Inquilab Logo

بولتا درخت

Updated: June 27, 2020, 3:00 AM IST | Jaleel Qidwai | Mumbai

یہ کہانی ننھے بختیار کی ہے جسے فالسے کا پھل بے حد پسند ہے۔ وہ فالسے کا پودا لگا تا ہے اور اس کے بڑے ہونے کا انتظار بے صبری سے کرتا ہے اور جب درخت بڑا ہوجاتا ہے تو بولنے لگتا ہے، آخر وہ کیوں بولتا ہے یہ جاننے کے لئے پڑھئے مکمل کہانی۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

ٹن ٹن ٹن.... ٹن... ٹن.... ٹن ٹن.... اسکول میں چھٹی کا گھنٹہ بجا.... استادوں نے اپنی اپنی جماعت کے بچوں کو قطار میں کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ بچوں نے گھنٹہ کی آواز کے ساتھ ساتھ استادوں کے حکم کو انتہائی خوشی سے سنا اور جھٹ پٹ منّے منّے ہاتھوں سے اپنے اپنے بستے گلے میں لٹکا کر لائنوں میں جا لگے۔ قومی ترانۂ گایا گیا اور بچّے پرنسپل کو خدا حافظ کہہ کر قطار در قطار اسکول سے باہر نکلنے لگے۔
 پھاٹک سے باہر کچھ ٹھیلے والے کھڑے ’’آلو چھولے کی چاٹ... دہی بڑے.... مونگ پھلی.... امرود کے کچالو.... فالسے....‘‘ کی آوازیں لگا رہے ہیں ۔ بچے ان کے ٹھیلوں پر ٹوٹ پڑے۔ ننھا بختیار بھی ایک ہاتھ سے اپنا بستہ، دوسرے سے نیکر سنبھالے ایک ٹھیلے کے پاس رُک گیا۔ جیب سے اکنّی نکالی اور ٹھیلے والے سے انگلی کے اشارے سے کہا ’’ایک آنہ کے فالسے دے دو۔‘‘فالسے والے نے جو لہک لہک کر آواز لگانے میں مگن تھا بختیار کے ہاتھ سے اکنّی لے اپنی گلک میں ڈالی اور گاتے ہی گاتے ایک پڑیا میں فالسے ڈالے، ان پر نمک چھڑکا۔ دو چار دفعہ پڑیا کو اچھالا اور بختیار کو ’’لو منّے....‘‘ کہہ کر پکڑا دی اور پھر گانے میں مصروف ہوگیا۔ وہ گا رہا تھا ’’آؤ بچو! کھاؤ میرے کالے کالے، اودے اودے، میٹھے میٹھے فالسے۔آؤ بچّو! کھاؤ میرے کالے کالے.....‘‘بختیار کو اس کی امّی اسکول کے لئے ایک آنہ روز دیتی تھیں کہ اس کا دل چاہے تو کوئی صاف ستھری چیز گھر پر لاکر کھالے ورنہ پیسے جمع کرکے اپنے لئے کوئی اچھی سی کہانیوں کی کتاب خرید لے۔ ننھا بختیار اسی اکنّی کے فالسے کی پڑیا مٹھی میں دبا گھر کی طرف چل دیا۔ گھر جاکر کتابوں کا بستہ مقررہ جگہ پر رکھا اور فالسوں کی پڑیا ماں کو دی، اپنی یونیفارم اور جوتے موزے اتارے، ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھانے بیٹھا اور بڑے جوش سے ماں سے کہا ’’امّی آپ نے فالسے کھائے؟ کتنے مزیدار ہیں نا‘‘ امّی نے کہا ’’فالسے کھانے سے پہلے میں نے انہیں دھویا اور پھر سے نمک چھڑکا.... بازار کے کھلے ہوئے فالسے تھے.... نہ جانے صاف تھے یا نہیں ۔ کھانا کھا کر مَیں بھی کھا لوں گی، باقی تم کھانا.... فالسے بہت فائدہ مند ہوتے ہیں صحت کے لئے مگر صفائی ضروری ہے۔ تمہارا جی چاہے تو اپنے باغ کی کیاریوں میں اس کی گٹھلیاں بکھیر دینا۔ تمہارے گھر میں فالسے ہی فالسے ہو جائیں گے۔‘‘ بختیار کھانا ختم کرکے فالسے کھاتا جائے اور گٹھلیاں جمع کرتا جائے اور پھر اس نے وہ گٹھلیاں اپنی کیاری میں ڈال دیں ۔
 کچھ دنوں بعد ایک ننھا سا پودا زمین سے نکلا۔ ننھا بختیار خوشی سے اچھل پڑا۔ دوڑ کر امّی کو پکڑ کر لایا ’’امّی دیکھئے میرے فالسے کا پودا نکلا۔‘‘ امّی نے دیکھ کر بچّے سے کہا ’’بیٹا! اب اس کی حفاظت کرنا۔ اسے دھیان سے پانی دیا کرو۔ کبھی کبھی زمین کی گڑائی کرتے رہا کرو۔ مَیں کھاد اور میٹھی مٹی منگا کر ڈلواتی رہوں گی۔ بس پھر تمہارا یہ ننھا پودا جلدی سے بڑا اور پھل دار درخت بن جائے گا۔‘‘ ننھا بختیار ہر روز اسکول سے آکر دوپہر کو آرام کرنے کے بعد اپنے باغ میں اپنی ماں کے ساتھ کام کرتا اور فالسے کی پتیوں کو محبّت سے چومتا اور اسے بڑا ہوتے دیکھ کر جی ہی جی میں خوش ہوتا۔
 ایک روز بختیار نے اپنے فالسے کے درخت میں بہت سے پیلے پیلے نازک سے پھول لگے ہوئے دیکھے۔ اس نے ان پھولوں کا ذکر اپنے اسکول کے دوستوں سے کیا۔ دوستوں کا بھی دیکھنے کو جی چاہا۔ وہ بختیار کے ساتھ اس کے گھر آئے اور پھول دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے ہاتھ بڑھائے کہ پھول توڑ کر گھر لے جائیں اور خوش ہوں مگر جیسے ہی بچوں کے ہاتھ درخت کی طرف بڑھے ایک آواز آئی جیسے کوئی درد بھری آواز سے کہہ رہا ہو ’’ہائے ظالم، مار ڈالا۔‘‘ بچّوں نے ڈر کے مارے اپنے ہاتھ پیچھے کر لئے اور ادھر اُدھر دیکھنے لگے کہ شاید کوئی آدمی بول رہا ہو۔ مگر جب انہیں کوئی نظر نہ آیا تو دوبارہ پھول توڑنے کے لئے اپنے ہاتھ بڑھائے، مگر پھر وہی آواز آئی، ’’ہائے ظالم مار ڈالا۔‘‘ اب تو سب بچّے ’’بھوت بھوت‘‘ کہتے اپنے اپنے گھروں کو بھاگے۔ بیچارا بختیار اپنے گھر کے اندر بھاگا اور جاکر اپنی امّی کو سب حال بتا دیا۔
 امّی باہر آئیں کہ دیکھیں کون بھوت ہے جو بچّوں کو ڈرا رہا ہے۔ امّی نے درخت کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انہیں وہی آواز سنائی دی۔ وہ سمجھ گئیں کہ درخت کو اپنے پھولوں کے توڑے جانے کا درد ہے۔ انہوں نے بختیار کو سمجھایا ’’بیٹا! یہ بھوت کی آواز نہیں ہے بلکہ درخت کہہ رہا ہے کہ میرے پھول نہ توڑو۔ ان کے توڑنے سے مجھے دکھ ہوگا، کیونکہ پھولوں سے فالسے بنیں گے اور اگر انہیں توڑ لو گے تو مَیں پھل دار کیسے بنوں گا۔‘‘ بختیار کو فالسے کے درخت سے بہت محبّت تھی۔ فوراً ایک اچھے بچے کی طرح اپنی ماں کی بات اس کی سمجھ میں آگئی اور اس نے ان پھولوں کو ہاتھ نہ لگایا۔
 تھوڑے دنوں بعد اس درخت میں ہری ہری گٹھلیاں سی لگی ہوئی دیکھنے میں آئیں تو بختیار سمجھا کہ یہی فالسے ہیں ۔ اس نے اسکول میں اپنے دوستوں سے بتایا کہ میرے درخت میں بہت سے فالسے آرہے ہیں ۔ اس کے دوستوں کو وہ پچھلا بھوت کا واقعہ کچھ یاد تو تھا مگر فالسے کھانے کے شوق میں اسکول سے واپسی پر وہ پھر بختیار کے ساتھ اس کے گھر پر آ ہی دھمکے۔ ہاتھ بڑھا کر فالسے توڑنا ہی چاہتے تھے کہ پھر وہی دردناک آواز سنائی دی ’’ہائے ظالم، مار ڈالا۔‘‘ ’’اوہو...‘‘ بچوں کو اب پوری طرح یقین ہوگیا کہ بختیار کے فالسے کا درخت بھوتوں کا اڈّہ ہے۔ بھاگے سب کے سب اور اپنے اپنے گھر جا کر ہی دم لیا۔ ننھا بختیار یہ تماشا دیکھ کر باہر آیا ’’امّی سچ کہہ رہا ہوں فالسے کے درخت کے اندر بھوت رہتا ہے۔ ابھی پھر اس میں سے آواز آئی تھی۔‘‘ امّی اپنی ہنسی روکتی جائیں اور پتّوں اور کو ہٹا کر دیکھنا چاہتی تھیں کہ کون بھوت ہے۔ امّی کا ہاتھ بڑھتے دیکھ کر درخت سمجھا وہ بھی اس کے فالسے توڑنے آگئیں ۔ پھر اس میں آواز آئی ’’ہائے ظالم، مار ڈالا۔‘‘ امّی سمجھ گئیں اور کہنے لگیں ’’دیکھو، یہ بھوت کی آواز نہیں ہے۔ یہ درخت نہیں چاہتا کہ اس کا کچا پھل توڑا جائے۔ جب پک جائے تو کھانا۔ اسی لئے یہ بیچارہ اس طرح کہہ رہا ہے۔‘‘ ننھا بختیار کچھ سمجھا کچھ نہ سمجھا مگر چپ ضرور ہوگیا۔
 کوئی پندرہ دن کے بعد ایک صبح اسکول جانے سے پہلے بختیار نے دیکھا کہ اس کے فالسے کا درخت بڑا حسین نظر آرہا ہے۔ ہری ہری پتیوں کی آڑ سے ڈالیوں میں لگے ہوئے اودے اودے کالے کالے فالسے جھانک رہے تھے اور پھولوں سے لدی ہوئی ڈالیاں خوشی سے جھوم رہی تھیں ۔
 اس نے سوچا کہ بس اب اپنے دوستوں کو فالسے ضرور کھلاؤں گا اور خود بھی کھاؤں ۔
 اسکول سے واپسی پر وہ اپنے دوستوں کو ساتھ لایا۔ بچے کہنے لگے ’’بھئی تمہارا درخت تو بھوتوں کا اڈّہ ہے۔ ہاتھ نہیں لگانے دیتا۔ ہم کیسے فالسے کھائیں گے؟‘‘ یہ کہتے گئے اور ہاتھ بڑھا کے فالسے توڑنے لگے، مگر اس بار درخت میں سے بڑی پیار بھری دھیمی دھیمی آواز آرہی تھی ’’آؤ بچو! کھاؤ میرے کالے کالے، اودے اودے، میٹھے میٹھے فالسے... آؤ بچو...‘‘ اور ڈالیاں تھیں کہ بچوں کے آگے محبّت سے بڑھی آتی تھیں ، جھکی جاتی تھیں ۔
 اس روز سب بچوں اور ننھے بختیار نے خوب مزے لے لے کر اپنے درخت سے فالسے توڑ توڑ کر کھائے اور تھوڑے تھوڑے فالسے جیبوں میں بھر کر اپنے اپنے گھر لے گئے۔ راستہ بھر ایک دوسرے سے کہتے رہے، بختیار کا درخت بولتا ہے، مگر ہے بڑے کام کا، ہم بھی اس کے فالسے کے بیج اپنے گھر میں بوئیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK