EPAPER
Updated: July 01, 2023, 9:59 AM IST | Mumbai
شیش محل کرکٹ کلب کا جبلی ہائی اسکول کے ساتھ ایک میچ ہونے والا تھا لیکن شیش محل کرکٹ کلب میں پھوٹ پڑ گئی تھی۔ ارون اور عرفان، دونوں کپتان بننا چاہتے تھے۔ اس وجہ سے میچ ہونا مشکل نظر آ رہا تھا۔
کچھ روز پہلے ارون اور عرفان کے درمیان جھگڑا ہوگیا تھا، خاصا سخت جھگڑا۔ بات دراصل یہ تھی کہ شیش محل کرکٹ کلب کا جبلی ہائی اسکول کے ساتھ ایک میچ ہونا قرار پایا تھا۔ شیش محل کرکٹ کلب میں یوں تو ایک سے ایک اچھا کھلاڑی موجود تھا۔ اچھے بلے باز بھی تھے اور خطرناک قسم کے باؤلر بھی۔ لیکن سوال ٹیم کے کیپٹن کے چناؤ کا تھا۔ ارون اور عرفان دونوں ہی اس ٹیم کے پرانے اور تجربے کار کھلاڑی تھے۔ اُن دونوں میں سے کوئی بھی کپتان چُن لیا جاتا تو اُن کی ٹیم کا جبلی ہائی اسکول کے کھلاڑیوں سے جیتنا یقینی تھا لیکن بدقسمتی یہ تھی کہ دونوں ہی اپنی ٹیم کے کپتان بننا چاہتے تھے۔ اب ٹیم کے دو کیپٹن تو ہو نہیں سکتے۔ ایک کیپٹن ہوتا اور دوسرا وائس کیپٹن۔ لیکن ان دونوں میں سے کوئی بھی کیپٹن سے کم کیلئے تیار نہیں تھا۔
میچ شروع ہونے میں ابھی چھ روز باقی تھے، لیکن میچ کا ہونا مشکل نظر آنے لگا۔ ان کی ٹیم میں بھی پھوٹ پڑگئی۔ کچھ کھلاڑی ارون کی طرف ہوگئے اور کچھ عرفان کی طرف۔ وہ سب ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے، جگہ جگہ ایک دوسرے کی شکایتیں کرتے۔ غرض ایک عجیب تناتنی کا عالم تھا۔
ان کے مقابلے میں جبلی اسکول کے کھلاڑی ہر روز کھیل کے میدان میں جا کر مشق کرتے تھے۔ اس طرح لگاتار مشق کرنے سے ایک تو ان کا حوصلہ بڑھ گیا تھا۔ دوسرے وہ اس بات سے بھی خوش تھے کہ شیش محل ٹیم میں اگر اسی طرح پھوٹ رہی اور اس سال میچ نہیں ہوا تو پچھلے سال کی جیتی ہوئی ٹرافی اس سال بھی انہی کے پاس رہ جائے گی۔
اس ٹرافی کے لئے دونوں ٹیموں کے درمیان بہت سخت مقابلہ ہوا کرتا تھا، جسے دیکھنے کے لئے کئی اسکولوں کے لڑکے جمع ہو جایا کرتے تھے۔ ارون اور عرفان کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کئی لڑکوں نے کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے اور جھگڑا پہلے سے بھی نازک صورت اختیار کر گیا۔ دو بہت اچھے کھلاڑی جو کبھی بہت ہی گہرے دوست رہ چکے تھے۔ اب محض کپتان بننے کی خاطر ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے تھے۔
میچ شروع ہونے سے تین روز پہلے اچانک پورے ملک میں ہلچل سی مچ گئی۔ چین کے ساتھ ہمارے صدیوں سے دوستانہ تعلقات چلے آرہے تھے، لیکن اُس نے اپنی سرحدوں کو بڑھانے کی غرض سے ہمارے امن پسند ملک کے ساتھ جنگ شروع کر دی تھی۔ ملک کے کونے کونے سے چین کی فوجوں کو مار بھگانے کے لئے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ ہمارا ملک بہادری میں کسی سے کم نہیں تھا لیکن حملہ اچانک ہوا تھا، اس لئے مقابلہ کرنے کیلئے بہت سے فوجی سامان کی ضرورت تھی۔ دیش کے کونے کونے میں بچے، بوڑھے اور عورتیں اپنی جمع کی ہوئی پونجی سرکار کے حوالے کرنے لگے۔ ہر شہر کے صحتمند نوجوان فوج میں بھرتی ہونے کے لئے بیقرار ہو اٹھے۔
جس شہر میں ارون اور عرفان رہتے تھے وہاں کے بھی لڑکے کسی سے پیچھے نہیں رہے تھے۔ ایک دن ملٹری اسپتال کے برآمدے میں وہ دونوں لوگوں کی ایک لمبی قطار میں آگے پیچھے بیٹھے ہوئے دکھائی دیئے۔ دونوں جنگ میں زخمی ہو جانے والے فوجی جوانوں کے لئے اپنا اپنا خون دینے گئے تھے۔ لیکن وہ دونوں ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کر رہے تھے۔ لیکن اس بات کے لئے دونوں پُر جوش تھے کہ وہ ایک دوسرے سے زیادہ اپنا خون دان دیں گے۔
باری آنے پر جب دونوں ڈاکٹر کے پاس پہنچے تو ڈاکٹر نے اُن کا خون لینے سے انکار کر دیا، کہا، ’’تم دونوں ابھی بہت چھوٹے ہو۔‘‘ یہ سُن کر دونوں مایوس ہوگئے۔ عرفان نے کہا، ’’تو مجھے فوج میں بھرتی کر لیجئے۔‘‘ ارون کب پیچھے رہنے والا تھا، ’’ڈاکٹر صاحب مجھے بھی فوج میں لے لیجئے۔‘‘
ملٹری کا ڈاکٹر ان دونوں کی باتیں سُن کر ہنس پڑا، ’’تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔‘‘
’’تو پھر ہم اپنے ملک کے لئے کیا کرسکتے ہیں؟‘‘ دونوں نے پوچھا۔ ڈاکٹر سوچ میں پڑ گیا۔ پھر بولا، ’’تم لوگوں کو کس کس چیز کا شوق ہے۔ ناچنے کا، گانے کا، ڈراما کرنے کا، یا کسی کھیل کود کا؟‘‘ دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا، ’’کرکٹ کھیلنے کا۔‘‘ یہ سن کر ڈاکٹر کے چہرے پر چمک آگئی، وہ خوش ہو کر بول اٹھا، ’’یہ تو بہت ہی اچھا ہے۔ تم لوگ ایک ٹیم بنا کر کسی دوسری ٹیم کے ساتھ مقابلہ کرو۔ مقابلہ دیکھنے کے لئے آنے والوں کو ٹکٹ بیچو۔ اس سے جو آمدنی ہو وہ سب قومی بچاؤ فنڈ میں دےد و۔ سمجھے! تمہارا یہی کام ملک کے لئے بہت بڑا کام ہوگا۔‘‘
یہ سن کر دونوں وہاں سے چلے آئے۔ گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے اور دل ہی دل میں اس بات کیلئے افسوس کرتے ہوئے بھی کہ ان دونوں کی پھوٹ کی وجہ سے ان کی اتنی اچھی ٹیم ٹوٹ گئی تھی۔
’’چلتے چلتے اچانک ارون نے عرفان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا، ’’مَیں تمہارا وائس کیپٹن بننے کیلئے تیار ہوں۔ میچ کی تیاری شروع کرا دو۔‘‘ یہ سن کر عرفان کا گلا بھر آیا، سر جھکا کر بولا، ’نہیں ارون! کپتان میں نہیں بنوں گا، تم بنو گے۔ یہ میرا فیصلہ ہے۔‘‘
دونوں دیر تک اسی بات پر جھگڑتے رہے۔ جب کوئی فیصلہ نہ ہوسکا تو دونوں نے ٹاس کیا۔ جس وقت ٹاس ہو رہا تھا اسی وقت وہاں اُن کے دوسرے ساتھی بھی آپہنچے۔ جب ان میں سے ایک خوشی خوشی کیپٹن بن گیا اور دوسرا وائس کیپٹن، تو ساری ٹیم میں ایک نیا جوش پیدا ہوگیا۔ انہوں نے دو روز تک خوب تیاری کی۔ تمام اسکولوں میں جا کر ٹکٹ بیچے اور قومی بچاؤ فنڈ کے لئے ایک ہزار سے زیادہ روپے جمع کر لئے۔
جانتے ہو میچ کس نے جیتا؟ شیش محل کرکٹ ٹیم نے۔ جبلی اسکول کی ٹیم ایک اننگ اور بیس رنوں سے ہار گئی۔n