Inquilab Logo

امتحان کی کہانی ایک طالب علم کی زبانی

Updated: October 08, 2022, 11:36 AM IST | Rabia Sheikh | Mumbai

یہ اس زمانے کی بات ہے جب امتحان، امتحان گاہ میں جا کر دیئے جاتے تھے۔ امتحان کی تاریخیں جیسے ہی عام ہوتیں ماحول پر ایک الگ ہی سنجیدگی طاری ہو جایا کرتی۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

یہ اس زمانے کی بات ہے جب امتحان، امتحان گاہ میں جا کر دیئے جاتے تھے۔ امتحان کی تاریخیں جیسے ہی عام ہوتیں ماحول پر ایک الگ ہی سنجیدگی طاری ہو جایا کرتی۔ کبھی نہ پڑھنے والے طلبہ بھی فکرمند ہو جایا کرتے اور پڑھائی کرنے والے طلبہ تو کتا بیں چھوڑ ا ہی نہ کر تے تھے۔ کچھ طلبہ ایسے بھی ہوتے جنہیں پڑھنا ایک دن پہلے ہی ہوتا لیکن فکر روزِ اوّل ہی سے ہوتی اور جو بے فکرا دکھائی دیتا اس پر سب کا ایمان ہوتا تھا کہ اس نے یا تو پڑھائی کر لی ہے یا پھر چھٹیوں کی نقل مکانی کرے گا۔ اور اس درجہ بندی میں ہمارا شمار ان میں ہوتا جو فکر اسی دن سے کرتے لیکن انہیں پڑھنا ایک دن پہلے ہی ہوتا ہے پرچہ چاہے جتنے مشکل مضمون کا ہو۔ ہماری پڑھائی کا طریقہ یہ ہوتا کہ جیسے ہی تاریخوں کا اعلان ہوتا ہم سارے مضامین کا نصاب اپنے سامنے پھیلا لیا کرتے۔ پھر جس مضمون کی جس اکائی کا مواد پڑھنے کیلئے نہ ہوتا اس کی فراہمی کا انتظام ایک سے دو دن میں کر لیا کرتے۔ جب سارا انتظام ہو جا تا تو پھر سے ایک دن دفتر کھلتا اور اس دن یہ فیصلہ ہوتا کہ کس عنوان کو پڑھنے کیلئے کتنا وقت درکار ہے اور کن کن اسباق کے موضوع ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ یا ایک بڑا جواب پڑھنے سے اس میں کتنے چھوٹے جواب لکھے جا سکتے ہیں۔ یا ایک جواب یاد کرکے کتنے سوال حل کئے جا سکتے ہیں۔ اس سارے حساب کتاب اور اندازے میں ایک دن کا وقت صرف ہوتا۔ اس کے بعد اطمینان سے کتابیں سنبھال کر رکھ دیتے۔ پھر امتحان کے ایک دن پہلے تک باقی ہم جماعتوں کے چہرے پڑھا کرتے۔ چلتے پھرتے کئی جواب کانوں میں پڑا کرتے اور ہماری آنکھیں حیرت سے پھیل جاتیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی کہ.... اچھا! یہ ہمارے ہی پرچے کی بات ہو رہی ہے کیا؟ کیا واقعی؟ اوہ! لیکن یہ کس اکائی میں ہے؟ ہمیں تو آج تک نظر نہیں آیا.... اوہ! صحیح.... اور اس طرح وہ دن آن پہنچتا جس دن امتحان کی تیاری کرنی ہوتی۔  اس دن کی صبح بڑی بوجھل ہوا کرتی۔ فضا خاموش اور ٹھہری ہوئی ہوا کرتی۔ ماحول پر ایک عجیب قسم کی افسردگی چھائی ہوئی ہوتی۔ خیر.... ہم اس دن پوری طرح سے تیار ہوتے امتحان کی تیاری کیلئے۔ مگر ہمیں پڑھنا چاہے جتنا ہو، پڑھائی ناشتے کے بعد ہی شروع ہوتی۔ پھر وہ گھڑی بھی آ جاتی جس کا آپ بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں یعنی کتاب ہمارے ہاتھوں میں ہوتی اور پھر شروع ہوتی گھمسان کی لکھائی۔ کیونکہ ہمارے پڑھنے کا طریقہ یہ ہوتا کہ ایک بار میں سارے نوٹس اور اسباق کے مطالعے کے بعد اس کے اہم نکات لکھ لیا کرتے۔ کتابیں پھر احتیاط سے اپنی جگہ پر پہنچ جاتیں اور پھر ان نکات کو مزید۲؍ سے ۳؍ بار لکھا کرتے اور پورا دن اسی طرح لکھائی میں بیت جا تا۔ اور وہ صبح بھی آ جاتی جس کا باقی سب کو انتظار ہوتا، ہم سے تو ویسے ہی کسی چیز کا انتظار نہیں ہوتا تو امتحان کا تو خاک ہوگا۔ کمرۂ امتحان میں جانے سے پہلے سب کی یہی کوشش ہوتی کہ آخری لمحے تک پڑھا جائے۔ جبکہ ہماری یہ کوشش ہوتی کہ بھر پیٹ کھا پی کے، منہ پہ پانی کے چھینٹے مارنے کے بجائے دریا بہا کے اور تھوڑی چہل قدمی کرکے جائیں۔ کیونکہ ہمیں یہ خدشہ ہوتا کہ کہیں بھوک نہ لگ جائے یا کہیں نیند نہ آ جائے کیونکہ اکثر و بیشتر امتحان کے اوقات دوپہر کے ہوا کرتے جو دن کا سست ترین حصہ ہوتا ہے ہمارے لئے اسلئے سارے انتظام سے جایا کرتے۔ امتحان گاہ میں کھانے پینے کے لوازمات کے نام پر چاکلیٹس رکھنا نہ بھولتے، شناختی کارڈ کے ساتھ پنسل، پین وغیرہ اور پانی کی بوتل لے کر داخل ہوتے۔ باقی طلبہ عموماً وقت سے پہلے ہی چلے جایا کرتے اپنی نشستوں پر جبکہ ہم یہ سوچ کر تاخیر سے جایا کرتے کہ جب سب اپنی نشستیں سنبھال لیں گے تو ہمیں ہماری نشست آسانی سے مل جائے گی اور ہم ڈھونڈنے کی زحمت سے بچ جائیں گے۔ پھر جیسے ہی کمرے میں داخل ہوتے سب کے اترے ہوئے چہرے دیکھنے کو ملتے.... سارا سال چہکنے والوں کی چہکار ایسے بند ہوتی جیسے کبھی چہکے ہی نہ ہوں۔ اس دوران ہم بھی اپنی نشست سنبھال لیتے۔ اس پورے منظر نامے میں جو نا قابل فراموش ہوتا ہے، وہ ہوتا ہے وہ طالب علم جس کے ساتھ امتحان دینا ہوتا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ہمیں اس بات سے بہت فرق پڑتا ہے۔ ہم نشست ساتھی کبھی وبال جان ثابت ہوا کرتے ہیں اور کبھی زندہ دل مل جایا کرتے ہیں۔ ہر ایک کا دھیان اپنے آگے پیچھے بیٹھنے والے ہم جماعتوں پر ہوتا ہے لیکن ہمارا بغل میں بیٹھنے والے پر ہوتا ہے۔ ہمیں بہت اچھے سے اندازہ ہے کہ آگے پیچھے توجہ دینے سے کچھ حاصل نہیں۔ اگر وہ ٹاپر ہوئے تو ویسے ہی گھاس نہیں ڈالنے والے اور کند ذہن ہوئے تو ہم نہیں پوچھنے والے، اس لئے لاحاصل کے پیچھے بھا گا نہیں کرتے۔ دوران امتحان ہی ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوتا کہ جس طالب علم نے اپنی بینچ پر جوابات لکھے تھے وہ کس طرح نقل کر رہا ہے اور جس نے چٹھیوں کا منی دفتر ساتھ لایا تھا، وہ کس طرح سے نقل کر رہا۔ اور وہ صرف خود ہی نقل کر رہا یا آس پڑوس کے لوگ بھی فیضیاب ہور ہے ہیں۔ اکثر و بیشتر یہ بھی ہوا کہ کلاس میں نگرانی کیلئے آنے والے استاد کی صورت دیکھتے ہی ان طلبہ کے پریشان کن چہرے نظر میں پھر گئے اور ان کی قسمت پر رشک آنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی ہم اپنے پرچے پر توجہ دینے کی بھی بھر پور کوشش کرتے۔ ان تازہ نکات کو یاد کرنے کی کوشش کرتے جسے بس ایک ہی دن پہلے پڑھنے کے ساتھ لکھے بھی تھے اور جو کچھ دن پہلے بھی نظر سے گزرے تھے۔ اس استاد کی یادآتی جس نے یہ موضوع پڑھایا تھا۔ ان طلبہ کی بھی یاد آتی جنہوں نے اس سے متعلق سوال پوچھے تھے اور پھر ٹیچر نے ان کے جوابات دیئے تھے۔ وہ سارے سوال جواب بھی اول تا آخر یاد آ جاتے۔ بس وہی یاد نہیں آ تا جو سوالیہ پرچے میں پوچھے گئے سوال کا اصل جواب تھا۔ اب ان سب کے بعد جو ہمیں واحد فکر ہوتی وہ نیند کی ہوتی۔ ٹینشن میں لوگوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں، بھوک ختم ہو جاتی ہے جبکہ ہمارے ساتھ ایسا کوئی معاملہ کبھی رہا ہی نہیں۔ وقت پر بھوک لگنے کے ساتھ موقع بے موقع نیند کے جھونکے آنا معمول رہا ہے اور امتحان گاہ میں نیند آنا ہماری بے فکر طبیعت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ خدا خدا کرکے اس جنجال سے نجات ملتی ہے اور نجات ملتے ہی ہم کافی چاق و چو بند ہو جاتے ہیں۔ نیند تو گویا اڑن چھو ہو جاتی ہے۔ کمرۂ امتحان سے نکل کر سب سے پہلے ہم کینٹین کی راہ لیتے ہیں اور وہاں حاضری دینے کے بعد اس راہ کا انتخاب کرتے ہیں جو ہمیں کالج کے بیرونی دروازے تک لے جاتی ہے۔ امتحان دے کر باہر آنے کے بعد سوال جواب پر بحث کرنا طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ جوابات درست نہ ہوئے تو باہر آتے ہی ؍۵ سے ؍۷ نمبرات تو ایسے ہی ضائع ہو جاتے ہیں جس کے چلتے مارک شیٹ کے آنے سے پہلے ہی موڈ بگڑ جاتا ہے اس لئے ہم ایسی چیزوں سے اجتناب ہی کیا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی شکار ہو ہی جایا کرتے ہیں جس کا کوئی حل نہیں ہمارے پاس۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK