Inquilab Logo

لوہار کی ایک

Updated: July 18, 2020, 3:12 AM IST | Shakeel Anwar | Mumbai

یہ کہانی چچا اور دوبھتیجوں کی ہیں ۔ ان تینوں میں خوب بنتی ہیں مگر ایک غلطی کی وجہ سے چچا ناراض ہو جاتے ہیں ۔ دونوں بھیجتے چچا کو کس طرح مناتے ہیں ، یہ جاننے کیلئے پڑھئے مکمل کہانی۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

چچا اقبال اِن دنوں ہم دونوں بھائیوں سے شدید ناراض تھے اور ہم دونوں کا یہ عالم تھا کہ جیسے ہم سے ہماری کوئی عزیز شے چھین لی گئی ہو۔ اوّل اوّل تو بھائی جان بہت خوش ہوئے تھے کہ انہوں نے چچا کو اپنے بھتیجے ہونے کا احساس کرا دیا ہے اور اب چچا آئندہ کوئی ایسا کام کرنے کی کوشش نہیں کریں گے جس سے ہم بھتیجوں کو کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑے لیکن یہ ہم دونوں کی خام خیالی تھی۔
 ان کا ہم سے ناراض ہونا بھی تو ہمارے لئے پریشان کن تھا۔ سب جانتے ہیں کہ ہمارے اس بھرے پرے گھر میں ہم چھوٹوں کا اگر کوئی دوست ہے تو صرف چچا اقبال! ہم چھوٹوں کا اگر کوئی ہمدرد ہے تو صرف چچا اقبال! جو ہمارے ہر سکھ دکھ میں برابر کے شریک تھے۔
 خیال کیجئے ایسا دوست اور ہمدرد اگر ناراض ہوجائے تو کیا حشر ہوگا۔ بس ایسا ہی کچھ عالم ہم دونوں کا تھا۔ ’’بھائی جان! میرا خیال ہے آپ نے اچھا نہیں کیا۔‘‘ مَیں نے بھائی جان سے کہا۔ ’’کیا اچھا نہیں کیا....؟‘‘ وہ جھلائے۔ ’’ہیں یہ بھی کوئی تک ہے۔ اگر جناب کو ہر روز ایک نیا شوق بدلنے کا خبط ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ شکار اپنوں ہی کو بنائیں ۔‘‘ ’’لیکن اب تو آپ کو صبر آجانا چاہئے۔‘‘ ’’کیا مطلب؟‘‘ بھائی جان حیرت سے بولے۔ ’’مطلب یہ کہ اب انہیں منایئے بھی تو۔‘‘ ’’مجھے کیا غرض پڑی ہے۔‘‘ ’’غرض تو کوئی بھی نہیں ہے بھائی جان۔‘‘ مَیں نے انہیں سمجھانا چاہا۔ ’’لیکن آپ یہ تو سوچئے کہ آپ نے گزشتہ ماہ سے ایک بار بھی کوئی قہقہہ نہیں لگایا، ایک بار بھی ’’شبستان‘‘ میں شاہی ٹوٹ نہیں کھائے۔ ایک بار بھی جھیل کی طرف سیر کرنے نہیں گئے۔ ایک بھی کہانیوں کی کتاب نہیں پڑھی اور شرارتیں تو جیسے ہم سے روٹھ ہی گئی ہیں ۔‘‘ بھائی جان خاموش ہوکر کچھ دیر سوچتے رہے۔ پھر بولے ’’مگر کریں کیا؟ چچا نے اس روز سے بات تک نہیں کی ہے۔‘‘ ’’آپ نے ہی انہیں ناراض کیا ہے، آپ ہی منایئے۔‘‘ مَیں نے مختصر سا جواب دیا اور پڑھنے لگا۔
 ہوا یہ تھا کہ گزشتہ دنوں چچا نے جب جاسوس بننے کی کوشش کی تھی تو بھائی جان نے ان کے تمام کئے کرائے پر پانی پھیر دیا تھا اور چچا خود اپنے شوق کے شکار ہوگئے تھے۔ امّی انہیں ہم دونوں سے بھی زیادہ چاہتی تھیں ۔ لیکن اس روز سے امّی نے انہیں ناشتہ کرنے تک کے لئے خود نہیں کہا تھا اور تو اور چچا نے بھی اپنی طرف نکلنے والی کھڑکی میں ایک بڑا سا تالہ لٹکا دیا تھا۔
 ہم دونوں یوں تو بہت خوش تھے۔ امّی کی تمام تر توجہ ہم دونوں کی طرف تھی۔ ہمیں جہاں امّی کا بے پناہ پیار ملا تھا وہیں ایک مصیبت بھی کھڑی ہوگئی تھی۔ ’’بیٹا شجی! ذرا دوڑ کر بازار سے یہ لے آؤ.... وہ لے آؤ....‘‘ بھائی جان اس مصیبت سے بچّے رہتے تھے۔ اس لئے انہیں احساس نہیں ہوا تھا کہ چچا کی ناراضگی کس قدر پریشان کن تھی۔ کوئی میرے دل سے پوچھتا اسی لئے مَیں چاہتا تھا کہ کسی طرح بھی چچا جان سے صلح ہو جائے۔ ورنہ اپنی شامت تو آہی گئی ہے۔ مَیں نے بھائی جان کو سمجھا بجھا کر آمادہ کر لیا تھا کہ وہ کسی بھی طرح چچا کو منالیں ۔ لیکن سوال یہ تھا کہ چچا بات نہیں کرتے تھے، سامنے دیکھتے ہی ان کی آنکھوں سے شعلے برسنے لگتے تھے۔ جیسے کچا ہی چبا جائیں گے۔ اب ایسے آدمی سے کس طرح صلح کی جائے جو صورت تک دیکھنا گوارہ نہ کرے۔ بھائی جان نے دو تین بار کوشش کی لیکن نتیجے میں انہیں وہ ڈانٹ پڑی کہ وہ روہانسے ہوگئے۔ ’’دیکھا تم نے.... یہ چچا جان ہیں .... ایسے پتھر ہوگئے۔ جیسے ہم ان کے کچھ لگتے ہی نہیں ...‘‘ ’’کوئی ترکیب سوچئے....‘‘ ’’کیا ترکیب ترکیب لگا رکھی ہے۔ کچھ بتاؤ تم بھی تو سوچو....‘‘ وہ مجھ ہی پر برس پڑے۔ ’’ایک ترکیب ہے۔‘‘ ’’کہو....‘‘ ’’ذرا محنت کرنی پڑے گی.... اور آپ....‘‘ ’’اب بک بھی چکو۔‘‘ وہ کچھ بیزار سے ہوگئے۔ ’’صبح کو جب عبدل چچا جان کا ناشتہ لے کر جائے تو ناشتے کی ٹرے آپ اس سے لے لیجئے اور خود لے کر جایئے۔ خدمت کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے اب وہ بھی آدمی ہیں ۔ آپ کی خدمت سے کچھ تو نرم پڑیں گے۔‘‘ ’’ہوں ....‘‘ بھائی جان سوچنے لگے۔
 دوسرے دن صبح کو جب عبدل ناشتہ لے کر جانے لگا تو بھائی جان نے اس سے ٹرے لے لی اور چچا جان کے پاس چلے گئے۔ چچا جان اس وقت کپڑے بدل رہے تھے۔ اور ان کی پیٹھ باہر کی طرف تھی۔ ’’عبدل ناشتہ واپس لے جاؤ.... مَیں آج سے باہر ناشتہ کیا کروں گا اور بھابی جان سے کہہ دینا کہ وہ میرے کھانے کا انتظام نہ کیا کریں ۔‘‘ بھائی جان سکتے میں رہ گئے انہیں توقع نہیں تھی کہ بات اتنی آگے بڑھ جائے گی کہ چچا جان گھر ہی چھوڑنے پر تل جائیں گے۔ ’’تم جانتے ہو....‘‘ جب ہی چچا جان پھر بولے۔ وہ اب بھی پیٹھ کئے کھڑے تھے اور ٹائی کی گرہ لگا رہے تھے۔ ’’مجھے اس گھر کے ایک ایک فرد سے نفرت ہے۔ بھابی جان نے میری بےعزتی کی ہے حالانکہ مَیں نے کبھی ان کے سامنے نگاہ تک نہیں اٹھائی۔ مَیں نے کبھی ان سے جھوٹ تک نہیں بولا مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے اپنے ان شیطانی بیٹوں کے کہنے پر مجھے جھوٹا سمجھا۔ اور ان دونوں سے تو مَیں زندگی بھر بات نہیں کروں گا۔ مَیں نے ان دونوں کے لئے کیا نہیں کیا۔ مَیں نے دونوں کا الزام اپنے سر لیا۔ بھائی صاحب کی ڈانٹ برداشت کی ان کی جھڑکیاں سنیں ۔ مَیں ان دونوں کے لئے شرارتیں کرتا رہا۔ جیسے چار سال کا بچہ ہوں ۔ مَیں کیا بچّہ ہوں مَیں نہیں سمجھتا کہ لوگ مجھے کیا کہتے ہوں گے..... اب میری آنکھیں کھل گئی ہیں ، مَیں جلد ہی اس گھر کو بھی چھوڑ دوں گا۔ الگ کرائے پر مکان لے کر رہنے لگوں گا۔‘‘ ’’چچا جان!‘‘ بھائی جان آہستہ سے بولے۔ چچا جان چونک کر مڑے۔ ’’تم.....‘‘ ان کی آنکھوں میں غصہ نظر آنے لگا۔ ’’تم کیوں آئے یہاں .... ٹانگیں توڑ کر.....‘‘ ’’چچا جان....‘‘ اچانک بھائی جان رو پڑے....‘‘ آپ بے شک مجھے سزا دیجئے.... لیکن پلیز.... ہمیں چھوڑ کر مت جایئے۔‘‘ ’’تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے.... چلو بھاگ جاؤ یہاں سے تمہارا چچا مرگیا۔‘‘ چچا جان شدید غصے سے بولے۔ ’’پلیز چچا جان.... میری بات تو سن لیجئے۔‘‘ بھائی جان بدستور روتے رہے۔ آپ نہیں جانتے آپ کی ناراضگی سے ہم پر کیا گزری۔ آپ کی قسم چچا جان اس روز سے ہم ایک بار نہیں ہنس سکے۔ کون ہے جو ہمیں لطیفے سنائے۔ ہم ایک بار بھی کہیں سیر کو نہیں جاسکے ۔ کس کے ساتھ جائیں ... صرف ایک بار معاف کر دیجئے.....‘‘ بھائی جان ان کے بازو سے لپٹ کر بے اختیار رو پڑے۔ اب چچا جان پتھر تو نہیں تھے کہ اثر ہی نہ ہوتا۔ انہوں نے بڑھ کر بھائی جان کو گلے سے لگا لیا۔ ’’مَیں آپ سے عہد کرتا ہوں اب کبھی آپ کو نہیں ستاؤں گا۔‘‘ ہم سب پھر قہقہوں اور شرارتوں میں گم ہوگئے۔ آج اچانک چچا جان نے حیرت زدہ کر دیا۔ کہنے لگے ’’دراصل اس روز جب مَیں آئینے کے سامنے کھڑا کپڑے تبدیل کر رہا تھا جب ہی تنویر داخل ہوا۔ عبدل جو چپل پہنتا ہے اس کے تلوں میں لوہے کی موٹی کیسیں لگی ہوئی ہیں جس سے کھٹ کھٹ کی آواز ہوتی ہے۔ مَیں سمجھ گیا کہ عبدل نہیں ہے۔ پھر مَیں نے آئینہ میں دیکھا تو وہ تنویر ہی تھا۔ بس پھر مَیں نے ڈرامہ شروع کر دیا۔ ’’تو آپ نے یہ سب...‘‘ بھائی جان چونک کر بولے۔ اور نہیں تو کیا مَیں تم لوگوں کو چھوڑ کر جانے والا تھا ابے بدھو تم لوگوں کے بغیر تو میرا جینا محال ہوجاتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK