Inquilab Logo

جادو کا ڈھول

Updated: March 06, 2021, 1:01 PM IST | Saeed L

یہ کہانی مبوبو نامی شخص کی ہے جو اپنے گاؤں کا سردار ہے۔ اس کے پاس ایک جادوئی ڈھول ہوتا ہے۔ جادوئی ڈھول کی کرامات جاننے کیلئے پڑھئے مکمل کہانی:

Magic Drum
جاددو کا ڈھول

افریقہ کے کسی گاؤں میں ایک آدمی رہتا تھا۔ نام تھا مبوبو۔وہ اپنے گاؤں کا سردار تھا۔ گاؤں کے لوگ اسے دل و جان سے چاہتے تھے۔ اس کی دو وجہیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ مبوبو بہت نیک اور شریف تھا اور دوسری یہ کہ وہ تمام گاؤں والوں کو روزانہ، دونوں وقت، مفت کھانا کھلاتا تھا۔ بات یہ تھی کہ مبوبو کے پاس جادو کا ایک ڈھول تھا۔ جب کھانے کا وقت ہوتا تو گاؤں کے سارے لوگ اس کے اردگرد دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے اور مبوبو جادو کے ڈھول کو سیدھے ہاتھ سے ۱۳؍ دفعہ بجاتا۔ تیرھویں تھپکی پر ہر شخص کے سامنے خوش رنگ اور خوش ذائقہ کھانے کی ایک ایک پلیٹ آجاتی۔
 اب سنئے، مبوبو کے گاؤں کے پاس ہی ایک اور گاؤں تھا۔ اس گاؤں کے لوگ بڑے لالچی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مبوبو اور اس کے قبیلے کو اس گاؤں سے بھگا کر ان کی زمینوں پر قبضہ کرلیں۔ ایک دن وہ برچھی بھالوں سے لیس ہو کر مبوبو کے گاؤں پر چڑھ دوڑے۔ مبوبو کے آدمی امن پسند تھے۔ لڑائی بھڑائی سے دور بھاگتے تھے۔ انہوں نے جو یہ ناگہانی مصیبت دیکھی تو چہروں پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ انہوں نے مبوبو سے کہا ’’اب کیا ہوگا؟ دُشمن تو ہماری تِکّا بوٹی کر ڈالیں گے۔ مال بھی جائے گا اور جان بھی۔‘‘ مبوبو مسکرا رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا جیسے اُسے کوئی فکر ہی نہیں۔ اُس نے گاؤں والوں کو حکم دیا کہ ایک بڑا سا درخت کاٹیں اور اُسے راستے کے بیچوں بیچ ڈال دیں۔ حکم کی دیر تھی کہ بیسیوں آدمی کلہاڑیاں لے کر درخت پر پِل پڑے اور آناً فاناً اسے کاٹ کر راستے میں ڈال دیا۔
 اب دشمن قریب آگئے تھے۔ ان کے ڈھول ڈھمکوں اور جنگی نعروں کی خوفناک آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ مبوبو نے گاؤں والوں سے کہا ’’تم سب لوگ جنگل میں جاکر چھپ جاؤ۔ مَیں اکیلا ہی ان سے نمٹ لوں گا۔‘‘ پہلے تو وہ ہچکچائے، وہ اپنے نیک اور مہربان سردار کو موت کے منہ میں دے کر خود فرار ہونا نہ چاہتے تھے۔ لیکن جب مبوبو نے انہیں سمجھایا تو چلے گئے۔
 اِدھر گاؤں والے غائب ہوئے اور اُدھر دشمن گاؤں کے اندر داخل ہوگئے۔ انہیں یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ سارا گاؤں خالی پڑا ہے۔ صرف اکیلا مبوبو وہاں موجود ہے۔ انہوں نے سوچا کہ مبوبو بھی بھاگ جائے گا اور وہ بغیر لڑے بھڑے سارا مال ہتھیا لیں گے۔ مگر مبوبو بھاگنا تو کُجا، گھبرایا تک نہیں۔ وہ بڑے اطمینان سے کٹے ہوئے درخت کے تنے پر بیٹھ گیا، اور اپنے جادوئی ڈھول کو پہلے سیدھے ہاتھ سے ۱۳؍ دفعہ بجایا اور پھر بائیں ہاتھ سے تین دفعہ۔
 اِس جادو کے ڈھول میں دو خاص باتیں تھیں۔ اسے زمین پر بیٹھ کر ۱۳؍ دفعہ بجاتے تو وہ کھانا حاضر کر دیتا اور کٹے ہوئے درخت پر بیٹھ کر بجاتے تو فوراً ہی جنگل میں سے ایک سو ہٹّے کٹّے، خوف ناک شکلوں والے آدمی نکلتے دیتے اور جو سامنے آتا، مار مار کر اُس کا کچومر نکال دیتے۔ اس وقت بجانے والے کو ایک خاص احتیاط کرنی پڑتی تھی۔ اُسے ڈھول کو سیدھے ہاتھ سے ۱۳؍ دفعہ بجا کر بائیں ہاتھ سے بھی تین دفعہ بجانا پڑتا تھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو جادو کے آدمی اُسے بھی مار مار کر بھتنا بنا دیتے تھے۔ لو جناب! ڈھول بجانے کی دیر تھی کہ ایک دم جنگل میں سے ایک سو لمبے تڑنگے، کالے کلوٹے سو آدمی نکل آئے۔ اُن کے ہاتھوں میں موٹے موٹے ڈنڈے تھے۔ انہوں نے آتے ہی مبوبو کے دشمنوں کو دھننا شروع کر دیا۔ چند منٹ بعد وہ سب زمین پر بڑے کراہ رہے تھے۔ اس کے بعد جادو کے آدمی جیسے آئے تھے، ویسے ہی غائب ہوگئے۔
 اب مبوبو نے اپنے آدمیوں کو آواز دی۔ وہ جنگل میں سے نکل آئے۔ وہ چاہتے تھے کہ دشمنوں کی کھال کھینچ لیں۔ مگر مبوبو بہت رحم دل اور نیک انسان تھا۔ اس نے انہیں سمجھا بجھا کر باز رکھا اور دشمنوں سے بولا ’’میرا خیال ہے، تمہیں اب سبق مل گیا ہوگا۔ اب تم کبھی میرے گاؤں پر حملہ نہیں کرو گے۔ تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ ہمارے ساتھ صلح کر لو اور اچھے پڑوسیوں کی طرح امن چین سے رہو۔ آج کے دن تم ہمارے مہمان ہو۔ مَیں کھانا منگواتا ہوں.... کھا کر جانا۔‘‘
 یہ کہہ کر وہ اُن لوگوں کے بیچ میں بیٹھ گیا اور جادو کے ڈھول کو ۱۳؍ دفعہ بجایا۔ پلک جھپکتے میں خوش رنگ اور خوش ذائقہ کھانے کی ایک ایک پلیٹ ہر شخص کے سامنے آگئی۔ سب نے خوب پیٹ بھر کے کھایا، پھر مبوبو سے معافی مانگی، سلام کیا اور اس کا شکریہ ادا کرکے چلے گئے۔
 لیکن وہ دل کے کھوٹے تھے۔ راستے میں نیت بدل گئی۔ ایک آدمی نے کہا ’’مبوبو کا ڈھول تو بڑا کراماتی ہے۔ اِدھر بجایا، اُدھر کھانا حاضر۔‘‘ دوسرا بولا ’’ہمیں یہ ڈھول کسی طرح اُڑا لینا چاہئے۔‘‘
 سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ باقی لوگ تو اپنے گاؤں کی طرف چلے گئے اور پانچ پھرتیلے اور تگڑے جوان وہیں جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ جب رات کا اندھیرا گہرا ہوگیا اور ہر طرف سنسانی چھا گئی تو یہ پانچوں جوان جھاڑی میں سے نکلے اور چپکے سے مبوبو کے جھوپڑے میں گھس گئے۔ مبوبو بے خبر پڑا سو رہا تھا۔ انہوں نے ڈھول اُٹھا کر بغل میں دبایا اور دبے پاؤں باہر نکل گئے۔
 ایک آدمی بولا ’’آہا! مزہ آگیا! اب ہمیں محنت کرنے کی ضرورت نہیں۔ ڈھول بجائیں گے اور مفت کی کھائیں گے۔‘‘ دوسرا کہنے لگا ’’تمہیں بجانے کی ترکیب بھی آتی ہے؟‘‘ پہلا بولا ’’کیوں نہیں! مبوبو نے اسے ۱۳؍ دفعہ بجایا تھا۔ مَیں نے اُنگلیوں پر گنا تھا۔ اعتبار نہ ہو تو دیکھو لو۔‘‘ وہ باتیں کرتے کرتے اس جگہ آگئے تھے جہاں مبوبو کا کٹوایا ہوا درخت پڑا تھا۔ وہ آدمی درخت کے تنے پر بیٹھ گیا اور ڈھم ڈھم ۱۳؍ دفعہ ڈھول بجایا۔ سب لوگ آنکھیں بند کئے، گرم گرم مزے دار کھانے کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن جب انہوں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو سٹّی گم ہوگئی۔ انہیں ایک سو موٹے تازے، خوفناک شکلوں والے آدمی گھیرے کھڑے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے ان کے سروں پر ڈنڈے برسانے شروع کر دیئے۔ انہوں نے ڈھول وہیں پھینکا اور سر پر پاؤں رکھ کے ایسے بھاگے کہ پیچھے مُڑ کر بھی نہ دیکھا۔
 دوسرے دن، صبح کو، مبوبو ڈھول ڈھونڈنے نکلا تو وہ اُسے گاؤں کے باہر اُس جگہ پڑا مل گیا جہاں اس نے درخت کٹوایا تھا۔ ساری بات اس کی سمجھ میں آگئی۔ وہ خوب ہنسا اور ڈھول اُٹھا کر گھر لے آیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK