Inquilab Logo

عید کا جوڑا....

Updated: April 06, 2024, 12:42 PM IST | Farhi Naeem | Mumbai

ہاجرہ بس دیکھتی رہ گئیں۔ برس کے برس کا تہوار اور ایسی بے سرو سامانی… اب کس سے رقم اُدھار مانگوں۔ یکایک دِل سے آواز آئی، ’’اللہ سے....‘‘ اور وہ مسکرادیں۔ ’’....مَیں بھی کیسی بےوقوف ہوں، جو انسانوں سے اُمید لگارہی ہوں۔‘‘ یہ سوچتے ہی اُنہوں نے وضو کیا، دو نفل پڑھے اور اللہ کے حضور گڑگڑا کے دُعا کی۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

’’روشی! اب بس بھی کر، چُپ ہوجا، تجھے یوں روتا دیکھ کر مجھ سے کام بھی نہیں ہورہا۔‘‘ امّاں نے بیگم ریحانہ کے قیمتی سوٹ پر رنگین جھلملاتے بٹن نما نگ ٹانکتے ہوئے کہا، جو وہ ابھی دے کر گئی تھیں اور ایک گھنٹے کے وعدے پر انہیں واپس بھی کرنا تھا۔ ویسے تو بٹن ٹانکنے اور ترپائی وغیرہ کا کام روشی کے ذمّے تھا، لیکن اس کے بلک بلک کے رونے کی وجہ سے آج ہاجرہ بی خود ہی بٹن ٹانکنے بیٹھ گئی تھیں۔
 ’’امّاں! مَیں نے پورے روزے رکھے، تراویح بھی پڑھی ہے، لیکن مجھے کیا ملا؟ عید کا ایک جوڑا تک تو بن نہ سکا۔ بھلایہ کہاں کا انصاف ہوا؟‘‘
 ’’یہ تُو کس پر اپنے نماز، روزے کا احسان جتلا رہی ہے؟‘‘ ہاجرہ نے ایک نگاہ روشی پر ڈالی، پھر فوراً ہی قمیص کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’اللہ تعالیٰ کو…؟‘‘
 ’’نہیں امّاں! لیکن کیا سب نہیں جانتےکہ ریحانہ آنٹی روزے نہیں رکھتیں، اس کے باوجود پورا رمضان شاپنگ اور افطار پارٹیوں میں لگی رہتی ہیں۔ تین جوڑے تو ہم ہی سے سلوائے ہیں اور درزی سے نہ جانے کتنے سلوائے ہوں گے۔ بغیر نماز، روزے کے، اُن کی عید کتنی شان دار گزرتی ہے اور ایک ہم ہیں۔‘‘
 ’’وہ تیرا نکما بھائی، جو کچھ کرتا کراتا نہیں، اُلٹا بہانے گھڑ کر پیسے بٹورتا رہتا ہے۔ جوتھوڑی بہت بچت کی تھی، وہ بھی لے اُڑا۔ سوچا تھا، بیٹا ہے، سہارا بنے گا، مگر…‘‘
 ’’اچھا، کل جو بیگم شبانہ پانچ سو روپے دے گئی تھیں، وہ کہاں ہیں؟‘‘ اُسے اچانک یاد آیا۔
 ’’بھول گئی ہو کیا، یاد نہیں، جب بل بھرواتے ہوئے پانچ سو روپے کم پڑگئے تھے، تو پڑوس کی خالہ سے منگوائے تھے، وہ کل مَیں نے انہیں واپس کردئیے۔‘‘
 ’’تو امّاں! عید کے بعد واپس کردیتیں۔‘‘ روشی کی آنکھوں میں پھر پانی بھر آیا۔
 ’’خالہ پرسوں آئی تھیںاور سخت تاکید کرکے گئیں کہ جیسے ہی کہیں سےسلائی کے پیسے ملیں، رقم واپس کردینا۔ اور تم نے ان پیسوں کا کیا کرنا تھا؟ اُن سے جوڑا تو بننے سے رہا۔ اچھا ہوا، قرض ادا ہوگیا۔‘‘
 ’’جوڑا نہ سہی، عید پر مٹھائی، کچوری کچھ تو اچھا کھالیتے۔ میرا کتنا دِل تھا کہ اس بار نکڑ والی بڑی بیکری سے کریم والا کیک منگوائوں گی، مگر…‘‘ روشی نے ایک بار پھر گھٹنوں میں سَر دے کر آنسو بہانے شروع کردئیے تھے۔ 
 پورا رمضان کتنا مصروف گزرا تھا۔ دن رات سلائی کرکر کے ہاجرہ بی نے کتنی محنت سے رقم جمع کی تھی کہ پچھلا کچھ قرض ادا کرکے، باقی پیسوں سے وہ روشی کے لئے ایک اچھا سا عید کاجوڑا لیں گی اور اُسے بیکری سے کیک بھی منگوا کر دیں گی، لیکن سب خواب ادھورے ہی رہ گئے۔ اُنھیں آج بھی یاد تھا کہ روشی کے بعد جب بیٹا ہوا، تو کتنے چاؤ سے اُس کا نام رشید رکھا تھا۔ وہ باپ کا اتنا لاڈلا تھا کہ اِدھر کوئی فرمایش کرتا، باپ فوراً ہی پوری کردیتا اور اسی بےجا لاڈ پیار نے اُسے بہت بگاڑ بھی دیا تھا۔ جیسے تیسے کرکے اُس نے میڑک کا امتحان دیا، مگر نتیجہ آنے سے پہلے ہی باپ کو دِل کا دورہ پڑا، جو جان لیواثابت ہوا۔ اور پھر باپ کے انتقال کے بعد تو اُس نے ایسے پَر پرزے نکالے کہ ماں اور بہن کو ناک چنے چبوا دئیے۔ ہاجرہ نے کئی جگہ اُسے کام پر رکھوایا بھی، لیکن وہ ہر بار کام چھوڑ کر بھاگ جاتا۔ اسی لیے سب اُسے ’’نکما‘‘ کہتے تھے۔ سارا دِن دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرتا اور رات گئے گھر آکے کھانا کھا کر چارپائی پر ڈھیر ہوجاتا۔ بس، ماں، بیٹی ہی کی وجہ سے گھر کا دال دلیہ چل رہا تھا۔ روشی محلے کے دوچار بچّوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتی تھی، لیکن چوں کہ غریبوں کا محلّہ تھا، اس لیے فیس بھی زیادہ نہ ملتی۔
 ’’امّاں! اب نکما گھر آئے گا ناں، تو مَیں اسے اندر گھسنے نہیں دوں گی۔‘‘ روشی نے ماں کو احتیاط سے قمیص تہہ کرتے دیکھ کر کہا۔ ’’آج چاند رات ہے، کیسی رونق ہوگی بازاروں میں…‘‘ وہ پھر حسرت سے بولی۔
 ’’ایسی باتیں کرکے جی ہلکان نہ کیا کر، چل اُٹھ، کھانا کھالے۔ افطاری بھی ٹھیک سے نہیں کی تھی۔ ہاں یاد آیا، کون مہندی منگوالی تھی؟‘‘ ہاجرہ کو اچانک مہندی یاد آگئی۔
 ’’نہیں لگانی مجھے کوئی مہندی، وہندی۔‘‘ وہ چڑ کر بولی اور کمرے سے باہر چلی گئی۔
 تھوڑی دیر میں بیگم ریحانہ اپنی قمیص لینے آئیں اورہاجرہ کے ہاتھ پر پچاس روپے کا نوٹ بے نیازی سے رکھ کر چلی گئیں۔ اُن کے ایک بٹن کی قیمت پچاس سے زیادہ ہوگی، مگر اتنے بٹنوں کی لگوائی محض پچاس روپے…
 ہاجرہ بس دیکھتی رہ گئیں۔ برس کے برس کا تہوار اور ایسی بے سرو سامانی… اب کس سے رقم اُدھار مانگوں۔ یکایک دِل سے آواز آئی، ’’اللہ سے....‘‘ اور وہ مسکرادیں۔
 ’’....مَیں بھی کیسی بےوقوف ہوں، جو انسانوں سے اُمید لگارہی ہوں۔‘‘ یہ سوچتے ہی اُنہوں نے وضو کیا، دو نفل پڑھے اور اللہ کے حضور گڑگڑا کے دُعا کی۔ 
 ’’امّاں....!‘‘ تھوڑی دیر بعد روشی پھر ماں کے پاس چلی آئی، جو باورچی خانے میں کھڑی سویاں بھون رہی تھیں۔
 ’’ہم نے عید پر صرف سویاں ہی تو کھانی ہیں، صبح بن جاتیں۔‘‘ اس نے رندھی آواز میں کہا۔
 ’’وہ مَیں…مَیں کہہ رہی تھی کہ شوکت صاحب کی بیگم ہی سے کچھ رقم اُدھار مانگ لیں۔ وہ خدا ترس خاتون ہیں، شاید کچھ دے دیں۔‘‘
 ’’نہیں، کسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں، مَیں نے عرضی پیش کردی ہے۔‘‘
 ’’کسے امّاں؟‘‘ خوشی کا ایک رنگ روشی کے چہرے پر لہرایا۔
 ’’اپنے رب کے حضور…‘‘ یہ سُن کر روشی نے لب بھینچ لئے اور دھیرے سے بولی، ’’امّاں! اب معجزے اور کرامتیں نہیں ہوتیں۔ ہم بہت گناہگار بندے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے میں سونے چلی گئی۔
 ہاجرہ بھی کام نمٹا کر سو گئیں۔ فجر کی اذان ہوئی، تو ہاجرہ نے نماز پڑھ کر ہاتھ میں تسبیح پکڑلی۔ تسبیح پڑھتے پڑھتے کب آنکھ لگ گئی، پتہ ہی نہ چلا۔ دروازے پر دستک سے آنکھ کھلی، تو عید کی نماز کا وقت ہوچکا تھا۔ گلی میں چہل پہل تھی۔ مَردوں، بچّوں کا شور سُنائی دے رہا تھا۔
 اتنے میں دروازہ بجا۔ ’’کون ہے؟‘‘ بیٹے کی خالی چارپائی دیکھ کر سوچا کہ نکما ہوگا، دروازہ کھولا، تو وہی کھڑا تھا۔
 ہاجرہ نے اس کی طرف دوسری نظر ڈالنا بھی گوارا نہ کی اور اندر کی طرف بڑھ گئیں۔ ’’امّاں…‘‘ رشید کے لہجے میں کچھ تھا کہ اُن کے بڑھتے قدم رک گئے۔ پلٹ کر دیکھا۔
 ’’امّاں، روشی کہاں ہے؟‘‘ وہ ہونٹ کاٹتا پوچھ رہا تھا۔
 ’’اندر سورہی ہے۔ کوئی کام ہے، تو مجھے بتا دے۔ اُس سے کچھ نہ کہنا۔ پہلے ہی رات بھر روتی....‘‘ یہ کہتے ہوئے ہاجرہ کا دِل بھرآیا۔
 ’’امّاں…یہ دیکھو، امّاں! مَیں یہ سب روشی کے لئے لایا ہوں۔‘‘ وہ نظریں جھکائے شرمندہ شرمندہ سا کہہ رہا تھا۔ ساتھ ہی اس نے صحن میں پڑے تخت کی طرف اشارہ کیا۔
 ہاجرہ نے چونک کر دیکھا، تو سامان سے بھرے دو تین شاپر رکھے تھے۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘ وہ متحیر تھیں۔
 ’’امّاں! مَیں نے پچھلا پورا ہفتہ ایک عید اسٹال پر دِن رات ایک کیا ہے۔ یہ میری محنت کی کمائی ہے۔ مَیں روشی اور تیرے لیے ریڈی میڈ جوڑے، جوتے اور چوڑیاں لایا ہوں اور نکڑ والی بیکری کا کیک بھی۔ اُسے بہت پسند ہے ناں، کب سے وہ تم سے فرمائش کررہی تھی۔ امّاں! مجھے معاف کردو امّاں، مَیں نے تم لوگوں کا بہت دِل دکھایا ہے۔‘‘
 ہاجرہ مجسمۂ حیرت بنی اُسے تک رہی تھیں۔ اور وہ ہاتھ جوڑے لجاجت سے معافیاں مانگ رہا تھا۔ ہاجرہ کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ سب اُن کا نکما لایا ہے۔
 رشید اور بھی کچھ کہہ رہا تھا، لیکن وہ تو سب سے پہلے اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہتی تھیں اور پھر روشی کو بھی تو سب دکھانا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK