Inquilab Logo

احسان کا بدلہ احسان

Updated: February 18, 2023, 10:47 AM IST | Dr. Zakir Hussain | Mumbai

ایک دکاندار تجارت کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہو کر جا رہا ہوتا ہے کہ بے خیالی میں شہر سے بہت دور نکل جاتا ہے جہاں چند ڈاکو اس پر حملہ کر دیتے ہیں۔ تاجر کا وفا دار گھوڑا اس کی جان بچا کر اسے گھر تک پہنچاتا ہے مگر اس دوران گھوڑے کی ٹانگیں بیکار ہوجاتی ہیں اور

photo;INN
تصویر :آئی این این

بہت دنوں کا ذکر ہے جب ہر جگہ نیک لوگ بستے تھے اور دغا فریب بہت ہی کم تھا۔ ہندو مسلمان ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ کوئی کسی پر زیادتی نہیں کرتا تھا اور جو جس کا حق ہوتا تھا، اُسے مل جایا کرتا تھا۔ اُن دنوں ایک شہر تھا: عادل آباد۔
 اس عادل آباد میں ایک بہت دولت مند دکاندار تھا۔ دور دور کے ملکوں سے اُس کا لین دین تھا۔ اُس کے پاس ایک گھوڑا تھا، جو اُس نے بہت دام دے کر ایک عرب سے خریدا تھا۔
 ایک دن کا ذکر ہے کہ وہ دکاندار تجارت کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہو کر جا رہا تھا کہ بے خیالی میں شہر سے بہت دور نکل گیا اور ایک جنگل میں جا نکلا۔ ابھی یہ اپنی دُھن میں آگے جا ہی رہا تھا کہ پیچھے سے چھ آدمیوں نے اُس پر حملہ کر دیا۔ اُس نے اُن کے دو ایک وار تو خالی دیئے، لیکن جب دیکھا کہ وہ چھ ہیں تو سوچا کہ اچھا یہی ہے کہ اِن سے بچ کر نکل چلوں۔ اُس نے گھوڑے کو گھر کی طرف پھیرا، لیکن ڈاکوؤں نے بھی اپنے گھوڑے پیچھے ڈال دیئے۔ اب تو عجیب حال تھا، سارا جنگل گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج رہا تھا۔ سچ یہ ہے کہ دکاندار کے گھوڑے نے اُسی دن اپنے دام وصول کرا دیئے۔ کچھ دیر بعد ڈاکوؤں کے گھوڑے پیچھے رہ گئے اور گھوڑا دکاندار کی جان بچا کر اُسے گھر لے آیا۔
 اُس روز گھوڑے نے اِتنا زور لگایا کہ اُس کی ٹانگیں بیکار ہوگئیں۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ دنوں بعد غریب کی آنکھیں بھی جاتی رہیں۔ لیکن دکاندار کو اپنے وفادار گھوڑے کا احسان یاد تھا، چنانچہ اُس نے سائیس کو حکم دیا کہ جب تک گھوڑا جیتا رہے، اُس کو روز صبح شام چھ سیر دانہ دیا جائے اور اُس سے کوئی کام نہ لیا جائے۔
 لیکن سائیس نے اس حکم پر عمل نہ کیا وہ روز بروز گھوڑے کا دانہ کم کرتا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ایک روز اُسے اپاہج اور اندھا سمجھ کر اصطبل سے نکال دیا۔ بے چارہ گھوڑا رات بھر بھوکا پیاسا، بارش اور طوفان میں باہر کھڑا رہا۔ جب صبح ہوئی تو جوں توں کرکے وہاں سے چل دیا۔
 اسی شہر عادل آباد میں ایک بڑی مسجد تھی اور ایک بڑا مندر۔ اُن میں نیک ہندو اور مسلمان آکر اپنے اپنے ڈھنگ سے خدا کی عبادت کرتے اور اُس کو یاد کرتے تھے۔ مندر اور مسجد کے بیچ میں ایک بہت اونچا مکان تھا، اُس کے بیچ میں ایک بڑا سا کمرا تھا۔ کمرے میں ایک بہت بڑا گھنٹہ لٹکا ہوا تھا اور اس میں ایک لمبی سی رسّی بندھی ہوئی تھی۔ اُس کا گھر کا دروازہ دن رات کھلا رہتا۔ شہر عادل آباد میں جب کوئی کسی پر ظلم کرتا، یا کسی کا مال دبا لیتا، یا کسی کا حق مار لیتا، تو وہ اُس گھر میں جاتا، رسّی پکڑ کر کھینچتا، یہ گھنٹہ اِس زور سے بجتا کہ سارے شہر کو خبر ہو جاتی۔ گھنٹے کے بجتے ہی شہر کے سچے، نیک دل ہندو مسلمان وہاں آجاتے اور فریادی کی فریاد سن کر انصاف کرتے۔
 اتفاق کی بات کہ اندھا گھوڑا بھی صبح ہوتے ہوتے اُس گھر کے دروازے پر جا نکلا۔ دروازے پر کچھ روک ٹوک تو تھی نہیں، گھوڑا سیدھا گھر میں گھس گیا۔ بیچ میں رسّی لٹکی تھی، یہ غریب مارے بھوک کے ہر چیز پر منہ چلاتا تھا، رسّی جو اُس کے بدن سے لگی تو وہ اُسی کو چبانے لگا۔ رسّی جو ذرا کھینچی تو گھنٹا بجا۔ مسلمان مسجد میں نماز کے لئے جمع تھے، پجاری مندر میں پوجا کر رہے تھے۔ گھنٹہ جو بجا تو سب چونک پڑے اور اپنی اپنی عبادت ختم کرکے سب اُس گھر میں آن کر جمع ہوگئے۔ شہر کے پنچ بھی آگئے۔ پنچوں نے پوچھا، ’’یہ اندھا گھوڑا کس کا ہے؟‘‘ لوگوں نے بتایا، ’’یہ فلاں تاجر کا ہے۔ اِس گھوڑے نے تاجر کی جان بچائی تھی۔‘‘ پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ تاجر نے اُسے نکال کر باہر کیا ہے۔ پنچوں نے تاجر کو بلوایا۔ ایک طرف اندھا گھوڑا تھا، اُس کی زبان نہ تھی جو شکایت کرتا۔ دوسری طرف تاجر کھڑا تھا، شرم کے مارے اُس کی آنکھیں جھکی تھیں۔
 پنچوں نے کہا، ’’تم نے اچھا نہیں کیا.... اِس گھوڑے نے تمہاری جان بچائی اور تم نے اِس کے ساتھ کیا کیا؟ تم آدمی ہو، یہ جانور ہے۔ آدمی سے اچھا تو جانور ہے۔ ہمارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہر ایک کو اُس کا حق ملتا ہے اور احسان کا بدلہ احسان سمجھا جاتا ہے۔‘‘
 تاجر کا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا، اُس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ بڑھ کر اُس نے گھوڑے کی گردن میں ہاتھ ڈال دیا۔ اُس کا منہ چوما اور کہا، ’’میرا قصور معاف کر۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے وفا دار گھوڑے کو ساتھ لیا اور گھر لے آیا۔ پھر اُس کے لئے ہر طرح کے آرام کا انتظام کر دیا۔
(ڈاکٹر ذاکر حسین اُردو کے 
مشہور ادیب اور تیسرے صدر جمہوریہ تھے۔)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK