EPAPER
Updated: March 02, 2024, 12:14 PM IST | Rafia Shabnam Abidi | Mumbai
بغداد کے قریب ایک مرغ زار تھا جہاں کی ہوائیں جنت کی طرح خوشبودار تھیں اور جس کے پھل ستاروں کی طرح چمکدار۔ اس مرغ زار میں بے شمار جانور تھے جو یہاں کی خوشگوار آب و ہوا میں ہنسی خوشی بسر کرتے تھے۔
بغداد کے قریب ایک مرغ زار تھا جہاں کی ہوائیں جنت کی طرح خوشبودار تھیں اور جس کے پھل ستاروں کی طرح چمکدار۔ اس مرغ زار میں بے شمار جانور تھے جو یہاں کی خوشگوار آب و ہوا میں ہنسی خوشی بسر کرتے تھے۔ ان سے کچھ دوری پر ایک تند خو اور ظالم شیر رہتا تھا، جو ہر روز ان کی درگت بناتا تھا اور ان کے عیش و آرام میں خلل ڈالتا تھا۔ ایک روز وہ سب مل کر شیر کے پاس پہنچے اور نہایت عاجزی اور انکساری کااظہار کرتے ہوئے کہا،’’جہاں پناہ ہم آپ کی رعایا ہیں اور آپ ہر روز بڑی محنت اور مشقت سے ہم میں سے ایک کو شکار کرتے ہیں ہم سب بھی اس خوف سے پریشان رہتے ہیں۔ اس لئے ہم نے طے کیا ہے کہ آپ کو بھی فراغت حاصل ہو اور ہم کو بھی چین ملے۔ اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو ہم ہر روز صبح آپ کا ناشتہ خود پہنچا دیا کریں اور کبھی اس کام میں سستی نہ کریں۔‘‘ شیر نے خوش ہوکر اس کی اجازت دے دی۔ جانور روزانہ قرعہ نکالتے اور جس کے نام بھی قرعہ آتا اس کو ناشتے کیلئے شیر کے پاس بھجوا دیتے۔ اس طرح کئی روز گزر گئے۔ ایک روز ایک خرگوش کے نام قرعہ نکلا۔ اس نے اپنے دوستوں سے کہا،’’اگر میرےبھیجنے میں تھوڑی تاخیر کرو تو میں تمہیں اس ظلم سے نجات دلا سکتا ہوں۔‘‘
انہوں نے کہا،’’ہمیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘ خرگوش تھوڑی دیر تک ٹھہرا رہا۔ یہاں تک کہ ناشتہ کا وقت گزر گیا اور شیر کی بھوک تیز ہوگئی اور اشتعال میں آگیا۔ خرگوش آہستہ آہستہ اس کی جانب روانہ ہوا۔ جب وہ وہاں پر پہنچا تو شیر کو بے حد مشتعل پایا۔بھوک اور غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہور ہا تھا۔ وہ غضبناک ہو کر زمین پر پنجے مار رہا تھا۔ خرگوش نہایت آہستہ سے اس کے سامنے آیا اور ادب سے سلام کیا۔ شیر نے غصے سے پوچھا،’’تم کہاں سے آئے ہو اور جانوروں کا کیا حال ہے؟ ‘‘خرگوش نے جواب دیا،’’انہوں نے حسب معمول ایک خرگوش میرے ہمراہ آپ کیلئے بھیجا تھا لیکن اتفاق سے میں ایک اور شیر کے یہاں ملازم ہوں وہ شیر ہمیں راستے میں ملا۔ اس سے میں نے کتنی عاجزی کی کہ یہ ہمارے بادشاہ کا ناشتہ ہے؟ لیکن وہ نہیں مانا اور کہا کہ یہ میری شکار گاہ ہے اور یہ شکار مجھے ملنا چاہئے اور اس درجہ بڑائی ہانکنے لگا کہ میں عرض نہیں کر سکتا۔ مجھ غریب میں اس کے مقابلے کی طاقت کہاں تھی؟ بڑی مشکل سے اس سے پیچھا چھڑا کر بھاگا تاکہ آپ کواس صورتحال سے آگاہ کردوں۔‘‘
بھوکے شیر کی رگ حمیت پھڑک اٹھی اور اس نے کہا،’’کس کی مجال ہے جو میرے سامنے یوں بہادری کا دعوی کرے اور اپنی بڑائی ہانکے؟ اور اس طرح میرے شکار پر ہاتھ مارے۔ اگر ممکن ہو تو مجھے اس شیر کا پتہ بتا دو تاکہ میں اس سے بدلہ لے سکوں۔‘‘ یہ کہہ کر شیر اس کے پیچھے پیچھے چلا۔ خرگوش اسے ایک کنوئیں کے پاس لایا جس کا پانی آئینے کی طرح صاف تھا اور جس میں ہر کسی کا عکس صاف دکھائی دیتا تھا۔ خرگوش نے شیر سے کہا،’’آپ کا نابکار دشمن اسی کنوئیں میں رہتا ہے اور میں بھی اس کے خوف سے ڈرتا ہوں۔ اگر آپ مجھے اپنی گود میں لے کر اس کنوئیں میں جھانکیں تو میں بتادوں۔‘‘
شیر نے اسے گود میں لے کر کنوئیں میں جھانکا۔ اپنا اور خرگوش کا عکس پانی میں دیکھا تو سمجھا کہ یہ وہی شیر ہے جو میرا شکار ہتھیائے ہوئے ہے۔ فوراً کنوئیں میں چھلانگ لگائی اور چند لمحوں میں ڈھیر ہو گیا۔ خرگوش سلامتی کے ساتھ لوٹا اور جانوروں کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ وہ شکر خدا بجا لائے اور امن و امان سے رہنے لگے۔
(انوار سہیلی کی کہانیاں سے ماخوذ )