Inquilab Logo

میرا ہم نام

Updated: March 07, 2020, 12:09 PM IST | Meem Ain Gham | Mumbai

مَیں اب بھی کچھ نہیں سمجھا اور ڈرائیور سے بحث کرنا لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں ساری بات میری سمجھ میں آگئی اور مَیں نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ غلط آدمی کے پاس آگیا ہے، اُسے جن سہیل احمد سے ملنا ہے، وہ مَیں نہیں ، میرے کرائے دار ہیں ۔ پھر مَیں نے اسے کرایہ دار صاحب کا پتہ بتا کر رخصت کر دیا۔

Representation Purpose Only. Picture INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

میرا نام سہیل احمد ہے ، مَیں ایک فیکٹری میں منیجر ہوں ۔ میرے پاس ۲؍ مکان ہیں ، دونوں مکان ایک ہی محلّے میں ہیں ۔ لیکن دونوں کے بیچ میں دس بارہ مکان کا فاصلہ ہے۔ ایک مکان میں خود ملازم کے ساتھ رہتا ہوں اور دوسرے کو کبھی کبھی کرائے پر اٹھا دیتا ہوں ۔ ایک سال پہلے کی بات ہے کہ مَیں نے یہ مکان ایک صاحب کو کرائے پر دیا تھا۔ وہ ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھے اور کسی دوسری جگہ سے تبدیل ہو کر آئے تھے۔ نیک اور خوش اخلاق آدمی تھے۔ لیکن انہیں مکان کرائے پر دینے کے بعد میرے لئے بڑی پریشانیاں پیدا ہوگئیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ میرے ہم نام تھے یعنی ان کا نام بھی سہیل احمد تھا، جب وہ مکان میں آکر رہنے لگے تو اُن کے جان پہچان والے ان کا مکان نہیں جانتے تھے اس لئے دوسرے لوگوں سے پوچھتے تھے، کرائے دار صاحب چونکہ نئے نئے محلّے میں آکر رہے تھے، اس لئے بہت کم لوگ انہیں جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے زیادہ تر ملنے والوں کو لوگ میرا پتہ بتا دیتے تھے۔ جب یہ لوگ میرے پاس آتے تھے تو انہیں اپنے کرایہ دار صاحب کے پاس پہنچانے کو اپنا فرض سمجھ کر مجھے ملازم کو اُن کے ساتھ کرنا پڑتا تھا۔
 اکثر ایسا ہوتا کہ مَیں کہیں باہر جاتا، واپس آتا تو معلوم ہوتا کہ کوئی صاحب ملاقاتی کمرے میں مجھ سے ملنے کے لئے بیٹھے ہیں ۔ (یہاں مَیں ایک بات اور بتاتا چلوں .... میرا ملازم آٹھویں جماعت تک پڑھا ہوا ہے۔ لیکن اتنی کم تعلیم پانے کے باوجود دوسروں کے دل میں گھر کرنے کے گُر خوب جانتا تھا۔ چنانچہ میری واپسی سے پہلے ہی وہ مہمان کی اچھی طرح خاطر تواضع کر چکا ہوتا تھا) بہرحال جب مَیں ان صاحب سے ملاقات کرنے کے لئے ملاقاتی کمرے میں پہنچتا تو معلوم ہوتا کہ وہ مجھ سے نہیں ، میرے کرائے دار سہیل احمد سے ملنا چاہتے ہیں اور مَیں خاموشی سے ملازم کو ان کے ساتھ کر دیتا کہ وہ انہیں صحیح مکان چھوڑ آئے۔
 اگر کبھی غلطی سے میرے کرایہ دار صاحب کو کوئی ایسا ملنے والا میرے پاس آجاتا جو اُن سے پہلی بار ملنے آیا ہوتا تو مجھے بڑی پریشانی ہوتی۔ کافی دیر تک وہ شخص یہ سمجھتا رہتا کہ وہ صحیح آدمی سے بات کر رہا ہے۔ اور مَیں اس غلط فہمی میں مبتلا رہتا کہ یہ شخص واقعی مجھ سے ملنے آیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بار کا ذکر ہے۔ شاید نومبر کے پہلے اتوار کی صبح تھی۔ مَیں آنگن میں کرسی ڈالے دھوپ سینک رہا تھا۔ اچانک مکان کے باہر کسی موٹر کے رکنے اور ہارن کے بجنے کی آواز سنائی دی۔ ملازم کہیں گیا ہوا تھا۔ اس لئے مَیں نے خود باہر نکل کر دیکھا۔ دروازے کے سامنے ایک خوبصورت کار کھڑی تھی۔ اس میں صرف اگلی سیٹ پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا جو وردی سے ڈرائیور معلوم ہوتا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے اپنا سر کھڑکی سے باہر نکال کر پوچھا ’’آپ سہیل صاحب ہیں ؟‘‘
 مَیں نے گردن کے اشارے سے ’ہاں ‘ کہا۔
 ’’صاحب نے کہا ہے کہ انہوں نے جو کاغذ آپ کو ٹائپ کرنے کو دیئے تھے، وہ لے کر گھر پر آجایئے۔‘‘ ڈرائیور نے کہا۔
 ’’کون صاحب؟ کیسے کاغذ؟‘‘ مَیں نے حیرانی سے پوچھا۔
 ’’آپ شاید مجھے پہچانتے نہیں ۔‘‘ ڈرائیور نے مسکرا کر کہا۔ ’’اصل میں جو ڈرائیور صاحب کو دفتر لے جاتا ہے، وہ دوسرا ہے۔ مَیں ان کی دوسری کار کا ڈرائیور ہوں ۔‘‘ مَیں اب بھی کچھ نہیں سمجھا اور ڈرائیور سے بحث کرنا لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں ساری بات میری سمجھ میں آگئی اور مَیں نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ غلط آدمی کے پاس آگیا ہے، اُسے جن سہیل احمد سے ملنا ہے، وہ مَیں نہیں ، میرے کرائے دار ہیں ۔ پھر مَیں نے اسے کرایہ دار صاحب کا پتہ بتا کر رخصت کر دیا۔
 دن اسی طرح اُلٹ پھیر میں گزرتے رہے۔ ایک شام کو مَیں دفتر سے واپس آیا تو ملازم نے بتایا کہ میرے چچا کا تار آیا ہے، وہ سخت بیمار ہیں اور مجھے فوراً بلایا ہے۔ مَیں نے ملازم سے تار مانگا۔ وہ تار لینے گیا، لیکن تھوڑی دیر کے بعد آکر بتایا کہ تار ادھر اُدھر ہوگیا ہے اور مل نہیں رہا ہے۔ مَیں نے اس سے تار دینے والے کا نام پوچھا تو اس نے ارشد بتایا۔ میرے چچا زاد بھائی کا نام راشد ہے۔ مَیں نے خیال کیا کہ ملازم کو نام ٹھیک سے یاد نہیں رہا ہوگا۔ چچا لکھنؤ میں رہتے تھے۔ مَیں اسی روز رات کی گاڑی سے وہاں کے لئے روانہ ہوگیا۔ اگلی صبح مَیں لکھنؤ میں تھا۔ اسٹیشن سے رکشا کرکے چچا کے مکان پر پہنچا۔ گھر والے مجھے اچانک وہاں پاکر بہت خوش ہوئے۔ لیکن میری حیرت کی حد نہ رہی جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ چچا خدا کے فضل سے بالکل خیریت سے ہیں اور کاروبار کے سلسلے میں کہیں باہر گئے ہوئے ہیں اور تار تو مجھے کسی نے دیا ہی نہیں تھا۔ فوراً ایک خیال بجلی کی طرح دماغ میں کوندا کہ ہو نہ ہو وہ تار میرے کرائے دار سہیل احمد کے نام ہوگا پھر گھر والوں کے بہت روکنے کے باوجود مَیں اسی دن تیسرے پہر کی ٹرین سے واپس ہو لیا۔ گھر آیا تو ملازم نے مجھ سے معافی مانگی اور بتایا کہ میرے جانے کے بعد اُسے تار مل گیا تھا اور اسے دوبارہ پڑھنے پر اُسے اپنی غلطی کا پتہ چل گیا تھا۔ تار لکھنؤ کے بجائے کسی دوسری جگہ سے آیا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ تار غلط بٹ گیا ہے، اس کے صحیح مالک میرے کرایہ دار سہیل احمد ہیں ، اس لئے وہ تار اُن کے حوالے کر آیا تھا۔ ساری بات معلوم ہونے پر مجھے شرمندگی بھی ہوئی اور ملازم پر غصہ بھی آیا۔ لیکن وہ پہلے ہی معافی مانگ چکا تھا اس لئے مَیں نے خاموش رہ جانا ہی مناسب سمجھا۔
 اس واقعہ کے بعد مَیں کافی ہوشیار رہنے لگا۔ پھر بھی کبھی نہ کبھی کوئی چھوٹا موٹا حادثہ ہو ہی جاتا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ ۶؍ ماہ بعد ہی کرائے دار صاحب کا تبادلہ کسی دوسری جگہ ہوگیا اور وہ مکان چھوڑ کر چلے گئے۔ اُن کے جانے کے بعد میں نے سوچ لیا ہے کہ کسی ایسے شخص کو مکان نہیں دوں گا اور دوسرے لفظوں میں محلے میں آباد نہیں ہونے دوں گا جو میرا ہم نام ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK