Inquilab Logo

میرا دوست اقبال!

Updated: January 20, 2024, 1:23 PM IST | Usaid Ashhar | Jalgaon

اقبال نے اردو اور انگریزی زبانوں پر کافی مہارت حاصل کرلی تھی۔ اس میں یہ بدلاؤ اور ترقی دیکھ کر میں اس کا مذاق اڑاتا تھا اور اسے چھیڑتا تھا۔ ظاہر سی بات ہے، اپنا پہلا مقام چھن جانے پر مجھے تکلیف ہوئی تھی۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

’’لو بھئی،ارسطو صاحب تشریف لے آئے۔ اب جلد ہی کلاس شروع ہوگی۔ ‘‘ اقبال کے کمرہ جماعت میں داخل ہوتے ہی مَیں نے ہانک لگائی اور زور کا قہقہہ لگایا۔ دیگر طلبہ،جو گپ شپ میں مگن تھے،اقبال کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگے۔ اقبال عینک درست کرتا ہوا اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ گیا،پہلے بنچ پر،استاد کی میز کرسی کے بالکل سامنے۔ 
 ٹھیک پانچ منٹ بعد اسلم سر کلاس میں داخل ہوئے۔ وہ تاریخ مضمون پڑھاتے تھے۔ ان کے پڑھانے کا انداز اتنا د لنشیں تھا کہ تاریخ جیسے مضمون میں بھی ہمیں مزہ آتا تھا۔ انہوں نے آتے ہی سوال کیا۔ ’’بچو! بتاؤ،مغل سلطنت کی بنیاد کس نے اور کیسے رکھی؟‘‘
 یہ سنتے ہی میرا چہرہ اتر گیا۔ اسلم سر آج سے نیا سبق شروع کرنے والے تھے۔ انہوں نے مغلیہ سلطنت کے بارے میں پیشگی پڑھ کر آنے کی تلقین کی تھی لیکن آج پھر میں ان کی ہدایت پر عمل کرنا بھول گیا تھا۔ کل مَیں کمپیوٹر گیم کھیلنے میں اتنا مگن تھا کہ گھرکام کرنا یاد ہی نہ رہا تھا۔ پوری کلاس میں صرف اقبال نے ہاتھ بلند کیا۔ اسلم سر نے باقی طلبہ کی طرف دیکھ کر افسوس سے سر ہلایا اور اقبال کو اثبات میں اشارہ کیا۔ وہ ٹیپ ریکارڈر کی طرح مغل سلطنت کی داغ بیل پڑنے کی کہانی سنانے لگا۔ میں اس عرصہ میں نہ پڑھ کر آنے پر اچھی طرح پچھتا چکا تھا۔ دیگر طلباء اپنی جمائیاں پوری کرکے بستوں سے کتابیں بیاضیں نکال رہے تھے۔ میں نے بھی تاریخ کی کتاب نکالی اور اسکے اوراق الٹنے لگا۔ 
 تقریباً دو سال پہلے میرا شمار بھی کلاس کے ذہین طلباء میں ہوتا تھا۔ ہفتم جماعت تک میں نے ہر امتحان میں اول مقام سے کامیابی حاصل کی جبکہ اقبال ’ٹاپ فائیو‘ میں بڑی مشکل سے جگہ بنا پاتا تھا۔ ہشتم جماعت میں اقبال کے نمبرات بہتر ہوتے گئے اور نہم میں وہ اوّل مقام سے کامیاب ہوا جبکہ میں دوسرے مقام پر کھسک گیا۔ اب ہم دہم جماعت میں زیر تعلیم تھے۔ اور اقبال مجھ سے بہتر تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ کئی تقریری و تحریری مقابلوں میں بھی اس نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ اس میں یہ تبدیلی کیسے آئی؟ اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا اور نہ میں نے کبھی جاننے کی کوشش کی۔ 
 اقبال،ایک میانہ قد کا لڑکا تھا جو گول فریم کی عینک لگاتا تھا۔ اس کی بھنویں گہری تھیں۔ وہ ہمیشہ صاف ستھرے،دھلے کپڑے پہنتا اور اپنی کاپیاں بھی مکمل اور ستھری رکھتا۔ وہ نیک کردار کا مالک تھا۔ کلاس کے دیگر طلباء کی مدد کرتا اور سب سے مل جل کر رہتا تھا۔ کھیل کود کی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا اور نمایاں مقام حاصل کرتا۔ میں نے آج تک اسے کسی سے لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا تھا۔ کلاس میں بہت کم ہی بولتا تھا۔ دو تین سال قبل وہ کلاس میں پوچھے گئے سوالات کا جواب تک نہیں دیتا تھا۔ لیکن آج وہی اکیلا سارے اساتذہ کے تقریباً سبھی سوالات کا جواب دیتا تھا۔ نصاب کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی اسے کافی علم ہوگیا تھا۔ کلاس میں دینی یا دنیوی موضوعات پر بات چھڑتی تو وہ جوش و خروش سے اپنی موجودگی درج کرواتا۔ اقبال نے اردو اور انگریزی زبانوں پر کافی مہارت حاصل کرلی تھی۔ اس میں یہ بدلاؤ اور ترقی دیکھ کر میں اس کا مذاق اڑاتا تھا اور اسے چھیڑتا تھا۔ ظاہر سی بات ہے،اپنا پہلا مقام چھن جانے پر مجھے تکلیف ہوئی تھی۔ اسی لئے میں اسے طنزاً ’ارسطو‘ کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیا کرتا۔ اس نے کبھی برا نہیں مانا بلکہ میرے ساتھ اس کا رویہ پہلے جیسا ہی رہا۔ ہم میں گہری دوستی نہ سہی،تھوڑی بہت بات چیت ہوتی تھی۔ مجھے اس سے جلن نہیں تھی۔ مجھے یہ احساس تھا کہ کڑی محنت کی بدولت وہ اوّل مقام پر پہنچا ہے اس لئے وہی اس کا حقدار ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مَیں اپنے دوسرے مقام پر مطمئن تھا اور میری جدوجہد اسے قائم رکھنے تک ہی محدود تھی۔ 
 کچھ دنوں بعد ہماری اسکول میں شہری سطح کے انٹر اسکول کرکٹ ٹورنامنٹ کیلئے سلیکشن شروع ہوئے۔ میں کرکٹ کا دیوانہ تھا۔ بچپن سے گلی اور میدان میں کرکٹ کھیلتا تھا اور اچھی بلے بازی کرلیتا تھا۔ میں اسکول ٹیم کیلئے منتخب ہوگیا۔ ساتھ میں اقبال کا بھی انتخاب ہوا تھا۔ وہ بھی اچھا بلے باز تھا۔ 
 ٹورنامنٹ ایک مہینہ کی دوری پر تھا۔ ہم نے زوروں سے پریکٹس شروع کر دی۔ اسکول کی چھٹی کے بعد ہم اسکول کے میدان پر دو تین گھنٹے پریکٹس کیا کرتے تھے۔ اور اتوار کے دن دگنا وقت دینے کی کوشش کرتے۔ پریکٹس کے بعد کرکٹ کا سامان اقبال کے گھر پر رکھ دیاجاتا کیونکہ اقبال کا گھر اسکول سے قریب ہی تھا۔ یہی کوئی پانچ منٹ کی دوری پر۔ اس کے گھر کے پاس چند قدم کی دوری پر بس اسٹاپ تھا جہاں میں اپنے گھر کیلئے بس میں سوار ہوتا تھا۔ 
 وہ اتوار کا دن تھا۔ دوپہر کی کڑی دھوپ میں ہم نے آج تقریباً چار گھنٹے پریکٹس کی تھی جس کی تھکان سے میرا بدن چُور چُور ہوا جارہا تھا۔ میں نڈھال قدموں کے ساتھ بس اسٹاپ پہنچا۔ بس اسٹاپ پر چند خواتین بس کا انتظار کررہی تھیں۔ قریب ہی ایک چھوٹا بچہ گیند کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ میرے اسکول بیگ میں ایک نئی کرکٹ گیند ہے جو میں نے کل اسکول ٹیم کیلئے خریدی تھی۔ میں اقبال کو گیند دینا بھول گیا تھا۔ میں نے سوچا،جب تک بس آتی ہے،میں یہ گیند اقبال کے پاس رکھوا کر لوٹ آئوں گا۔ یہ سوچ کر میں اس کے گھر کی طرف چل دیا۔ 
 دروازے پر پہنچ کر میں نے کال بیل بجائی۔ ایک خاتون،جو غالباً،اقبال کی امی تھیں،نے دروازہ کھولا۔ میں نے سلام کیا،’’آنٹی،اقبال کو یہ گیند دے دیجئے گا۔ ‘‘ میں بستہ سے گیند نکالنے لگا۔ 
 ’’آؤ بیٹا،اندر آؤ....‘‘ انہوں نے دروازہ کے دونوں پٹ کھول دیئے۔ ’’اقبال،دیکھو تمہارا دوست آیا ہے۔ ‘‘ مَیں ’’ارے آنٹی،ارے آنٹی....‘‘ ہی کرتا رہ گیا۔ وہ اندر چلی گئیں۔ اگلے لمحہ،اقبال ایک کمرے سے برآمد ہوا اور اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اندر کھینچ لیا۔ شاید وہ میری آمد سے بہت خوش ہوا تھا۔ 
 اس دوران میں اپنے بیگ میں گیند برابر تلاش کرتا رہا گویا وہ بیگ نہیں،بھول بھلیاں ہو اور گیند،ایک باریک سوئی۔ آخرکار گیند مل گئی۔ میں گیند اقبال کو سونپ کر جانے کا ارادہ کررہا تھاکہ اس کی والدہ پانی لے آئیں۔ میں نے پانی پیا اور کمرہ پر اچٹتی سی نظر ڈالی۔ یہ ایک چھوٹا لیکن خوبصورتی سے سجایا ہوا کمرہ تھا۔ فرنیچر سادہ تھا۔ دو بڑی کھڑکیاں تھیں جن پر دیدہ زیب پردے لٹک رہے تھے۔ ایک جانب بڑی الماری تھی جس میں سلیقے سے کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ حتیٰ کہ ٹی وی کے خانے میں بھی کتابیں۔ ’’اتنی ساری کتابیں ....‘‘ مَیں نے گہری سانس لی۔ شاید اس گھر وہاں صرف کتابیں تھیں،ٹی وی اور کمپیوٹر نہیں تھا،جیسا کہ میرے گھر تھا۔ مجھے اقبال کی بوریت بھری زندگی پر ترس آیا۔ 
 اقبال نے مجھے اپنی والدہ سے متعارف کروایا۔ میں نے گیند اس کے حوالے کی اور ان دونوں کا شکریہ ادا کرکے جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ 
 ’’بیٹھو بیٹا،مَیں شربت بنا کر لاتی ہوں۔ ‘‘ اُنہوں نے اصرار کیا تو میں بیٹھ گیا۔ یوں سخت گرمی میں مَیں شربت کے آفر کو کیسے ٹھکرا دیتا؟ شاید اقبال بھی نہیں چاہتا تھا کہ میں اتنی جلد رخصت ہو جاؤں۔ 
 ’’تمہارے گھر میں کافی ساری کتابیں ہیں !‘‘ مَیں نے کتابوں کی الماری کو حیرت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ جی ہاں ! مَیں واقعی حیران تھا۔ 
 ’’مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق ہے اسلئے والد صاحب ہر ماہ کتابیں خریدتے ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے کچھ کتابیں تحفتاً اور کچھ مختلف مقابلوں میں بطور انعام ملیں ہیں۔ ‘‘
 ’’اور اقبال اپنے جیب خرچ سے بھی کتابیں خریدتا ہے۔ ‘‘ اس کی والدہ نے مسکرا کر میری معلومات میں اضافہ کیا جو شربت کی ٹرے تھامے کمرہ میں داخل ہورہی تھیں۔ 
 ’’تمہیں کتابیں پڑھنے کی ترغیب کیسے ملی؟‘‘ میں یہ سوال پوچھنے سے خود کو روک نہیں پایا۔ 
 ’’دو سال پہلے امی کے کہنے پر مَیں نے فروغِ مطالعہ نامی ایک تعلیمی و سماجی تنظیم کی مطالعہ مہم میں شرکت کی تھی۔ وہیں سے مطالعہ کے تئیں میرا شوق پروان چڑھا۔ اور مطالعہ کی عادت سے مجھے بیش بہا فوائد حاصل ہوئے۔ اب میں تنظیم کا ایک فعال ممبر ہوں۔ ہم ہر ماہ اتفاق رائے سے منتخب کی ہوئی کتابیں پڑھتے ہیں اور مہینہ کے آخر میں ان پر گفتگو کرتے ہیں اور حاصلِ مطالعہ پیش کرتے ہیں۔ ‘‘ اقبال نے جواب دیا۔ 
 ’’اقبال کے مطالعہ کی عادت نے اُسے ٹی وی،کمپیوٹر،موبائل جیسی فضولیات اور بری لتوں سے محفوظ رکھا ہے۔ اس کے فارغ وقت کا صحیح استعمال ہونے لگا۔ کہانیوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر مطالعہ کرنے سے اس کے علم میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ وہ مختلف تعلیمی سرگرمیوں میں بھی شرکت کرتا ہے۔ ‘‘ اس کی امی نے میرے علم میں اضافہ کیا اور مسکرا کر فخریہ انداز میں اقبال کی طرف دیکھا۔ 
 ’’اور.... شاید اسی وجہ سے اسکول میں اس کے نمبرات بھی بہتر آنے لگے ہیں۔ ‘‘ مَیں نے دل ہی دل میں کہا۔ 
 ’’تمہیں بھی کتابیں پڑھنے کا شوق ہوگا بیٹا؟‘‘ یکایک اس کی امی نے مجھ پر سوال داغ دیا۔ 
 ’’جی آنٹی! میں بھی کتابیں پڑھتا ہوں۔ پڑھائی کے بعد جتنا فارغ وقت ملتا ہے،اسے مَیں مطالعہ میں صرف کرتا ہوں۔ ‘‘ میں نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے جھوٹ کہا۔ مَیں نصابی کتابوں کے علاوہ دیگر کتابیں نہیں پڑھتا تھا۔ کمپیوٹر گیمز،ٹیلی ویژن،موبائل اور کرکٹ کے بعد وقت ہی کہاں ملتا تھا کہ غیر نصابی کتابیں پڑھوں۔ لیکن اقبال کی والدہ پر اچھا تاثر چھوڑنے کے لئے مجھے جھوٹ بولنا پڑا۔ مجھے شرمندگی محسوس ہوئی۔ 
 میرے جواب سے اقبال کی والدہ خوش ہوئیں۔ اور مجھے خوب دعائیں دیں۔ اقبال کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ 
 مَیں شربت پی چکا تھا۔ مَیں نے ان سے اجازت طلب کی اور بس اسٹاپ کی طرف روانہ ہوگیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK