Inquilab Logo

جھوٹا سچ

Updated: August 08, 2020, 3:12 AM IST | Taskeen Zaidi | Mumbai

یہ کہانی مینا کی ہے۔ مینا کو اس کے ماسٹر صاحب کہتے ہیں ’’ہمیشہ سچ کہنا چاہئے۔‘‘ مگر جب وہ سچ کہتی ہیں تو گھر میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اسے سمجھ نہیں آتا کہ آخر سچ کہنا چاہئے یا جھوٹ، پڑھئے مکمل کہانی۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

مینا! دیکھو تمہارے نئے ماسٹر صاحب آئے ہیں ، کتابیں لے جاؤ اور باہر کے کمرے میں جاکر پڑھو۔ پانچ سال کی مینا سے اس کی ممی شکیلہ نے کہا۔مینا کتاب، کاپی اور پنسل کے ساتھ کمرے میں جاکر بیٹھ گئی۔ سامنے ہی ماسٹر صاحب کرسی پر بیٹھ گئے اور مینا سے بولے ’’تمہارا کیا نام ہے؟‘‘ ’’سر! مجھے مینا رضوی کہتے ہیں ۔‘‘ وہ ادب سے بولی۔ ’’تمہارے پاپا کا نام؟‘‘ ’’سر! انہیں عباس حسین رضوی کہتے ہیں ۔‘‘ ماسٹر صاحب بولے ’’ٹھیک ہے۔ دیکھو مینا! تمہیں خوب دل لگا کر پڑھنا ہے اور آج پڑھائی کا پہلا دن ہے۔ آج کا سبق صرف یہ ہے کہ ہمیشہ سچ بولو اور بڑی سے بڑی پریشانی اور مصیبت میں بھی جھوٹ نہ بولنا۔‘‘ ’’مینا نے کہا ’’جی بہت اچھا، مَیں ایسا ہی کروں گی۔‘‘ پھر کچھ ٹھہر کر اس نے پوچھا ’’سر کتاب نکالوں ؟‘‘ ماسٹر بولے ’’نہیں آج کا سبق بس یہی ہے کہ سچ بولو۔‘‘ رات ہوئی اور پاپا نے مینا سے پوچھا ’’بیٹی! ماسٹر صاحب نے کیا پڑھایا؟‘‘ ’’پاپا کچھ بھی نہیں .... صرف اتنا کہا ’’ہمیشہ سچ بولو‘‘ پاپا کیا ہمیشہ سچ ہی بولنا چاہئے؟‘‘ ’’ہاں بیٹے!‘‘ انہوں نے سوچتے ہوئے کہا۔
 اتنے میں کمرے سے ایک زور دار آواز آئی یہ شکیلہ تھی اس کی ممی ’’مینا کیا ماسٹر صاحب کا دیا ہوا کام کر لیا؟‘‘’’ممی انہوں نے تو کچھ کام دیا ہی نہیں ۔‘‘’’کیوں ؟‘‘ شکیلہ نے پوچھا۔
 اس سے پہلے کہ مینا کوئی جواب دیتی اس کی دادی امّاں درمیان میں بول پڑیں ’’ارے آج کل کے ماسٹر تو صرف پیسہ کمانے آتے ہیں ۔ مَیں نے تو پہلے ہی منع کیا تھا کہ لڑکی ذات کو پڑھانے سے کیا فائدہ؟ عباس ہے کہ سنتا ہی نہیں پھر کل لڑکی بڑی ہوگی جہیز بھی تو دینا ہے فضول پڑھائی میں اس پر اتنا پیسہ خرچ کرنے سے کیا فائدہ؟‘‘ ’’ارے اب زمانہ بدل چکا ہے۔ لوگ چاند کے آگے جا پہنچتے ہیں ۔ لڑکیوں کو ہم کیوں جاہل رکھیں اگر ماں تعلیم یافتہ نہیں ہوگی تو اپنے بچوں کی تعلیم پر کیسے توجہ دے گی۔‘‘ عباس نے امّاں جی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
 وہ ناراض ہوتے ہوئے بولیں ’’ارے مجھے کیا کرنا ہے آج کل کوئی میری سنتا ہی نہیں ، جو تم لوگوں کے جی میں آئے کرو۔‘‘ مینا نے بات کاٹتے ہوئے کہا ’‘’ماسٹر صاحب تو صرف سچ بولنے کو کہہ گئے ہیں ۔‘‘ ’’ہاں بیٹی بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔‘‘ شکیلہ بولیں ۔
 مینا فوراً بول پڑی ’’ممی! ماسٹر صاحب نے تمہیں بھی یہی بتایا؟‘‘ اتنے میں گھنٹی کی آواز نے سب کو چونکا دیا۔ شکیلہ نے اوپر سے دیکھا اور کہا ’’اجی سنئے آپ کو زیدی صاحب پوچھ رہے ہیں کیا کہہ دوں ؟‘‘ ’’ایک ضروری کام کر رہا ہوں ، کہہ دو نہیں ہیں ۔‘‘ مینا یہ گفتگو سن کر مایوس ہوکر لوٹنے لگے تو شکیلہ بات بناتے ہوئے بولی ’’پاپا کہہ رہے ہیں کہہ دو وہ نہیں ہیں ۔‘‘زیدی صاحب یہ سن کر مایوس ہوکر لوٹنے لگے تو شکیلہ بات بناتے ہوئے بولی ’’نہیں بھائی صاحب وہ بات یہ ہے کہ.... آپ آیئے وہ آتے ہی ہوں گے.... اور دیکھو مینا خاموش رہا کرو۔‘‘ زیدی صاحب اور ان کی بیگم نسیم اندر صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے ’’حالت خراب ہوگئی بیگم اتنی دور چل کر آئے اور پتہ چلا عباس صاحب گھر پر نہیں ہیں ۔‘‘ ’’ارے آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں بھابی کی ایک کپ کافی سے آپ کی ساری تھکان دور ہوجائے گی۔ کیوں بھابی؟‘‘ نسیم بیگم نے شکیلہ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں ہاں .... کیوں نہیں ابھی بنا کر لاتی ہوں ۔‘‘ شکیلہ نے بناوٹی مسکراہٹ سے کہا۔’’عباس صاحب کہاں گئے ہیں ، ۷؍ بجے تک تو آفس سے آجاتے ہیں ۔‘‘ نسیم نے پوچھا۔’’وہ ابھی تک آفس سے نہیں آئے ہیں ، شاید اوور ٹائم کر رہے ہوں ۔‘‘ شکیلہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ درمیان میں مینا بول پڑی ’’آنٹی پاپا اوپر والے کمرے میں ہیں ۔‘‘نسیم نے تعجب سے کہا ’’لیکن بھابی تو کہہ رہی تھیں ابھی آفس سے نہیں آئے ہیں ۔‘‘تبھی شکیلہ بات کاٹتے ہوئے ہچکچاہٹ سے بولی ’’نہیں وہ تو پیچھے کے دروازے سے آگئے ہوں گے۔ اچھا اچھا چھوڑیئے اس بحث کو کافی پیجئے۔‘‘ زیدی صاحب کافی کی تعریف کرتے ہوئے بولے ’’واہ بھابی! کیا کافی بنائی ہے ایک گھونٹ میں ساری تھکان دور ہوگئی۔‘‘ ’’ارے بھائی صاحب نسیم بھابی روز تھوڑی آتی ہیں یہ انہیں کے آنے کی برکت ہے کہ کافی اتنی اچھی بنی ہے۔‘‘ شکیلہ بولی۔ ’’لیکن ممی ابھی تو آپ کافی بناتے وقت کہہ رہی تھیں نہ جانے کہاں سے چلے آتے ہیں اب تو مہمانوں کی وجہ سے گھر کہیں دور لینا پڑے گا۔‘‘ مینا پھر درمیان میں بول پڑی۔
 شکیلہ نے ناراض ہوتے ہوئے مینا کو ڈانٹا ’’چپ رہ بڑوں کے بیچ میں نہیں بولتے ہیں ۔ جاؤ اوپر جاکر اپنا سبق یاد کرو۔‘‘’’لیکن پاپا نے تو کہا تھا میرا پیچھا چھوڑو اور نیچے جاؤ۔‘‘ وہ چٹ سے بولی۔ 
 نسیم اس ماحول سے اکتائے ہوئے بولی ’’لو یہ رہی تمہاری کافی بہت سن چکی... کیا ہم نے کبھی کافی نہیں پی ہے، چلو جی تم ابھی تک بیٹھے ہو، یہ بے عزتی ہم برداشت نہیں کرسکتے۔‘‘ اور وہ ناراض ہوتے ہوئے چل دیئے۔شکیلہ جھپیٹتے ہوئے پریشان ہوکر بولی ’’ارے.... ارے سنئے تو... رکے تو اس کی بات کا یقین نہ کیجئے۔‘‘ مگر دونوں باہر چلے گئے۔
 عباس صاحب اور شکیلہ، مینا کو پیٹتے ہوئے بولے ’’اور بولے گی بڑوں کے درمیان.... ہم نے منع کیا تھا کہ یہ نہ بتانا کہ پاپا گھر میں ہیں ۔‘‘مینا چپ چاپ بھیگی آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے ایک طرف سسکتی رہی اور بار بار یہی سوچتی رہی کہ ماسٹر صاحب، پاپا اور ممی سب تو یہی کہتے ہیں کہ ہمیشہ سچ بولو لیکن مَیں کیا بولوں .... مَیں کیا بولوں ....؟ بڑے جو کچھ کہتے ہیں جو کچھ بچوں کو سکھاتے ہیں خود اس پر عمل نہیں کرتے تو بچّے کیا کریں کہاں جائیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK