Inquilab Logo Happiest Places to Work

اپریل فول بنایا

Updated: April 01, 2023, 11:07 AM IST | Raees Siddiqui | Mumbai

یکم اپریل کی علی الصباح رئیس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ اچانک اسے شرارت سوجھتی ہے اور وہ چور.... چور کہہ کر پکارنے لگتا ہے۔ اس کی شرارت کا سلسلہ پورا دن جاری رہتا ہے مگر

photo;INN
تصویر :آئی این این

ابھی آدھی سے زیادہ رات گزری تھی کہ نہ جانے کیوں اور کیسے میری آنکھ کھل گئی۔
 میں نے بہت کوشش کی کہ سو جائوں، مگر نیند تھی کہ کسی طرح آنے کو راضی نہ تھی۔
 میں نے لائٹ آن کی اور گھڑی دیکھی تو وہ صبح کے پانچ بجا رہی تھی۔ اچانک لیٹے لیٹے میں اُٹھ بیٹھا اور نئی نئی شرارتیں ذہن میں جنم لینے لگیں۔ بہت غور و فکر کے بعد میں نے یہ طے کیا کہ آج کچھ شرارتیں کرنی چاہئے کیونکہ آ ج تو اسی کا دن ہے یعنی فرسٹ اپریل، اپریل فول۔ بس پھر کیا تھا۔
 ’’چور چور.... چور....‘‘ چلّاتے ہوئے میں اپنی امی کے پلنگ پر منہ کے بل دھڑام سے گِر پڑا۔ آواز اتنی تیز تھی کہ ان کے ساتھ ساتھ.... سبھی بہن بھائی بھی جاگ اٹھے اور ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ چونکہ گھر پر والد صاحب نہیں تھے اس لئے ذرا امی بھی ڈریں اور فوراً سبھی کمروں کی لائٹ روشن کی اور پھر میرے کمرہ کابغور جائزہ لیا۔ ظاہر ہے کہ میرے کمرہ میں چور تو چور ایک چوہا بھی نظر نہ آیا۔ ’’کہا ں ہے چور ؟ جو چور چور چلّا رہے ہو!‘‘ امی بڑ بڑائیں۔ وہ سوالات پہ سوالات کئے جارہی تھیں اور میں بالکل خاموش اور گُم سم بیٹھا ہوا تھا۔
 اس طرح چند لمحے گزر گئے۔ اچانک میں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ اب تو سب لوگ اور ڈر گئے۔ ’’کیا بات ہے رئیس؟‘‘ امی نے مجھے جھنجھوڑا۔
 ’’ارے واہ بھئی واہ.... آپ لوگ اس قدر ڈرپوک ہیں!‘‘ مَیں نے تعجب ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ ’’بھیا ڈرنے کی تو بات ہے۔‘‘ میری چھوٹی بہن ناہید بولی۔
 ’’ارے پگلی آج فرسٹ اپریل ہے۔‘‘ میں نے اپنی معلومات کا اظہار کیا۔
 ’’اچھا تو آج آپ نے فرسٹ اپریل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سب کو فول (بیوقوف) بنایا ہے۔‘‘ میری بہن فردوس بولی۔
 ’’جی ہاں، بہت دیر کے بعد آپ سمجھیں!‘‘ یہ کہتے ہوئے میں اپنے کمرے کی طرف لپکا تاکہ میںامی کی خاطر تواضع سے محفوظ رہ سکوں۔
 ابھی صبح دس بجے تھے کہ میں نے اپنی شرارتوں کا نشانہ بنانے کے لئے چند دیگر لوگوں کو منتخب کیا۔ میں نے اپنے دوست عاصم کے ذریعہ اپنے محلے کے حلوائی قمر بھائی کو یہ اطلاع دی کہ ممبئی سے ٹرنک کال آئی ہے۔جلدی آجائو۔
 قمربھائی اپنی سبزی پوری کے لئے مشہور تھے۔ وہ اپنے گاہکوں کو چھوڑ کر میرے پاس بھاگتے ہوئے آئے۔
 ’’قمر بھائی وقت ختم ہورہا تھا اس لئے آپ کے بھائی صاحب نے آپ کے نام ایک پیغام لکھوانے کے بعد فون رکھ دیا۔‘‘ میں نے ایک کاغذ کا ٹکڑا قمربھائی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
 انہوں نے جلدی سے وہ پُرزہ کھولا، ’’ایں فرسٹ.... اپریل.... فول!‘‘ انہوں نے پڑھتے ہوئے میری طرف دیکھا۔
 ’’قمر بھائی، گستاخی معاف۔ آج پہلی اپریل ہے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ جھینپ گئے لیکن مسکراتے ہوئے چلے گئے۔
 اب میں نے سوچا کہ بھئی کیوں نہ آج کسی رشتہ دار کو فول بنایا جائے۔ چنانچہ میں دوڑا دوڑا اپنی ممانی جان کے یہاں پہنچا اور ہانپتے ہوئے بولا، ’’ممانی! ممانی جان! میری امی کی طبیعت بہت خراب ہے۔جلدی چلئے۔ آپ کو بلایا ہے۔‘‘ گھبراہٹ اور پریشانی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے میں نے کہا۔
 ممانی ہائے اللہ کرتے ہوئے پان و ڈلی وغیرہ کا اپنا بٹوہ سنبھالنے لگیں۔ میں موقع پاکر اسی بیچ امی کے پاس آیا اور ہانپتے ہوئے بولا، ’’امی! امی! ممانی کو دورہ پڑگیاہے۔ جلدی چلئے۔ ماموں ڈاکٹر کو بلانے گئے ہوئے ہیں۔‘‘
 ’’ارے! اچھا جلدی سے رکشا بلائو۔‘‘ امی نے حکم دیا۔
 میں جلدی سے رکشا لے کر آیا۔ ابھی ہم رکشہ پر بیٹھ ہی رہے تھے کہ سامنے سے ممانی کا رکشا آگیا۔ دونوں ایک دوسرے کا حیرت سے منہ تک رہے تھے اور میں ’’اپریل فول‘‘ بنایا کہہ کر وہاں سے بھاگ نکلا۔
 اب باری تھی میرے بڑے بھائی رشید بھائی کے ٹیلر ماسٹر کی۔ ان کی دکان محلہ میں ہی تھی۔ مَیں ٹیلر ماسٹر صاحب کے پاس گیا او ر بہت ادب سے کہا، ’’ ماسٹر جی، رشیدبھائی نے آپ کو فوراً یاد فرمایا ہے۔ سفید شیروانی کی ناپ لینی ہے۔‘‘
 ماسٹر صاحب نے اپنا انچی ٹیپ وغیرہ سنبھالا اور رشید بھائی کے پاس آگئے۔ رشید بھائی گردن جھکائے کسی حساب کتاب میں مصروف تھے۔ 
 ’’بھئی جلدی کرو، ہمیں ایک اہم کام سے جانا ہے۔‘‘ چونکہ دونوں گہرے دوست ہیں، اس لئے وہ بلا تکلف بولے۔
 ’’کیا مطلب ماسٹر صاحب؟‘‘ رشید بھائی نے اپنی گردن اوپر اٹھائی اورفکر مند ہوتے ہوئے بولے۔ ’’بھئی شیروانی کی ناپ دوگے یا نہیں؟ تم نے رئیس کو بھیج کر مجھے ا رجنٹ بلوایا ہے۔‘‘ ماسٹر صاحب بیزار ہوتے ہوئے بولے۔
 رشید بھائی نے میری طرف دیکھا۔ میں ہنسی نہ روک سکا۔ رشید بھائی سمجھ گئے۔
 ’’بھائی جائیے.... آج فرسٹ اپریل ہے۔ رئیس نے آپ کو فول بنایا ہے۔‘‘
 ماسٹر صاحب کھسیاگئے مگر بے چارے اپنی جھینپ مٹانے کے لئے قہقہہ لگانے لگے۔
 قریب چار بج رہے ہوں گے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اب کسی کو فول نہ بنایا جائے.... آج لوگ بہت فول بن چکے۔ چنانچہ میں پڑھنے بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کے بعد دروازے کی گھنٹی بجی۔ میں باہر آیا تو شکیل کو کھڑا پایا۔
 ’’ارے بھئی خیرت تو ہے؟ کہو، کیسے آنا ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
 ’’رشید بھائی نے پرویز بھائی کانپور والوں کا فون نمبر پوچھا ہے۔ اس کاغذپر لکھ دو۔‘‘ شکیل نے میری طرف کاغذ کا پرچہ بڑھاتے ہوئے کہا۔
 میں نے وہ پرچہ لیا اور اس کو کھولتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔
 ’’تمہارا چچا....!‘‘
 اچھا تو میاں شکیل نے مجھے اپریل فول بنایا ہے! صبح سے میں لوگوں کو فول بنا رہا تھا اور یہ میاں مجھ کو بنا گئے۔ خیر کوئی بات نہیں.... میرا نام بھی رئیس ہے!
 یہ سوچتے ہوئے میں باہر آیا تاکہ کسی طرح سے شکیل کو بھی اپریل فول بنا سکوں مگر شکیل وہاں سے جاچکا تھا۔
 تمام ہوشیاری کے با وجود، اس طرح بیوقوف بننا مجھے بہت کھلا لیکن اسی وقت میرے اندر یہ احساس جاگا کہ میں بھی تو آج صبح سے لوگوں کو اپریل فول بنا رہا تھا۔ ان کا بھی دل اسی طرح دکھا ہوگا۔ وہ دل مسوس کر رہ گئے ہوں گے۔ وہ بھی میری طرح شرمندہ ہوئے ہوں گے۔
 پس اسی وقت میں نے یہ عہد کیا کہ ’’اب میں کبھی بھی، کسی کو بھی اپریل فول نہیں بنائوں گا

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK