Inquilab Logo

اگر کورونا وائرس چمگادڑوں میں ہوتا ہے تو وہ اس سے متاثر کیوں نہیں ہوتے؟

Updated: August 07, 2020, 6:38 PM IST | Mumbai

سائنسدانوں نے دنیا کے ۶؍ چمگادڑوں کے جینیاتی بلیو پرنٹ کی تشریح کی ہے جس میں ان کی ’غیر معمولی قوت مدافعت‘ کے اشارے ملتے ہیں اور یہ نظام ہی انہیں مہلک وائرس سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

سائنسدانوں نے دنیا کے ۶؍ چمگادڑوں کے جینیاتی بلیو پرنٹ کی تشریح کی ہے جس میں ان کی ’غیر معمولی قوت مدافعت‘ کے اشارے ملتے ہیں اور یہ نظام ہی انہیں مہلک وائرس سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ محققین اس معلومات کے ذریعے معلوم کریں گے تو چمگادڑ کیسے بیمار ہوئے بغیر اپنے اندر کورونا وائرس رکھتے ہیں ۔ یونیورسٹی کالج ڈبلن کی پروفیسر ایما تیلنگ کا کہنا ہے کہ ’شاندار‘ جنیاتی ترتیب سے پتا چلتا ہے کہ چمگادڑوں کا مدافعتی نظام بہت انوکھا ہوتا ہے۔ اور یہ سمجھنا کہ کس طرح چمگادڑ بیمار ہوئے بغیر وائرس کو برداشت کر سکتے ہیں ، کووڈ۱۹؍ جیسے وائرس کا علاج دریافت کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’اگر ہم وائرس سے چمگادڑوں کے مدافعتی ردعمل کی نقالی کر سکتے ہیں ، جو انہیں برداشت کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے تو پھر اس کا علاج قدرتی طور پر تلاش کیا جاسکتا ہے۔‘‘ پروفیسر تیلنگ ’بیٹ ون کے‘ پروجیکٹ کی شریک بانی ہیں جس کا مقصد چمگادڑوں کی تمامایک ہزار ۴۲۱؍ انواع کے جنیاتی مادے کی تشریح کرنا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کووڈ۱۹؍ چمگادڑوں سے ہوا ہے جو انسانوں میں کسی ایسے جانور سے منتقل ہوا جس کی نشاندہی ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سارس، مرس اور ایبولا سمیت متعدد دوسری بیماریاں بھی اسی طرح انسانوں میں منتقل ہوئی تھیں ۔
 ماہرین برائے ماحولیات نے خبردار کیا ہے کہ چمگادڑوں کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے کیونکہ ان کی قدرتی رہائش گاہ میں اگر انہیں تنگ نہ کیا جائے تو ان سے انسانی صحت کو بہت کم خطرہ لاحق ہوتا ہے اور وہ فطرت کے توازن کیلئے ناگزیر ہیں ۔ ان میں سے کئی پھلوں کے بیج پھیلاتی ہیں جبکہ کئی رات کے وقت لاکھوں ٹن حشرات کھا جاتی ہیں ۔ محققین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے چمگادڑوں کے جینیاتی مادے کو ترتیب دینے اور موجودہ جین کی نشاندہی کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔انہوں نے چمگادڑ کے بلیو پرنٹ یا نمونے کا موازنہ ۴۲؍ دوسرے ممالیہ سے کیا۔ چمگادڑ اس گروہ سے زیادہ وابستہ دکھائی دیتے ہیں جس میں گوشت خور ممالیہ (کتے، بلیاں اور دوسری انواع) اور کھروں والے جانور جیسے پینگولین اور وہیل شامل ہیں ۔
 جینیاتی سراغ رسانی کے اس کام نے ایسے جین کا انکشاف کیا جو بازگشت میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں ، جسے چمگادڑ مکمل اندھیرے میں شکار اور تلاش کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔
 بڑی تعداد میں جینیاتی تبدیلیوں کا انکشاف، جو چمگادڑوں کو وائرس سے تحفظ فراہم کرتا ہے، اس سے انسانی صحت اور بیماری کیلئے بھی اشارے ملتے ہیں ۔ محققین کا خیال ہے کہ چمگادڑ کے جینیاتی مادے کا علم اس بات کی وضاحت کرنے میں مدد کر سکتا ہے کہ اڑنے والے ممالیے کورونا وائرس کو کیسے برداشت کرتے ہیں ، جس سے شاید مستقبل کے وبائی امراض سے لڑنے میں مدد مل سکے۔
 جرمنی میں میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ آف مالیکیولر سیل بائیولوجی کے ڈاکٹر مائیکل ہلر کہتے ہیں ’’یہ تبدیلیاں چمگادڑوں کی غیر معمولی قوت مدافعت میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں اور ان میں کورونا وائرس کو برداشت کرنے کی نشاندہی کرتی ہیں ۔‘‘بہت سے وائرل انفیکشن میں وائرس خود موت کا باعث نہیں بنتا بلکہ جسمانی قوت مدافعت کے نظام کی وجہ سے شدید سوزش آمیز ردعمل سامنے آتا ہے۔ چمگادڑ اس پر قابو پا سکتے ہیں لہٰذا جب انہیں انفیکشن ہوتا ہے تو وہ بیماری کی علامات ظاہر نہیں کرتی ہیں ۔ یہ تحقیق ’نیچر‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK