Inquilab Logo Happiest Places to Work

بونوں کا جزیرہ

Updated: July 12, 2025, 3:00 PM IST | Turakina Kazi | Mumbai

آئرش مصنف جوناتھن سوئفٹ کے مشہور ناول کا اقتباس۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ترجمہ: توراکینہ قاضی
inquilab@mid-day.com
مَیں اپنے چند دوستوں کے ساتھ بحری سفر پر روانہ ہوا۔ شروع شروع میں یہ سفر بہت خوشگوار رہا پھر ہمارا جہاز زبردست طوفان میں گھر گیا اور ایک چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگیا۔ زبردست طوفان کی وجہ سے مجھے اپنے ساتھیوں کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ خوش قسمتی سے ساحل قریب تھا۔ میں تیرتا ہوا ساحل تک پہنچا۔ تھک کر چور ہوچکا تھا اور نیند بھی آرہی تھی، اسلئے مناسب جگہ تلاش کرکے گھاس پر سو گیا۔ اُس وقت میرے اندازے کے مطابق رات کے آٹھ بجے ہوں گے۔
 صبح جب میری آنکھ کھلی تو دن کی روشنی پھیل چکی تھی۔ میں نے اٹھنا چاہا لیکن اٹھ نہ سکا۔ مجھے اپنے پورے جسم پر چھوٹے چھوٹے بندھن محسوس ہوئے۔ پورا جسم زمین سے کسی چیز سے بندھا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ میرے گھنے اور لمبے بال بھی زمین سے بندھے ہوئے تھے۔ میں صرف اوپر کی طرف دیکھ سکتا تھا۔ سورج بلند ہونا شروع ہوگیا تھا اور اس کی تیز دھوپ میری آنکھوں میں گھسی جارہی تھی۔
 میں نے اپنے آس پاس عجیب سا شور سنا لیکن میں کچھ اس طرح بندھا ہوا تھا کہ سوائے آسمان کے کچھ بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میری بائیں ٹانگ پر کوئی چیز حرکت کر رہی ہے۔ وہ میرے جسم پر میرے سینے کی طرف بڑھی چلی آرہی تھی۔ وہ چلتی چلتی میری ٹھوڑی تک آپہنچی۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنے سر کو تھوڑا سا اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ مجھے ایک ایسا شخص دکھائی دیا جس کا قد مشکل سے چھ انچ تھا۔ اس کے ہاتھوں میں تیر کمان اور کندھے پر ترکش تھا۔ اس وقت مجھے ایسے تیس چالیس بونے اپنے جسم پر چلتے ہوئے محسوس ہوئے۔ میں حیرت زدہ رہ گیا۔ میرے منہ سے بے ساختہ ایسی آواز نکلی کہ وہ سب ڈر کے مارے بھاگ کھڑے ہوئے۔
 مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ان میں سے کچھ بونے میرے جسم سے کودتے ہوئے زخمی ہوگئے تھے۔ اس کے باوجود بہت سے بونے واپس لوٹ آئے۔ ان میں سے ایک بونا بہت بہادر نکلا۔ وہ میرے جسم پر چلتا ہوا سیدھا میرے چہرے کے سامنے آکھڑا ہوا۔
 میں زمین پر انتہائی تکلیف کی حالت میں چت لیٹا ہوا تھا۔ اپنے آپ کو بندھنوں سے آزاد کرانا مجھے ضروری معلوم ہوا۔ بہت زور لگانے پر میرے بائیں بازو پر بندھی ہوئی رسیاں ٹوٹ گئیں اور میرا بایاں ہاتھ آزاد ہوگیا۔ پھر ایک زور دار جھٹکے سے مَیں نے اپنے سر کے بالوں کو بھی بائیں طرف سے آزاد کر لیا۔ اس حرکت سے مجھے بے پناہ تکلیف پہنچی لیکن میں کم از کم دو انچ تک اپنا سر گھمانے کے قابل ہوگیا۔ اب میں نے ان بونوں کو اپنے آزاد ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کی۔ وہ چیختے چلّاتے ہوئے وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ وہ عجیب سی زبان میں چلّا رہے تھے۔
 جب شور تھما تو کسی نے بلند آواز میں چلّا کر کوئی حکم دیا۔ اس حکم کے ساتھ ہی سیکڑوں تیر میرے بازو کی طرف چلائے گئے۔ مجھے ایسا لگا جیسے سیکڑوں ننھی ننھی سوئیاں میرے بازو میں پیوست ہوگئی ہوں۔ کچھ بونوں نے نیزوں سے مجھے زخمی کرنا چاہا لیکن خوش قسمتی سے میں چمڑے کی جیکٹ پہنے ہوئے تھا۔ ان کے نیزے جیکٹ کو چھیدنے میں ناکام رہے۔ میں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ چپ چاپ پڑا رہوں اور رات ہونے کا انتظار کروں۔
 میں نے آزاد ہونے کی کوشش ترک کر دی تھی اس لئے تیر اندازی بھی بند ہوگئی۔ مگر اب ان کے شور و غل میں بہت اضافہ ہوچکا تھا۔ شاید اس جگہ بہت سے بونے جمع ہوگئے تھے۔ میں نے اپنے بائیں کان کے قریب دستک جیسی آوازیں سنیں۔ یہ آوازیں مسلسل بہت دیر تک آتی رہیں۔ سر گھما کر دیکھا تو مجھے وہاں زمین سے ڈیڑھ فٹ بلند ایک چبوترہ دکھائی دیا۔ اس چبوترے پر چڑھنے کے لئے سیڑھیاں لگی ہوئی تھیں۔ اس وقت چبوترے پر ایک ایسا شخص کھڑا تھا جو اپنے لباس اور رکھ رکھاؤ سے بونوں کا سردار معلوم ہوتا تھا۔ اس نے میرے سامنے ایک طویل تقریر کی۔ میں اس کا ایک لفظ بھی سمجھ نہ سکا۔
 میں اپنا ہاتھ بار بار اپنے منہ کی طرف لے گیا اور اسے اشاروں سے سمجھایا کہ میں سخت بھوکا ہوں۔ وہ سردار میرا اشارہ سمجھ گیا، فوراً چبوترے سے نیچے اترا اور بونوں کو کوئی حکم دیا۔ بونوں نے کئی سیڑھیاں میرے پہلو سے لگا دیں۔ ان سیڑھیوں کے ذریعے بے شمار بونے میرے جسم پر چڑھ گئے اور چلتے ہوئے میرے منہ کی طرف آتے گئے۔ ان بونوں نے بھنے ہوئے گوشت سے بھری ہوئی ٹوکریاں اٹھا رکھی تھیں۔ چند ٹوکریوں میں چھوٹی چھوٹی روٹیاں تھیں۔ میں دیکھتے ہی دیکھتے سب چٹ کر گیا۔
 بونے مجھے تیزی سے کھانا مہیا کرتے رہے۔ وہ میری خوراک دیکھ کر بہت حیران تھے۔ جب اُن کا لایا ہوا سب کھانا ختم ہوگیا تو میں نے انہیں اشارے سے بتایا کہ مجھے پیاس لگی ہے۔ وہ پانی کے کئی پیپے لڑھکاتے ہوئے میری طرف لائے اور میرے ہاتھ کے قریب انہیں کھڑا کر دیا اور ڈھکن کھول دیئے۔
 میں کھانے سے فارغ ہوا تو وہ خوشی سے چلّانے لگے۔ میرے سینے پر ناچنے کودنے لگے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اپنے جسم پر چلتے ہوئے ان بونوں کو اپنے ہاتھ سے پکڑ لوں اور انہیں زمین پر دے ماروں۔ پھر سوچنے لگا کہ ان بونوں نے میری میزبانی کی ہے۔ انہیں نقصان پہنچانے کے بجائے مجھے اُن کا احسان مند ہونا چاہئے۔
 بونوں نے سردار کے حکم سے مجھے آزاد کر دیا۔ میں جب تک وہاں رہا، وہ میری میزبانی کرتے رہے۔
 ایک عرصے کے بعد ایک بحری جہاز اس جزیرے کے پاس سے گزرا اور میں اُس جہاز میں سوار ہو کر اپنے وطن واپس لوٹ آیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK