Inquilab Logo

ایک تھی آنٹی

Updated: March 30, 2024, 12:00 PM IST | Muhammad Rafi Ansari | Mumbai

ایک مرتبہ شہر میں ان کے نام کا بڑا چرچا ہوا تھا۔اس واقعہ سے شہر کی خاتون دکان داروں کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ ہوا یوں کہ انھیں بے یارو مددگار سمجھ کر ایک چور نے رات گئے ان کی دکان میں سیندھ لگا دی۔ آنٹی بڑے دل گردے کی مالک تھیں یہ بات چور نہیں جانتا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ آسانی سے آنٹی کی چٹنی کر دے گا۔ مگر آنٹی نے اس کا ہی بھرتہ بناکر رکھ دیا۔ چور کی آہٹ سن کر وہ نیند سے بیدار ہوگئیں اور پھر معاملے کو سمجھ کر پوری قوت سے چور کا ہاتھ پکڑ لیا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اسکول کے آس پاس بچوں کی دل چسپی کی دکانوں کا ہونا ضروری ہے۔ یہ دکانیں مالک کو بھی فائدہ پہنچاتی ہیں اوراسکول کی رونق میں بھی اضافہ کرتی ہیں۔ اسٹیشنری کی دکانیں مکمل طور پر لکھنے پڑھنے کی چیزوں کیلئے ہی مخصوص نہیں ہوتیں۔ بلکہ ان دکانوں میں کھانے پینے کی ہلکی پھلکی چیزیں بھی اس کا وزن بڑھاتی ہیں۔ 
 ہمارے شہر میں وہ اسکول زیادہ مقبول ہیں جن کے آس پاس ایسی دکانیں ہیں۔ یہ دکانیں گو کہ چھوٹی سی جگہ پر ہوتی ہیں لیکن بچوں کے لئے بڑے کام کی ہوتی ہیں۔ وہ اسکول آتے جاتے اس کی طرف دیکھ کر اطمینان کا سانس لیتے ہیں۔ بچے کبھی ضرورت کے تحت اور کبھی بلا ضرورت بھی وہاں جاکر خوش ہوتے ہیں۔ 
 ہمارے بچپن میں اسکولوں کے اطراف میں ایسی دکانیں بہت کم ہوتی تھیں۔ نامی گرامی اسٹیشنری کی دکانیں دو ایک ہی تھیں۔ مگروہ دکانیں مالک کے دل کی طرح بڑی تھیں۔ اس میں دکان دار بھی ایک نہیں بلکہ کئی ہوتے تھے۔ بچے ان سے بڑے مانوس تھے۔ کچھ دکاندار تو اپنے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ یہ دکان دار خبردار بھی ہوتے تھے اور سمجھ دار بھی۔ بس اک ذرا منہ کھولئے اور وہ مطلوبہ چیزیں حاضر کر دیتے۔ وہ ہر طرح کے گاہکوں پر نظر بھی رکھتے تھے اور وقت آنے پر ان کی خبرلینے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے۔ مگر ایسے مواقع کم ہی آتے تھے۔ 

یہ بھی پڑھئے: جِنوں کا مکان

 میرے گھر کے قریب ایک اسکول ہے۔ اسے ’اقصیٰ اسکول‘ کہتے ہیں۔ اس اسکول کے آس پاس کئی دکانیں ہیں۔ ان دکانوں میں ایک اقصیٰ جنرل اسٹور بھی ہے۔ یہ دکان لگ بھگ پچاس سال سے قائم ہے۔ یہ دکان ایک خاتون اور ان کے شوہر کی مشترکہ کوششوں سے خوب پھلی پھولی۔ شوہر کے انتقال کے بعددکان کی مالک اور دکان دار ایک خاتون ٹھہریں۔ انھیں بچے اور بڑے ’اْقصیٰ والی آنٹی‘ کہتے تھے۔ رمضان کے پہلے عشرے میں (جسے عشرۂ رحمت کہتے ہیں ) وہ اللہ کوپیاری ہو گئیں۔ میرے پوتے حسن کو ابھی تک اس خبر پر یقین نہیں آیا ہے۔ میری پوتی صفا، آنٹی کو یاد کر کے آبدیدہ ہو جاتی ہے۔ وہ اب ہم میں نہیں لیکن آنٹی کی یادیں باقی ہیں۔ 
 دُنیا تو ہے آنی جانی
آؤ سنو آنٹی کی کہانی 
 پتلی دبلی نازک سی بچوں کی آنٹی میں بڑے گُن تھے۔ ہلکی سے ہوا سے وہ دوہری ہو جاتی تھیں مگران میں ہواؤں کا رُخ پلٹ دینے کی طاقت بھی تھی۔ ٹکرانا ان کا مزاج نہ تھا لیکن اگر کوئی انہیں ٹکر دینے کی کوشش کرتا تو اسے پٹخنی دینے میں ذرا نہ ہچکچاتیں۔ عمر اسّی سال سے تجاوز کر گئی تھی مگرصحت کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ آنکھوں کی روشنی بلا کی تھی۔ حافظہ غضب کا تھا۔ وہ کہا کرتی تھیں ؎
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر 
 خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر
 لین دین کے معاملہ میں وہ بڑی خوش معاملہ یعنی کھری تھیں۔ ان کے کھرے پن کا نتیجہ یہ تھا کہ ان سے معاملہ کرنے والے بھی ان کو خود کے کھرے ہونے کا ثبوت دیا کرتے۔ 
  وہ جس مکان میں رہتی تھیں وہیں ان کی دکان بھی تھی۔ دکان میں بیاضیں اور لکھنے پڑھنے کے سامان وافر مقدار میں رہتے تھے۔ ابتدائی دنوں میں ’اقصیٰ جنرل اسٹور ‘ اپنے ذخیرے اور اپنی پیش کش کے اعتبارسے مثالی تھا۔ مقبول اور مشہور اشیاء کا ذخیرہ ان کے ہاں ہوتا۔ مختلف نوع کے ’ویفر‘ وافر مقدار میں دکان میں موجود ہوتے۔ جس کی ایک جھالر سی بنی ہوتی۔ اس جھالر کو وہ دن بھر سمیٹتی ہٹاتی رہتیں۔ ان کے ساتھ ان کا معذور رشتہ دار ملک بھی موجود رہتا۔ ملک کو سرگرم رکھنے کے لئے اسے گاہکوں کے احکام کی تعمیل میں لگاتیں اور خود جائزہ لیتی رہتیں۔ یوں انہوں نے ایک بے ضرر آدمی کو کارآمد بنا دیا تھا۔ سب کے ساتھ ان کا سلوک یکساں ہوا کرتا تھا۔ ان کے ہاں اردو اور مراٹھی بولنے والے بچے بچیاں بلا تکلف آتے۔ وہ ان کی بولی بولتیں اور اس طرح ان کا دل جیت لیتیں۔ اس حسنِ سلوک پردکان کے چھوٹے گاہک انھیں ’ تھینک یو آنٹی‘کہتے تو وہ ہلکے سے مسکرا دیتیں۔ 
 ایک مرتبہ شہر میں ان کے نام کا بڑا چرچا ہوا تھا۔ اس واقعہ سے شہر کی خاتون دکان داروں کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ ہوا یوں کہ انھیں بے یارو مددگار سمجھ کر ایک چور نے رات گئے ان کی دکان میں سیندھ لگا دی۔ آنٹی بڑے دل گردے کی مالک تھیں یہ بات چور نہیں جانتا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ آسانی سے آنٹی کی چٹنی کر دے گا۔ مگر آنٹی نے اس کا ہی بھرتہ بناکر رکھ دیا۔ 
 چور کی آہٹ سن کر وہ نیند سے بیدار ہوگئیں۔ اور پھر معاملے کو سمجھ کر پوری قوت سے چور کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس طرح کہ چور کو نانی یاد آگئی۔ اس کشاکش میں پڑوسی اٹھ گئے۔ چور بے دم ہوا اور آنٹی نے اسے پولیس کے حوالے کر کے دم لیا۔ 
  وہ دوسروں کو انجام سے باخبر رہنے کی تلقین کرتی تھیں۔ خود بھی ہمیشہ انجام بالخیر کی دعا کرتی رہتی تھیں۔ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد انہوں نے تقریباً چار دہائیوں تک اپنی دکان کو پوری توانائی اور حسنِ انتظام کے ساتھ سنبھا لا۔ ان میں بلا کاڈسپلن تھا۔ ان کی دکان پر آنے والے چھوٹے بڑے اس بات سے واقف تھے۔ وہ بچوں کی پسند کا خیال رکھتی تھیں اوربچے ان کے مزاج کا خیال رکھتے تھے۔ وہ کبھی گنگناتی تو نہیں تھیں مگر بڑبڑاتی ضرور تھیں۔ وہ جتنی کامیابی سے اپنا گھر چلا رہی تھیں۔ اتنی ہی کامیابی سی اپنی دکان بھی چلاتی رہیں۔ وہ با ادب ایسی تھیں کہ بے ادبوں کو پاس پھٹکنے نہ دیتی تھیں۔ 
 وہ مجھےجناب ‘ کہہ کر مخاطب کرتیں۔ مرنے سے چند روز قبل میں ان کی دکان سے کچھ خرید رہا تھا۔ مجھ سے مخاطب ہوکر شہر میں ہونے والی ناگہانی اموات پر اظہارِ افسوس کرنے لگیں۔ پھر بولیں ’ آدمی کو ہر وقت اپنی موت کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ میں نے اثبات میں سرہلایا۔ اور پھر وہ تلاوت میں مصروف ہو گئیں۔ صبح ہوئی تو مجھے اچانک آنٹی اور ان کی باتوں کا خیال آگیا۔ گھر سے باہر نکلا تو خبر ملی کہ گزشتہ رات آنٹی چپکے سے ملکِ عدم روانہ ہو گئیں۔ 
 آنٹی کی دکان اب سونی ہو گئی ہے۔ بلکہ پورا علاقہ ہی جیسے سونا ہوگیا ہے۔ سنا ہے کہ اپنے اس کاروبار کو انہوں نے ایک خاتون کو سونپ دیا تھا۔ دعا ہے کہ اللہ آنٹی کو اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دے اور آنے والی آنٹی کو انکے نقشِ قدم پر چلنے کا حوصلہ عطا کرے۔ آمین۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK