EPAPER
Updated: June 14, 2025, 4:16 PM IST | Mullah Wahidi | Mumbai
اُردو کی مشہور اور منفرد کہانی۔
جامع مسجد کے پھلواری والے چبوترے کے نیچے پٹری پر، جہاں اور کوئی دکاندار نہیں بیٹھتا تھا، شام کے پانچ چھ بجے ایک کبابی صاحب دکان لگایا کرتے تھے اور رات کے بارہ ایک بجے تک کباب بیچتے تھے۔ اُن کا نام مجھے معلوم نہیں۔ چچا کبابی کہلاتے تھے۔
چچا کبابی غدر ۱۸۵۷ء کے دس بارہ سال بعد پیدا ہوئے ہوں گے اور ۱۹۴۷ء سے چند سال قبل انتقال کر گئے۔ دِلّی کے سیخ کے کباب اور گولے کے کباب مشہور ہیں۔ چچا کبابی دِلّی کے ممتاز کبابی تھے۔ کباب بنانے کے اعتبار سے بھی اور انوکھی طبیعت کے اعتبار سے بھی۔ کباب بنانے کے کمال پر اُنہیں بڑا گھمنڈ تھا، اور طبیعت کا انوکھا پن تو اس سے عیاں ہے کہ اپنے لئے وہ جگہ انتخاب کی تھی جہاں گاہک کو آنا ہو تو جامع مسجد کے جنوبی دروازے کی طرف کے دسیوں کبابیوں کو چھوڑ کر آئے۔ ایک گیارہ برس کی لڑکی آگ کا تاؤ رکھنے کی غرض سے ہر وقت پنکھا ہاتھ میں پکڑے کھڑی رہتی تھی۔ غالباً اُن کی بیٹی تھی۔ ذرا تاؤ کم و بیش ہوا چچا کبابی کا پارہ چڑھا۔ غصّہ ناک پر رکھا رہتا تھا، لیکن کیا مجال جو زبان سے بیہودہ لفظ نکل جائے۔
گاہکوں کو باری باری کرکے کباب دیتے تھے۔ اگر آپ ان کے ہاں اوّل مرتبہ تشریف لائے ہیں اور ان کی طبیعت سے واقف نہیں ہیں، اور دوسرے گاہکوں کی نسبت آپ کی حیثیت بلند ہے، صاف ستھرا پہنتے ہیں، تانگہ یا موٹر روک کر کباب خریدنے اُتر پڑے ہیں، آپ نے خیال کیا کہ مجھے ترجیح دی جانی چاہئے۔ ہاتھ بڑھایا، روپے تھمائے اور فرمایا، ’’ڈیڑھ روپے کے کباب ذرا جلدی۔‘‘ جلدی کا لفظ سنتے ہی چچا کبابی کا مزاج بگڑ جائے گا۔ وہ روپے واپس کر دیں گے اور کہیں گے، ’’حضور! جلدی ہے تو اور سے لے لیجئے۔‘‘
ایک روز ایک ذرا زندہ دل سے شخص چچا کبابی سے اُلجھ گئے۔ اُنہوں نے چچا کبابی کے اس فقرے پر فقرہ جڑ دیا کہ، ’’بھائی! اور سے ہی لے لیں گے، اللہ نے تمہارے کبابوں سے بچایا۔ نہ جانے ہضم ہوتے یا کوئی آفت ڈھاتے۔‘‘ چچا کبابی تلملا اُٹھے۔
کہنے لگے، ’’حضور! کبابوں میں وہ مسالہ ڈالتا ہوں جسے مست بِجار پر لتھیڑ دوں تو گَل کر گِر پڑے۔ میرے کبابوں سے آپ کو تکلیف پہنچ جائے تو اسپتال تک کا خرچ دوں گا، لیکن کباب جلدی نہیں دے سکتا۔ جلدی میں کباب یا کچّے رہ جاتے ہیں یا جل جاتے ہیں۔ اور دوسرے گاہکوں کا حق بھی چھینتا ہے۔ جو پہلے آیا ہے کباب اسے پہلے ملنے چاہئیں۔‘‘
چچا کبابی دھونس نہیں برداشت کرتے تھے اور اپنے اُصول کے مقابلے میں تعلقات کو بھول جاتے تھے۔ عزیز اور دوست بھی ان سے بغیر باری کے کباب نہیں لے سکتے تھے۔ آپ جایئے، ان کو سلام کیجئے۔ جواب دیں گے، وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ پانوں کی ڈبیہ سامنے رکھ دیجئے۔ بے تکلف پان کھا لیں گے۔ زردہ خود مانگیں گے۔ لیکن ناممکن ہے کہ سلام یا پان سے چچا کبابی پگھل جائیں۔ کباب باری پر ہی دیں گے۔
ایک دفعہ میری موجودگی میں تیرہ چودہ برس کا ایک لڑکا آیا اور بولا، ’’چار پیسے کے کباب دے دو۔‘‘
چچا کبابی نے کہا، ’’نہیں بھائی، مَیں تجھے کباب نہیں دوں گا۔‘‘
اب وہ لڑکا سر ہو رہا ہے اور خوشامدیں کر رہا ہے اور چچا کبابی انکار پر انکار کئے جاتے ہیں۔
جب بہت دیر اس حجت بازی میں گزر گئی تو کسی نے ہمت کرکے پوچھ لیا۔ ’’چچا، کیا بات ہے۔ اسے کباب کیوں نہیں دے رہے؟‘‘
کہنے لگے، ’’میاں! یہ پیسے چُرا کر لاتا ہے۔ گھر سے لاتا ہو یا کہیں اور سے، روز چار پیسے کے کباب کھا جاتا ہے، یہیں بیٹھ کر۔ دیکھو نا! اس کی صورت۔ جا بیٹا جا۔ عادت کہیں اور جا کر بگاڑ۔ مَیں چار پیسے کی خاطر تجھے تباہی کے راستے پر نہیں لگاؤں گا۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ تیرے ماں باپ چار پیسے روز تجھے کباب کھانے کے واسطے دیتے ہوں گے۔‘‘
جو لوگ ان کی دُکان پر، تازے اور گرم گرم کباب کھا لیتے تھے، اُن سے خوش ہوتے تھے۔ پیسے تھمائیے اور بتا دیجئے کہ اوپر جامع مسجد کے دالان میں انتظار کر رہا ہوں۔ کباب بھیج دینا یا آواز دے دینا۔ ایسے لوگوں کے کباب گھی سے بگھارتے، کبابوں میں بھیجا ملاتے۔ پیاز، پودینہ اور ہری مرچیں چھڑکتے اور اپنے آدمی کے ہاتھ پہنچوا دیتے۔ اللہ بخشے مولانا راشد الخیری کو۔ چچا کبابی کے ہاتھ کے کباب بیحد مرغوب تھے۔ وہ میرے ساتھ ہوتے تو مَیں بھی جامع مسجد چلا جاتا اور وہیں کباب منگا لیتا تھا۔ تازے کبابوں کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔