Inquilab Logo

مچھلی راجہ کے دیس میں

Updated: February 10, 2024, 1:55 PM IST | Syed Muhammad Shamim

اس نے راجکماری سے بہت محبت سے کہا، ’’صرف ایک دن کی چھٹی چاہتا ہوں۔ بس گیا اور چلا آیا اس کے بعد ہمیشہ تمہارے ہی ساتھ رہوں گا۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘ جاتے وقت راجکماری نے اُسے ہیرے کی ایک ڈبیا دی اور کہا، ’’یہ ڈبیا مَیں تمہیں اس لئے دے رہی ہوں کہ گھر جا کر تم مجھے بھول نہ جاؤ لیکن خبردار اسے کبھی کھولنا نہیں۔‘‘

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ایک ملاح لڑکا تھا ’’اور اشی ما‘‘۔ ٹانگو نام، بستی میں رہتا تھا۔ اس بستی میں اور بھی بہت سے ملاح رہتے تھے۔
 ایک دن وہ نیلے سمندر میں مچھلیاں پکڑنے گیا۔ اس کی لگی (بنسی) میں ایک کچھوا پھنسا۔ جاپانیوں کا عقیدہ ہے کہ کچھوے ہزاروں برس زندہ رہتے ہیں۔ لڑکے نے سوچا اس کچھوے کو اتنی جلدی کیوں مار دیں۔ اس نے کچھوے کو پانی میں چھوڑ دیا اور چارا لگا کر لگی کو پھر پانی میں ڈالا۔ مچھلی پکڑنے کی اُمید میں۔ لیکن اب مچھلی کہاں؟ بنسی موجوں کے اوپر اُبھرنے لگی۔
 سورج ڈوب گیا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اوراشی ما اپنی ڈونگی (چھوٹی کشتی) میں سو گیا۔
 بہت دیر تک سونے کے بعد اس نے ایک آواز سنی جیسے اس کو کوئی پکار رہا ہو: ’’اوراشی ما.... اوراشی ما....‘‘
 کیسی پیاری آواز تھی! اوراشی ما اُٹھ کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔
 اس نے دیکھا کہ وہی کچھوا جسے اس نے دن کے وقت ترس کھا کر پانی میں چھوڑ دیا تھا پھر پانی سے سر نکالے ہوئے ہے اور خوب مزے میں آدمیوں کی طرح بول رہا ہے۔
 پہلے اس نے اوراشی ما کا بہت شکریہ ادا کیا پھر کہا، ’’مچھلی راجہ کا محل ’’ریوکو‘‘ میں ہے۔ وہاں چلو گے؟‘‘
 اوراشی ما ملاح کا بیٹا تو تھا ہی۔ راج محل دیکھنے کی بہت خواہش تھی۔ فوراً راضی ہوگیا۔ اس نے کہا، ’’ہاں! چلیں گے۔‘‘ تب کچھوے نے اس کو اپنی پیٹھ پر بٹھایا اور سمندر کے اندر مچھلی راج محل کی طرف چلا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ اوراشی ما کے کپڑے ذرا بھی نہ بھیگے۔
 چلا چل چلا چل وہ دونوں مچھلیوں کے ملک کے عالی شان راج محل میں پہنچ گئے۔ ملک میں ہلچل مچ گئی۔ ہر قسم کی مچھلیاں خوب بن سنور کے نووارد کو دیکھنے آئیں۔ یہ سب مچھلی راجہ کی پرجا تھیں۔ یہ سب مل کر اوراشی ما کو راجکماری کے پاس لے گئیں۔ راج کماری کا نام ’’اوتے ہی مے‘‘ تھا۔ اس کا لباس شفق جیسا لال اور سنہرا تھا۔ اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔
 راجکماری کا چہرہ شرم اور حیا سے لال ہورہا تھا۔ اس نے کہا کہ اس نے کچھوے کے بھیس میں اوراشی ما کا امتحان لیا تھا۔ وہ امتحان میں کامیاب ہوگیا۔ اب وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ شادی کے بعد دونوں ایسے دیس میں جا کر رہیں گے جہاں سدا جوانی ہے اور سدا بہار ہے۔
 اوراشی ما فوراً راضی ہوگیا۔ اُس کے تو خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اس جیسا ملاح کا بیٹا اتنا چین اور سکھ پائے گا۔
 پھر اس محل میں چھوٹی بڑی ہر قسم کی مچھلیاں ہرے، پیلے، بیگنی مختلف رنگوں کے کپڑے پہن کر تقریب میں شریک ہونے کے لئے آئیں۔ مزے دار مزے دار کھانے آئے میاں بیوی نے مہمانوں کے ساتھ کھانا کھایا پھر مچھلیوں نے خوب خوب ناچ دکھلائے۔
 شادی کی ہلچل ختم ہوگئی تو راجکماری اوراشی ما کو لے کر خزانے دکھانے چلی۔ موتی، ہیرا، جواہر، یاقوت وغیرہ کے ڈھیر کے ڈھیر تھے کوئی حد نہ تھی۔
 کئی دن کے بعد وہ دونوں دوسرے ملک میں چلے گئے۔ وہاں ہر طرف بہار ہی بہار تھی۔ پورب طرف چیری کے درخت قطار در قطار کھڑے تھے۔ سنہری تتلیاں پھولوں سے شہد چرا رہی تھیں۔ خوبصورت بلبل پھولوں کی ایک جھاڑی میں بیٹھی چہک رہی تھی۔ دکھن کی طرف مختلف رنگوں کے درخت بسنت کے خوبصورت پھولوں سے لدے ہوئے تھے۔ پچھم کی طرف خوبصورت تالابوں کا پانی پگھلے ہوئے سونے کی طرح چمک رہا تھا اور اتر کی طرف برف سے ڈھکے ہوئے سفیدسفید پہاڑ نظر آتے تھے۔ ملاح کے بیٹے کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ چلّا اُٹھا، ’’اوہو۔ کتنا سندر! کتنا خوبصورت....!‘‘ وہ جس طرف نظر اُٹھاتا تھا اسی طرف فطرت کا حسن پھٹا پڑتا تھا۔
 لیکن ایسے سندر دیس میں بھی تین دن میں اس کا جی گھبرا اُٹھا۔ باپ ماں کی یاد اُسے ستانے لگی۔ سدا بہار بھی اُسے زیادہ دن تک نہ رجھا سکی۔ اس کا دل رونے لگا۔ ایک بار صرف ایک بار وہ پھر اپنے گاؤں کو، گاؤں کے لوگوں کو اور ماں باپ کو دیکھنا چاہتا تھا۔
 راجکماری نے یہ سنا تو بہت پریشان ہوئی۔ وہ سچ مچ اوراشی ما کو بہت پیار کرتی تھی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ دامن پکڑ لیا اور کہا، ’’پیارے مت جاؤ۔ تمہارے بغیر مر جاؤں گی۔‘‘ لیکن اوراشی ما نے کچھ نہیں سنا۔ اس نے راجکماری سے بہت محبت سے کہا، ’’صرف ایک دن کی چھٹی چاہتا ہوں۔ بس گیا اور چلا آیا اس کے بعد ہمیشہ تمہارے ہی ساتھ رہوں گا۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘
 جاتے وقت راجکماری نے اُسے ہیرے کی ایک ڈبیا دی اور کہا، ’’یہ ڈبیا مَیں تمہیں اس لئے دے رہی ہوں کہ گھر جا کر تم مجھے بھول نہ جاؤ لیکن خبردار اسے کبھی کھولنا نہیں۔ کہے دیتی ہوں۔‘‘ اوراشی ما نے ڈبیا لے لی۔ اور ایک بڑے کچھوے کی پیٹھ پر بیٹھ کر ایک لمحے میں سمندر کے اندر سے اپنے گاؤں پہنچ گیا۔ پھر اپنے باپ کی جھوپڑی کو بہت تلاش کیا۔ لیکن اس کا کوئی نشان نہ ملا۔ گاؤں کی پہچانی ہوئی چیز بھی کوئی نظر نہ آتی تھی۔ صرف ایک ندی جو پچھم طرف بہتی چلی جا رہی تھی۔
 اب تو بہت مشکل ہوئی۔ آخر گاؤں کا ایک آدمی ملا تو اس سے اس نے پوچھا، ’’اے جناب! آپ کیا ملاح کے ایک لڑکے اوراشی ما کو پہچانتے ہیں؟‘‘ اوراشی ما کا نام سن کر وہ سر کھجانے لگا۔ بہت دیر تک سوچنے کے بعد یکایک اس نے کہا، ’’اوراشی ما! ہاں، ہاں! یہاں ایک لڑکا تھا۔ قصے میں اس کا نام سنا ہے۔ لیکن وہ تو تین سو برس پرانی بات ہے۔ قصے میں ہے کہ ایک دن وہ مچھلی پکڑنے گیا۔ لیکن پھر وہ واپس نہ آیا۔ شاید پانی میں ڈوب کر مر گیا۔ اس کے بعد اس کے باپ، ماں، بھائی، بہن اور دوسرے رشتہ دار بھی بہت دن ہوئے کہ مر گئے۔ تم اس کوڈھونڈ ہے ہو کیا؟ پاگل ہوئے ہو کیا؟‘‘ یہ کہہ کر وہ آدمی وہاں سے چلا گیا۔
 اس وقت اوراشی ما کو خیال ہوا کہ اُس دیس کا ایک دن اِس دُنیا کے ایک سو برس کے برابر ہے۔ وہ سمجھتا تھا کہ تین دن کے بعد گاؤں واپس جا رہا ہے۔ اصل میں وہ تین سو برس کے بعد آیا تھا۔
 اب یہاں رہنے سے کیا فائدہ؟ جن لوگوں سے اسے پیار اور محبت تھی وہ لوگ تو مر، کھپ گئے۔ آج اس کو زمانہ ہوگیا اس کا دل دکھ اور درد سے بھر گیا۔ اب زندہ رہنے کی اُسے خواہش نہ تھی۔
 یکایک نیلے سمندر کی موجوں کی آواز اس کے کان میں آئی! خوبصورت راجکماری کی باتیں یاد آئیں۔ پھر اس دیس کی باتیں یاد آئیں جہاں سدا بہار تھی۔ جہاں کے پتے پتے نہیں تھے نیلم تھے۔ جہاں کے پھل پھل نہیں بلکہ جواہرات تھے۔ جہاں لال، پیلے اور سبز رنگ کی مچھلیاں پانی کی تہہ میں کھیلتی تھیں۔ جہاں موت نہ تھی۔ جہاں کوئی بوڑھا نہیں ہوتا تھا۔ جہاں صرف جوانی تھی اور بہار تھی۔ کوئی غم نہ تھا۔ صرف خوشی تھی۔
 موجوں کی آواز اور زیادہ زور سے آنے لگی۔ اُسے ایسا معلوم ہوا جیسے راجکماری اسے بلا رہی ہے۔ جیسے وہ ساحل کے قریب کھڑی ہے اور منتظر نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ لیکن ہائے! ہائے! راستہ کہاں ہے؟ اسے لے جانے کیلئے کوئی آتا بھی تو نہیں ہے؟ اب وہ کیا کرے!
 وہ ساحل کے کنارے کھڑے ہو کر چلا چلا کر پکارنے لگا، ’’اوتے ہی مے....! اوتے ہی مے! راجکماری!‘‘
 ساحل کی موجیں اس کے پاؤں تک آآ کر گرتی تھیں۔ لیکن راجکماری کا کوئی پتہ نہ تھا۔
 تب اُسے راجکماری کا تحفہ، وہ جواہرات کی ڈبیا یاد آئی۔ اُسے خیال ہوا کہ شاید اس کے کھولنے سے وہاں جانے کا راستہ اسے مل جائے۔
 ڈر کے مارے اوراشی ما کا ہاتھ کانپنے لگا۔ آہستہ آہستہ وہ اس کو کھولنے لگا۔ جیسے ہی ڈبیہ کھلی اس میں سے تھوڑا سا دھواں نکلا اور ہوا میں مل گیا۔ اوراشی ما نے آتے وقت راجکماری سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس ڈبیا کو کبھی نہ کھولے گا۔ اس نے اس وعدے کو توڑ دیا۔ دیکھتے دیکھتے وہ بڈھا ہوگیا۔ آنکھیں دھنس گئیں۔ اور بے نور ہوگئیں۔ جسم کا گوشت لٹک آیا۔ چہرے پر جھریاں پڑ گئیں۔ بال سفید ہوگئے۔ لمبی سفید ڈاڑھی نکل آئی جو ہوا میں اُڑنے لگی۔
 اس نے راجکماری کو پکارنا چاہا لیکن اس کے گلے سے آواز نہ نکلی۔ وہ تین سو برس کا بڈھا ہوگیا۔ دونوں پاؤں کانپنے لگے۔ اور ایک تیز ہوا کے جھونکے سے بے دم ہو کر ریت پر گر پڑا۔
(ماخوذ: پیام تعلیم، ۱۹۳۸ء)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK