم اپنا ولی عہد چننے سے قاصر ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ فیصلہ کس کے حق میں دیں۔‘‘ بادشاہ نے کہا۔ وزیر نے پھر کہا ’’عالی جاہ، یہ تو بہت آسان ہے۔ آپ کیوں نہ دونوں کا امتحان لے لیں۔ جو زیادہ عقلمند ثابت ہو اسی کو ولی عہد بنا دیجئے گا۔
بادشاہ کو یہ ترکیب پسند آگئی۔ اس نے اُسی وقت دونوں بیٹوں کو بلوایا۔ بادشاہ نے دونوں سے کہا ’’ہمیں تم میں سے ایک کو اپنا ولی عہد چننا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ کسی کی حق تلفی ہو۔ اسی لئے تم دونوں کو امتحان دینا ہوگا۔ تم میں سے جو بھی کامیاب ہوگا وہ ہماری سلطنت کا ولی عہد ہوگا۔
دونوں نے بادشاہ کے آگے سر جھکا دیا۔
بادشاہ نے تھوڑی دیر سوچا پھر کہا دیکھو تم دونوں کو ٹیگم گڑھ پیدل جانا ہے۔ صبح تم کو ایک ایک ٹوکرا دیا جائے گا۔ تم الگ الگ راستوں سے جانا اور وہ ٹوکرے اس گاؤں کے زمیندار کو دے کر واپس آجانا۔ یہ تمہارا پہلا امتحان ہے۔
صبح ہوتے ہی دونوں بھائیوں نے وہ ٹوکرے سر پر رکھے اور اپنے اپنے راستے پر روانہ ہوگئے۔ ٹیگم گڑھ بہت دور تھا اور راستے میں کوئی گاؤں بھی نہیں پڑتا تھا۔ قادر چلتے چلتے تھک گیا۔ اس نے ایک پیڑ کے نیچے ٹوکرا اتار دیا اور سستانے لگا۔ دوپہر ہوگئی تھی اسے پیڑ کی ٹھنڈی چھاؤں جو لگی تو بھوک جاگ اٹھی۔ اس نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی دور تک چٹیل میدان تھا اسے بادشاہ پر غصہ آنے لگا کہ اتنا بھاری ٹوکرا تو دے دیا مگر کھانے کے لئے دو روٹیاں ساتھ نہیں کیں۔ پھر اُسے خیال آیا کہ کہیں کھانا بھی اسی ٹوکرے میں نہ رکھ دیا ہو۔ یہ سوچ اُس نے ٹوکرے کا کپڑا کھولا۔ اس میں لڈّو ہی لڈّو بھرے تھے، اور ساتھ میں ایک پرچہ بھی رکھا ہوا تھا۔ یہ پرچہ ٹیگم گڑھ کے زمیندار کے نام تھا۔ اس میں لکھا تھا پانچ سو لڈّو بھیجے جا رہے ہیں۔ انہیں گِن لو اور لانے والے کو رسید دے دو۔ قادر نے ان لڈّوؤں کو یہ سوچ کر گِنا کہ ممکن ہے لڈّو زیادہ رکھ دیئے ہوں۔ مگر ان میں ایک بھی زیادہ نہیں تھا.... وہ بہت دیر تک سوچتا رہا کہ آخر کیا کرے۔ لڈّو دیکھ کر اس کی بھوک اور بھی بڑھ گئی تھی۔ اس نے آخر ٹوکرے میں سے پچاس لڈّو الگ کر لئے اور کھا گیا۔
جب دوپہر ہوئی تو شاکر کو بھی بھوک لگنے لگی۔ اس نے بھی تھک کر ایک نہر کے کنارے ٹوکرا رکھ دیا اور یہی سوچ کر کہ کھانا کہیں ٹوکرے میں نہ ہو، اُسے کھول لیا۔ اس میں بھی پانچ سو لڈّو رکھے ہوئے تھے اور زمیندار کے نام ویسی ہی تحریر تھی۔ اس نے بھی لڈّوؤں کو گِنا۔ پورے پانچ سو تھے۔ اسے خیال آیا کہ کہیں یہ بھی بادشاہ کے امتحان میں شامل نہ ہو۔ مگر لڈّوؤں کی سوندھی سوندھی خوشبو نے اس کی بھوک کو اور بھی بڑھا دیا تھا آخر اسے ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے تمام لڈوؤں میں سے ذرا ذرا سا حصہ جھاڑ لیا۔ جب اس کے سامنے لڈّوؤں کا اچھا خاصا چورا جمع ہوگیا تو اس نے خوب سیر ہو کر کھایا، نہر کا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پیا اور پھر اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔
ٹیگم گڑھ سے واپس آنے پر دونوں نے اپنی اپنی رسیدیں بادشاہ کے سامنے پیش کیں۔ شاکر پورے پانچ سو لڈّوؤں کی رسید لایا تھا۔ مگر قادر کی رسید پر پچاس لڈّو کم لکھے ہوئے تھے۔ بادشاہ نے پوچھا پچاس لڈّو کیا ہوئے؟
قادر نے جواب دیا پچاس لڈّو میں اپنی مزدوری سمجھ کر کھا گیا۔ مزدوری لینا برا نہیں مگر امانت میں خیانت کرنا یقیناً بُرا ہے۔ بادشاہ نے کہا خیر ہم تم دونوں کا امتحان ایک ہفتہ بعد پھر لیں گے۔
دونوں نے تعظیم سے سرجھکایا اور چلے گئے۔
ایک ہفتہ بعد بادشاہ نے دونوں کو پھر بلایا اور کہا محل کے دروازے پر دو رتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ دونوں میں ایک ایک مٹکا رکھا ہوا ہے اور دونوں مٹکوں میں مٹّی بھری ہوئی ہے۔ تم میں سے ایک کو ہمارے پڑوسی شاہ جلال کے یہاں جانا ہے۔ دوسرے کو شاہ غفران کی ریاست میں پہنچنا ہے اور یہ مٹّی دے کر ہماری برسوں کی دوستی کو اور بھی مضبوط بنانا ہے۔ اُسی وقت قادر رتھ میں بیٹھ کر شاہ جلال کی ریاست کی طرف چل دیا اور شاکر شاہ غفران کی ریاست کی جانب روانہ ہوگیا۔
جب شاہ جلال کو معلوم ہوا کہ پڑوسی بادشاہ نے اپنے بیٹے کے ہاتھوں کوئی تحفہ بھیجا ہے تو اس نے قادر کو فوراً اپنے دربار میں طلب کیا اور کہا ہمارے دوست نے تمہارے ہاتھوں کیا تحفہ بھیجا ہے۔ ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔
قادر نے تمام مٹّی بادشاہ کے سامنے اُلٹ دی، جس سے پورے دربار میں خاک ہی خاک ہوگئی۔ شاہ جلال کو غصّہ آگیا اور وہ چلّا کر بولا یہ کیا بے ہودگی ہے....!
بے ہودگی نہیں عالی جاہ، یہ ابّا حضور کی طرف سے بھیجا ہوا تحفہ ہے.... قادر نے سر جھکا کر کہا۔ مگر شاہ جلال پورے دربار کے سامنے اپنی بے عزّتی ہوتے دیکھ کر مارے غصّے کے اٹھ کھڑا ہوا۔ اُس نے چیخ کر کہا ’’اس کو ریاست کی سرحد سے باہر نکال دو۔
ادھر شاکر شاہ غفران کے دربار میں حاضر ہوا، اُس نے بڑے ادب سے مٹّی سے بھرے مٹکے کو کھولا۔ پھر دست بستہ عرض کیا شاہ غفران سے ابّا حضور کی دوستی بہت پرانی ہے۔ اسی دوستی کو اور بھی مضبوط بنانے کیلئے مَیں یہ مٹّی آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا ہوں۔ پچھلے سال ابّا حضور حج کو تشریف لے گئے تھے اور لوٹتے وقت اس پاک سر زمین کی مٹّی بھی لے آئے تھے۔ یہ وہی مٹّی ہے۔ اس کے ہونے سے آپ کی ریاست پر برکتوں کا نزول ہوگا، اور رعایا خوشحال ہوگی۔
شاہ غفران نے اس مٹّی کو آنکھوں سے لگایا اور بدلے میں ہیرے جواہرات کے تحفے دے کر شاکر کو بڑی عزّت کے ساتھ رخصت کیا۔
اس طرح شاکر دونوں امتحانوں میں کامیاب ہو کر اپنے باپ کا جانشین مقرّر ہوا اور بادشاہ کے مرنے کے بعد اسی نے تمام ملک کی باگ دوڑ سنبھالی۔