Inquilab Logo

انوکھی ادا

Updated: December 02, 2023, 11:20 AM IST | Wali Muhammad Qazi | Mumbai

پیارے بچو! یہ کوئی قصہ یا من گھڑت کہانی نہیں ہے، بلکہ کسی ملک میں ، جس کا نام آخر میں بتانے جا رہا ہوں ، رونما ہونے والا ایک سچا واقعہ ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

پیارے بچو! یہ کوئی قصہ یا من گھڑت کہانی نہیں ہے، بلکہ کسی ملک میں ، جس کا نام آخر میں بتانے جا رہا ہوں ، رونما ہونے والا ایک سچا واقعہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ناموں میں تبدیلیاں ہوگئی ہوں مگر حقیقت پر مبنی حالات میں ردّوبدل کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔
 مارچ کا مہینہ تھا۔ سالانہ امتحان بچوں کے سر پر منڈلا رہا تھا۔ اُسی ملک کے ایک چھوٹے سے دیہات میں ماڈرن پرائمری اسکول کے اساتذہ اور طالب علم اسی امتحان کی تیاری کے لئے محنت کررہے تھے۔ اور ہر اُستاد اپنی کلاس کے بچوں کی شاندار کارکردگی کے لئے آرزو مند ہو کر اُن کی بہترین ذہنی تربیت کے لئے اپنی ساری صلاحیتیں اُن کے اوپر صرف کر رہا تھا۔ یہی حال اُس اسکول میں تیسری جماعت کا بھی تھا، جہاں ایک یتیم لڑکا ارسلان اپنی تعلیم بڑی لگن سے حاصل کرنے میں منہمک تھا۔ بچپن میں ہی اُس کے والد اس دُنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان حالات میں اُس کی بیمار ماں بڑی جدوجہد کے ساتھ دونوں کا پیٹ پال رہی تھی۔
 اب سالانہ امتحان شروع ہونے میں محض چند روز باقی رہ گئے تھے۔ اتنے میں اسکول کا چپراسی ایک نوٹس لے کر کلاس میں داخل ہوگیا۔ لیڈی ٹیچر تمام بچوں سے مخاطب ہوگئی کہ دیکھوں بچوں ، ’’یہ ایک اہم نوٹس پرنسپل صاحب کی جانب سے آیا ہے۔ سب میری طرف توجہ دیں ۔ اور اس نوٹس کو غور سے سنیں ۔‘‘ نوٹس میں لکھا تھا کہ بچوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ ۲۳؍ مارچ شام چار بجے سالانہ امتحان کے بارے میں میٹنگ ہوگی۔ جہاں والدین میں سے کسی ایک کے ساتھ ہر طالب علم کو حاضر رہنا ہے۔ لہٰذا تمام بچے وقت مقررہ تشریف لائیں ۔ ہر طالب علم کے بازو میں ایک کرسی اُن کے والدہ یا والد کے لئے مختص رکھی جائے گی۔‘‘
 نوٹس بلند آواز سے پڑھنے کے بعد تاریخ اور وقت کی جانب بچو ں کو متنبہ کرتے ہوئے ٹیچر نے پھر یاد دلایا، ’’۲۳؍ مارچ شام چار بجے....‘‘ پھر ٹیچر نے بچوں سے پوچھا، ’’آگئی سب کی سمجھ میں یہ بات؟‘‘ بچوں نے ایک ساتھ جواب دیا: ’’یس میڈم....‘‘
 اتنے میں اسکول کی چھٹی ہوگئی۔ ٹیچر نے نوٹس پر دستخط کرکے وہ چپراسی کے حوالے کردیا۔ سارے بچے کلاس سے نکل کر ہنسی خوشی اپنے اپنے گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔ لیکن پہلی بینچ پر بیٹھنے والا ارسلان کسی سوچ میں گم ہوگیا۔ ٹیچر کی نظر جب اُس پر پڑی تو کہا، ’’بیٹے کیا آپ گھر نہیں جاؤں گے؟ کیوں اداس ہو؟ کیا کسی نے تمہارے ساتھ شرارت کی ہے؟‘‘
 ’’نہیں میڈم، وہ.... وہ....‘‘
 ’’ہاں بولو، کیا بات ہے؟‘‘ ٹیچر نے ارسلان کے سرپر والہانہ شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
 ’’میڈم.... وہ نوٹس.... نوٹس....‘‘
 ’’ہاں بیٹا! آپ نوٹس کے بارے میں کیا کہہ رہے ہو؟ وہ نوٹس میٹنگ کے بارے میں تھی۔ اگلے ہفتے ۲۳؍ مارچ کو والدین میں سے کسی ایک کے ساتھ آپ کو حاضر رہنا ہے۔‘‘ ارسلان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اور کہا، ’’میڈم! میرے ابو اس دُنیا میں نہیں ہے اور امی اپنی بیماری کی وجہ سے یہاں آنے سے مجبور ہے۔‘‘ ارسلان کی یہ درد بھری کہانی سن کر ٹیچر اُسے خاموشی سے دیکھتے رہی۔ پھر پیار سے اپنے گلے لگاکر کہا، ’’بیٹے کوئی بات نہیں ، تم اکیلے ہی چلے آنا۔‘‘
 ارسلان نے اپنی ٹیچر کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ’’میڈم آپ، آپ!‘‘ ارسلان نے جھجکتے ہوئے کہا۔
 ’’ہاں .... ہاں ! کہوں بیٹے، کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ ’’میڈم! آپ ہمارے صدر صاحب کو خط لکھ دیجئے نا!‘‘
 ’’ہمارے ملک کے صدر!‘‘ میڈم چونک گئی، ’’ارسلان! اتنے بڑے صدر کو مَیں کیسے خط لکھ سکتی ہوں ؟‘‘ ’’ہاں میڈم! آپ لکھ دیجئے۔‘‘
 ’’مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا لکھوانا چاہتے ہو آپ خط میں ؟‘‘
 ’’اُنہیں خط میں لکھ دیجئے کہ میرے ابو کی جگہ وہ میٹنگ میں میرے ساتھ بیٹھ جائے۔‘‘ ٹیچر کو اپنے شاگرد کی نادانی اور بھولے پن پر ہنسی آگئی۔ وہ کہنی لگی، ’’بیٹا! ملک بھر کے سارے کام ہر آن اُن کے پیچھے لگے ہوئے رہتے ہیں ۔ بھلا وہ اپنی مصروفیت سے فارغ ہوکر اس چھوٹے سے دیہات میں کیسے آسکتے ہیں ؟‘‘ یہ سن کر ارسلان کے چہرے پر مایوسی چھا گئی اور وہ بلک بلک کر رونے لگا۔ ارسلان کی یہ کیفیت دیکھ کر ٹیچر نے صدر کو خط لکھنے کا فیصلہ کردیا۔ اور فوراً ارسلان کی جانب سے خط تحریر کیا۔ اور اُسے پڑھ کر سنایا۔ مگر ارسلان سے مخاطب ہوکر کہنے لگی، ’’بیٹاارسلان! تم یہ نہ سوچو کہ ہمارے صدر یہاں تشریف لائیں گے۔‘‘ اور دونوں اپنے اپنے گھر لوٹ گئے۔
 ۲۳؍ مارچ کو ٹھیک چار بجے ماڈرن پرائمری اسکول کا اسمبلی ہال بچوں اور اُن کے سرپرستوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ ارسلان اکیلا اُداس بیٹھا تھا۔ اُس کے بازو میں جگہ خالی پڑی ہوئی تھی۔ اب پروگرام شروع ہونے میں چند منٹ ہی باقی تھے۔ اتنے میں کسی نے دروازے پر پہنچ کر ہال میں موجود بچوں کا جائزہ لیا۔ اور لمبے لمبے قدم اُٹھاتا ہوا اگلی بینچ پر تنہا بیٹھے ہوئے ارسلان کو گلے لگایا اور اُس کے سرپر شفقت سے ہاتھ پھیر کر اُس کے بازو بیٹھ گیا۔ سبھوں کی نظریں اس شخص پر پڑتے ہی وہ پہچان گئے کہ یہ ہمارے عزت مآب صدر مملکت ہے۔ اور پلک جھپکتے ہی پرنسپل، اساتذہ اور اسکول میں موجود عملہ استقبال کے لئے اُن کی جانب دوڑ پڑے۔ لیکن صدر نے اُنہیں روک دیا۔ اور میٹنگ میں رخنہ اندازی سے منع فرمایا۔ اور مزید وضاحت کی وہ اس اسکول میں صدر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ارسلان کا خط ملتے ہی اُس کا سرپرست بن کر آیا ہوں ۔ کچھ عرصے کے بعد میٹنگ اختتام پذیر ہوگئی۔ اور صدر بھی اپنے محافظوں کے ساتھ واپس روانہ ہونے کے لئے اسکول سے باہر نکل گئے۔ اسی دوران یکایک آسمان پر بادل چھا گئے۔ بجلی کی چمک اور بادلوں کی گرج کے ساتھ موسلادھار بارش برسنے لگی۔ گویا کہ وہ صدر کی اس انوکھی ادا پر نثار ہوگئی ہو۔
 پیارے بچو! دیکھا آپ نے اتنے بڑے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود اُنہوں نے اپنا گرانقدر وقت صرف کرکے کیسے بہترین اخلاق کا مظاہرہ کیا؟ اور ارسلان کو اپنے ابو کی غیرموجودگی کا احساس نہ ہونے دیا۔ یہ واقعہ ترکی کا ہے اور اس صدر کا نام رجب اردگان ہے، جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے تیسری بار انتخاب میں کامیاب ہوکر صدر مملکت کا عہدہ سنبھال لیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK