Inquilab Logo

خزانے کا بھوت

Updated: November 25, 2023, 1:18 PM IST | Muzaffar Hanafi | Mumbai

چمگادڑیں پھڑپھڑاتی ہوئی ہمارے کانوں کے پاس سے گزر کر تاریکی میں کھو جاتی تھیں، طوفانی ہوا سے اونچے تناور درختوں کے پتے زور زور سے کھڑا کھڑا رہے تھے، جیسے کالے کالے دیو تالیاں پٹ رہے ہوں اور ہم لوگ اس ہولناک منظر سے قطعی بے پروا، تاریکی کو اپنی ٹارچ سے چیرتے ہوئے بلّو کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

مجھے جاسوسی ناول اور افسانے پڑھنے کا بہت شوق رہا ہے، مَیں تقریباً ہر دوسری کہانی میں یہی پڑھتا تھا کہ کسی کو تصویر کے فریم میں ایک خزانے کا نقشہ ملا اور اس کی مدد سے وہ لکھ پتی بن بیٹھا یا کسی شخص کو ڈاکوؤں کی قیام گاہ معلوم ہوگئی اور وہ تھوڑی سی چالاکی سے ان کی تمام دولت پر قابض ہوگیا۔ اس قسم کے قصے پڑھ پڑھ کر میرے دل میں دھیرے دھیرے یہ تمنّا چٹکیاں لینے لگی کہ کاش مجھے بھی کوئی ایسا ذریعہ مل جائے جس کی مدد سے مَیں کسی خزانے کا مالک بن سکوں ۔ خزانے کے خیال ہی سے میرے دماغ میں ہلچل مچ جاتی اور میرے سامنے انجانے خزانے کی اشرفیاں ، ہیرے اور جواہرات جگمگانے لگتے۔ رفتہ رفتہ میری خبط اور جنون کی حدود کو چھونے لگی۔ اب مَیں دن رات خزانے کے تصور میں ڈوبا رہتا!
 ایک روز میرے والد صاحب کے ایک گہرے دوست اوم پرکاش سنڈ، جو سپرنٹنڈنٹ پولیس تھے، ہمارے گھر آئے۔ باتوں ہی باتوں میں ان سے معلوم ہوا کہ بنجاروں کے قافلے جو ادھر اُدھر بھٹکتے ہوئے خانہ بدوشی میں عمر گزار دیتے ہیں ، بعض اوقات موقع پا کر چوری ڈکیتی بھی کیا کرتے ہیں اور ایسا چرایا ہوا سامان پولیس کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کے لئے کسی جگہ دفن کر دیتے ہیں۔ اور کوئی ایسا نشان اس جگہ مقرر کر دیتے ہیں کہ اگر کبھی ادھر ان کا یا ان کے بعد ان کی اولاد کا گزر ہو تو آسانی سے اسے شناخت کرسکیں !
 اب مَیں نے بنجاروں سے میل جول بڑھانا شروع کیا جب کبھی ہمارے گاؤں میں بنجاروں کا کوئی گروہ آکر قیام کرتا، مَیں وہاں پہنچ جاتا اور ان لوگوں کو سبز باغ دکھا کر کسی پوشیدہ خزانے کا پتہ بتانے کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا لیکن وہ لوگ بھی بڑے ہی چلتے پرزے ہوتے ہیں ، مجھے کسی نہ کسی طرح باتیں بنا کر ٹرخا دیا کرتے، اور ایک مرتبہ تو ایک قافلے کے سردار نے مجھے بری طرح بے عزت کرکے اپنے خیمے سے نکلوا بھی دیا۔ شاید اسے شک ہوگیا تھا کہ میرا تعلق خفیہ پولیس سے ہے!
 میرے لئے اب بڑی دشواریاں پیدا ہوگئیں ، بنجاروں کے خیموں میں جاتے ہوئے اس لئے ڈرتا تھا کہ کہیں کوئی سر پھرا ناراض ہو کر میری زندگی کا ہی خاتمہ نہ کر دے اور خزانے کی تلاش کا بھوت اس بری طرح سر پر سوار تھا کہ اتارے نہ اترتا تھا۔ ایک دن انہیں خیالات میں غرق کمرے میں بیٹھا تھا کہ دروازے پر ایک فقیر نے آکر صدا دی۔ شکل و صورت اور پوشاک سے وہ کوئی بنجارہ معلوم ہوتا تھا اسے اندر بلا کر دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ واقعی وہ بنجارہ ہی ہے قافلے کے سردار نے اسے برادری سے نکال دیا تھا کیونکہ وہ اسے پولیس کا مخبر سمجھتے تھے۔ اب وہ بھیک مانگ کر اپنا پیٹ پال رہا تھا۔
 مَیں نے اسے اپنے ساتھ رکھ لیا، تھوڑے ہی دنوں میں بنجارہ، مجھ سے گھل مل گیا اور جب وہ مجھ سے خوب بے تکلف ہوگیا تو ایک دن مَیں نے اس کے سامنے خزانے کا ذکر چھیڑا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ تھوڑی دیر آنا کانی کرنے کے بعد اس نے تسلیم کر لیا کہ اسے ایک ایسے خزانے کا پتہ معلوم تھا جسے اس کے دادا کے زمانے میں قافلے والوں نے ہمارے گاؤں کے قریب ہی دفن کیا تھا۔ زیادہ اصرار کرنے پر وہ جگہ بتانے پر بھی آمادہ ہوگیا، جہاں خزانہ دفن تھا۔
 اس نے مجھے بتایا کہ خزانہ گاؤں سے دو میل دور، ناگچون تالاب کے کنارے پیپل کے نیچے دفن ہے اور اسے کھودنے کے لئے کم از کم چار آدمیوں کی ضرورت ہے۔ ہم نے طے کر لیا کہ خزانہ جمعرات کی رات کو نکالنے جائیں گے!
 خدا خدا کرکے جمعرات آئی۔ اس درمیانی عرصے میں مَیں نے اپنے دو جگری دوستوں رام کرشن اور مدن کو ساتھ دینے پر آمادہ کر لیا تھا۔ رات کو ٹھیک بارہ بجے، جب آسمان کالے بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا، مَیں ، مدن، رام کرشن اور بنجارہ جس کا نام بلّو تھا، چاروں آدمی کدال پھاوڑے، ٹارچ، نانپنے کا فیتہ اور کئی قسم کے دوسرے ضروری سامان سے لیس ہو کر گھر سے چل پڑے۔ ہوا سائیں سائیں چل رہی تھی کبھی کبھی بجلی گھنے بادلوں کے درمیان پیلے کنکھجورے کی مانند چمک جاتی تھی اور کبھی بادل زور سے گرجنے لگتے تھے۔ مینڈک ٹر ٹر کر رہے تھے۔ چمگادڑیں پھڑپھڑاتی ہوئی ہمارے کانوں کے پاس سے گزر کر تاریکی میں کھو جاتی تھیں ، طوفانی ہوا سے اونچے تناور درختوں کے پتے زور زور سے کھڑا کھڑا رہے تھے، جیسے کالے کالے دیو تالیاں پٹ رہے ہوں اور ہم لوگ اس ہولناک منظر سے قطعی بے پروا، تاریکی کو اپنی ٹارچ سے چیرتے ہوئے بلّو کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔
 آخرکار ہم لوگ منزل مقصود پر پہنچ ہی گئے۔ ناگچون تالاب کے کنارے ایک سوکھے ہوئے پیپل کے نیچے کچھ ٹوٹی پھوٹی اینٹوں کا ایک ٹیلہ سا اُٹھا ہوا تھا، معلوم ہوتا تھا کہ اس جگہ کبھی اینٹیں بنائی گئی تھیں اور یہ ناکارہ اینٹیں یہیں چھوڑ دی گئی تھیں لیکن دراصل چالاک بنجاروں کے خزانے کا نشان تھا۔
 بہت جلد آٹھ پھرتیلے مضبوط ہاتھوں نے تمام اینٹوں کے ٹکڑے ہٹا دیئے اور پھر چار کدالیں کھچا کھچ اس جگہ کو کھودنے لگیں بیچ بیچ میں پھاوڑوں سے مٹی بھی سرکاتے جاتے تھے۔ چمگادڑیں پھڑپھڑائے جا رہی تھیں ، مینڈک لگاتار ٹرٹر کر رہے تھے، دور کہیں ایک اُلّو بھیانک آواز سے رو رہا تھا۔ گیدڑ تھوڑی دیر کے بعد چیخ اٹھتے تھے اور ہم چاروں گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک کے درمیان کھودتے چلے جا رہے تھے۔ مدن نے ٹارچ جلا کر گھڑی دیکھی، ’’تین تو بج گئے بلو! اور کتنی دیر کھودنا پڑے گا....؟‘‘
 ’’مجھے بتایا گیا ہے کہ خزانہ ساڑھے سات فٹ کی گہرائی پر ہے۔‘‘ اس نے ہانپتے ہوئے جواب دیا۔
 ’’چھ فٹ تو کھود چکے ہیں ۔‘‘ رام کرشن نے فیتے سے ناپ کر ہمیں بتایا۔
 ’’بھئی میرے تو ہاتھ شل ہوگئے۔‘‘ مدن نے کدال ہاتھ سے چھوڑ دی۔
 ’’واہ! اتنے میں ہی ہمت ہارے جاتے ہو۔‘‘ مَیں نے پسینہ پونچھتے ہوئے ہمت بڑھائی، ’’صرف ڈیڑھ فٹ ہی تو اور کھودنا ہے!‘‘
 ہم سب پھر کھودنے لگے اب کنکریلی زمین ختم ہوگئی تھی اور نرم مٹی نکلنے لگی تھی، سب نے جلدی جلدی ہاتھ چلانے شروع کئے اچانک میری کدال پھک سے کسی چیز میں گھس گئی زور لگانے پر بھی جب کدال نہ نکلی تو مَیں نے مدن، رام کرشن اور بلّو کو زور لگانے کیلئے کہا۔ بلّو ہاتھ روک کر کھڑا ہوگیا۔
 رام کرشن پھسپھسایا، ’’شاید خزانے کے بکس میں پھنس گئی ہے۔‘‘ مدن نے بھی تائید کی، ’’میرا بھی یہی خیال ہے!‘‘
 ہم تینوں نے مل کر اپنی پوری طاقت سے کدال کھینچی اور کدال ایک جھٹکے کے ساتھ باہر آگئی اور اس کے ساتھ کسی آدمی کی ہڈیوں کا ڈھانچہ بھی! میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے!، ’’کیا....؟‘‘ مَیں نے ڈر سے کانپتے ہوئے پوچھا۔
 ’’خزانے کا بھوت!‘‘ بلّو نے لرزتی ہوئی آواز میں جواب دیا اور لڑکھڑا کر کھودے ہوئے گڑھے میں گر گیا۔ وہ بے ہوش ہوگیا تھا۔ اسی وقت بادل زور سے گرجا، تاریکی، بادل کی گرج، کھڑکھڑاہٹ، درختوں کی ہوا کی سائیں سائیں ، اور کسی انسانی لاش کا پنجر..... ہمارے اوسان خطا ہوگئے اور ہم تینوں لڑکے چیخ کر بے تحاشا بھاگے، تھوڑی دور جا کر بھاگتے ہوئے مَیں نے پیچھے مڑ کر تاریکی میں یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ بلّو ہمارے ساتھ ہے یا نہیں ؟ اسی وقت زور کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ بجلی چمکی اور مَیں نے دیکھا کہ وہی انسانی لاش کا ڈھانچہ کھڑکھڑاتا ہوا چاروں ہاتھ پاؤں کے بل چلتا ہمارے پیچھے بھاگا چلا آر ہا ہے! بدحواسی میں کدال میرے ہاتھ سے چھوٹ پڑی اور اگر رام کرشن اور مدن مجھے نہ سنبھال لیتے تو مَیں بے ہوش ہو کر گر پڑتا، میرے دل سینے میں زور زور سے دھڑک رہا تھا جیسے باہر نکل پڑے گا۔ سر پر پاؤں رکھ کر ہم گھر کی طرف بھاگے!
 گھر پہنچ کر جب ہوش ہوا تو یاد آیا کہ غریب بلّو کو ہم اس ہیبت ناک مقام پر اکیلا ہی چھوڑ آئے ہیں اپنی خود غرضی پر ہمیں بہت ندامت ہوئی اور ہم نے طے کر لیا کہ مریں یا جئیں صبح جا کر بلّو کو اس مقام پر تلاش کریں گے اور صبح جب ہم لوگ اس پیپل کے نیچے کھدے ہوئے گڑھے پر پہنچے تو وہاں بلّو کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ایک شکستہ، زنگ خوردہ صندوق پڑا تھا۔ ہمت کرکے اسے کھولا خلاف امید اس سے ہیرے جواہرات کے بجائے ایک پرچہ نکلا۔ لکھا تھا:
 ’’آپ لوگ بہت بزدل ثابت ہوئے کہ خزانے کے مالک لکھ پتی کی لاش کے ڈھانچے سے ڈر کر بھاگ کھڑے ہوئے جسے بنجاروں نے قتل کرکے اس کے خزانے کے ساتھ ہی دفن کر دیا تھا۔ مَیں بے ہوش نہ ہوا تھا بلکہ آپ لوگوں کی بدحواسی سے فائدہ اٹھانے کے لئے بے ہوش سا بن کر یہاں رہ گیا تھا اور اب اس بے بہا خزانے کا تنہا مالک مَیں ہوں ۔‘‘
 بلّو....!
 واپسی میں تلاش کرنے پر مجھے اپنی کدال بھی مل گئی جس کی نوک اس ہڈیوں کے ڈھانچے میں اب تک گھسی ہوئی تھی۔ اب ہماری سمجھ میں آیا کہ ڈھانچہ ہم لوگوں کا تعاقب نہیں کر رہا تھا، بلکہ بدحواسی میں ، مَیں خود اسے اپنی کدال میں اٹکائے وہاں تک گھسیٹ لایا تھا!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK