Inquilab Logo

مصنوعی سیارے کا سفر

Updated: July 16, 2022, 11:37 AM IST | Parvez Ashrafi | Mumbai

رات کے ساڑھے ۸؍ بج رہے تھے۔ ابو نے ٹی وی کے پاس پہنچ کر بچوں سے کہا ’’بھئی تم لوگ بہت دیر سے پروگرام دیکھ رہے ہو۔ خبروں کا وقت ہوگیا ہے۔ مجھے خبریں سننا ہیں اب تم لوگ خاموش ہو جاؤ۔‘‘

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

رات کے ساڑھے ۸؍ بج رہے تھے۔ ابو نے ٹی وی کے پاس پہنچ کر بچوں سے کہا ’’بھئی تم لوگ بہت دیر سے پروگرام دیکھ رہے ہو۔ خبروں کا وقت ہوگیا ہے۔ مجھے خبریں سننا ہیں اب تم لوگ خاموش ہو جاؤ۔‘‘ ہم سبھی خاموش ہوگئے۔ ابو نے چینل بدل دیا اور دوردرشن پر نشر ہونے والی خبروں کا انتظار کرنے لگے۔ ہم نے بھی سوچا آج دیکھیں خبروں میں کیا ہوتا ہے؟ آخر کیا دلچسپی ہے کہ ابّو خبریں ضرور سنتے ہیں....! خبریں شروع ہو چکی تھیں۔ ہمارا دھیان پوری طرح ٹی وی اسکرین پر تھا۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ شاید کوئی آیا ہے۔ ابّو نے مجھ سے کہا ’’ثقلین جاؤ دیکھو کون آیا ہے؟‘‘ مَیں تیزی سے اُٹھا کمرے سے باہر جا کر دروازہ کھولا... میرے سامنے کامران ماما کھڑے تھے۔ ’’السلام علیکم، ماما! آپ کب آئے؟‘‘ ابھی مَیں اُن سے دریافت ہی کر رہا تھا کہ امّی نے پوچھا ’’کون ہے ثقلین؟‘‘ ’’کامران ماما ہیں امّی!‘‘ اپنے بھائی کی آمد کا سن کر وہ بھی دوڑی آئیں۔ ہم سب کامران ماما کو لے کر ابّو کے کمرے میں آگئے۔ وہ بھی خبریں دیکھنے میں لگ گئے۔ اسی درمیان ایک خبر نے میرے ذہن کو متوجہ کیا۔ ’’آج شام سری ہری کوٹا سے بھارت نے اپنا مصنوعی سیارہ خلاء میں چھوڑ دیا کل تک یہ اپنے مدار میں گردش کرنے لگے گا۔‘‘ خبریں ختم ہو چکی تھیں لیکن میرا ذہن ایک خاص جملے پر گردش کر رہا تھا۔ ’’مصنوعی سیارہ‘‘ میرے دماغ میں بار بار یہ سوال اُبھر رہا تھا کہ ’’مصنوعی سیارہ‘‘ کیا بلا ہے؟ آخر میری بے چینی کو دیکھ کر کامران ماما نے پوچھا ’’کیا بات ہے ثقلین تم کچھ فکرمند سے دکھائی دے رہے ہو؟ پڑھائی تو ٹھیک چل رہی ہے....؟‘‘’’ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ پچھلی رات خبروں میں مصنوعی سیارہ کا ذکر آیا تھا وہ کیا چیز ہے؟ ماما آپ تو سائنس کے طالبعلم ہیں۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں کیا آپ روشنی ڈالیں گے؟‘‘ ’’کیوں نہیں بے شک مَیں تمہیں بتاؤں گا۔ یہ تو میرے لئے خوشی کی بات ہے کہ مسلمان بچے سائنس جیسے مضمون میں دلچسپی لے رہے ہیں۔‘‘ ماما نے کہا۔
 ’’تو آپ ہمیں مصنوعی سیارے کے متعلق بتائیں.... یہ کیا چیز ہے؟ اور اس کے فائدے کیا ہیں۔‘‘ ثقلین نے کامران ماما کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’ثقلین صرف ہم ہی نہیں حبیبہ، قوسین اور اقصیٰ تم لوگ بھی آجاؤ۔ آج مَیں تمہیں مصنوعی سیارے کے بارے میں بتاؤں گا۔‘‘ کامران سب کے ساتھ بیٹھ گیا۔
 بچو! اللہ پاک نے بہت سے سیارے اپنی قدرت سے بنائے ہیں اور سبھی کو ایک خاص مقام پر گردش کرنے کا حکم دیا ہے۔ وہ سبھی اسکے حکم کے مطابق اپنے محور پر گھوم رہے ہیں۔ اسی طرح زمین جس پر ہم سب بستے ہیں وہ بھی ایک رفتار سے اپنے محور پر گھوم رہی ہے اسی گردش کی وجہ سے دن اور رات ہوتے ہیں۔ یہی نہیں یہ سورج کے چاروں طرف بھی گھوم رہی ہے اسی لئے موسم میں تبدیلی ہوتی ہے۔ اب دیکھو آج کل موسم سرما آگیا ہے۔ اسی سیارے کی گردش سے سبق لے کر اللہ کے بندوں نے اُس کی دی ہوئی عظیم نعمت دماغ سے کام لیا اور عقل کو ساتھ لے کر مصنوعی سیارہ بنایا جو آج کل خلاء میں چھوڑا جاتا ہے اور مدار میں پہنچ کر یہ بھی زمین کے چاروں طرف گردش کرتا ہے۔ اس سے ہمیں موسم کی جانکاری ملتی ہے، زلزلہ کا پتہ چلتا ہے ہم جو ٹیلی ویژن کے پروگرام دیکھتے ہیں اسی کے ذریعہ ہم سب تک پہنچتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں کہیں کوئی بھی واقعات ہو رہے ہوں یا کھیل یا اولمپک گیمز ہوتے ہیں کرکٹ یا ہاکی کا میچ ہوتا ہے وہ سب اسی مصنوعی سیارے کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے۔
 ’’کامران ماما آپ ہمیں اس بارے میں اور زیادہ بتائیں۔‘‘ قوسین نے ٹوکا۔ ’’ہاں.... ہاں! بتاتا ہوں۔ سنو! مصنوعی سیارہ انسان کی بنائی ہوئی ایسی مشین ہے جسے زمین کے گرد ایک خاص فاصلے پر گردش کرنے کیلئے خلاء میں چھوڑا جاتا ہے۔ خلاء میں جو تجربہ مصنوعی سیارے کے ذریعہ کرنا ہو اس کے مدنظر مناسب آلات مصنوعی سیارے میں لگائے جاتے ہیں۔‘‘
 ’’ماما آپ ہمیں یہ بتایئے کہ سب سے پہلا مصنوعی سیارہ کب زمین کے مدار میں بھیجا گیا۔‘‘ حبیبہ نے تجسّس سے دریافت کیا۔ ’’تم نے بہت اچھا سوال کیا۔ تمہیں بتاؤں، جہاں تک مجھے یاد آتا ہے سب سے پہلا مصنوعی سیارہ ۴؍ اکتوبر ۱۹۵۷ء کو زمین کے گرد مدار میں بھیجا گیا۔ اس کامیابی کے بعد اب تک بے شمار مصنوعی سیارے خلاء میں بھیجے گئے ہیں۔ اُن میں سے بہت سے ابھی تک زمین کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ کئی مصنوعی سیارے چاند اور مریخ کی طرف بھی بھیجے گئے ہیں۔‘‘
 ’’ماما.... مدار کیا ہوتا ہے؟ آپ بار بار مدار کا ذکر کر رہے ہیں۔‘‘ اقصیٰ نے سوال کیا۔ ’’ہاں.... تمہارا سوال تو بہت اچھا ہے۔ جس راستے پر مصنوعی سیارہ زمین کے گرد چکر لگاتا ہے اسے مدار کہتے ہیں۔ یہ عام طور پر انڈے کی شکل کا ہوتا ہے۔‘‘
 ’’ماما آپ ہمیں یہ بتائیں کہ مصنوعی سیارے مدار میں کیسے داخل ہو جاتے ہیں؟‘‘ سنتے سنتے قوسین نے بھی سوال اٹھایا۔ ’’واہ تم تو بڑے ذہین ہو قوسین؟ مَیں تو سمجھتا تھا کہ تم اسکول جانے سے بھاگتے ہو۔ اسی لئے نانا کے آنے پر بخار کا بہانہ بناتے تھے لیکن تم نے تو بہت اہم سوال کیا۔‘‘ کامران کی یہ بات سن کر قوسین شرما کر رہ گیا۔
 ’’اچھا! مَیں تمہیں سمجھاتا ہوں۔ کسی مصنوعی سیارے کو مدار میں داخل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اُسے زمین سے کئی سو کلومیٹر کی بلندی تک لے جایا جائے پھر اسے سطح زمین سے متوازی سمت میں ایک خاص رفتار سے چلایا جائے۔ جو کم سے کم ۲۹؍ ہزار کلو میٹر گھنٹہ ہونی چاہئے اگر اس سے کم رفتار ہوگی تو سیارہ زمین پر آ گرے گا۔‘‘ ابھی کامران سمجھا ہی رہا تھا کہ ثقلین نے بیچ میں ٹوک دیا ’’ماما اتنا بڑا بھاری بھرکم سیارہ اوپر کس طرح پہنچ جاتا ہے؟‘‘ ’’میرے پیارے بھانجے.... جتنا بڑا سیارہ ہوتا ہے اتنا ہی بڑا راکٹ تیار کیا جاتا ہے۔ مصنوعی سیارے کو راکٹ کے اوپری نوک پر رکھا جاتا ہے۔ راکٹ کے تین حصے ہوتے ہیں جب راکٹ سیارے کو لے کر سطح سے اوپر بلند ہوتا ہے۔ تب اس کا نچلا حصہ ایندھن ختم ہونے کے بعد الگ ہو کر نیچے گر جاتا ہے۔ اس کے بعد راکٹ ایک طرف کو ترچھا ہو جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اسی ترچھی رخ میں پرواز کرتا ہے اس کا اپنا ایندھن ختم ہوتے ہی اس کا دوسرا حصہ بھی گر جاتا ہے۔ اس وقت تک اس کی رفتار بڑھتی ہوئی ۲۹؍ ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ پہنچ جاتی ہے۔ جب تک تیسرے مرحلے کا ایندھن ختم ہو سیارہ زمین کی سطح سے متوازی سمت میں مطلوبہ حد سے زیادہ رفتار حاصل کر لیتا ہے اور اس کے بعد وہ مدار میں پہنچ جاتا ہے۔ اور زمین کے گرد گردش کرنے لگتا ہے۔ آخری رفتار ۴۰؍ ہزار ۷۰؍ کلومیٹر فی گھنٹہ سے بڑھنا نہیں چاہئے ورنہ مصنوعی سیارہ دور خلاء میں نکل جائے گا۔ اس حیرت انگیز جانکاری نے سبھی بچوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ قوسین کو جماہی آ رہی تھی۔ حبیبہ نیند سے اونگھ رہی تھی۔ اسی درمیان ایک پیاری سی آواز نے سکوت توڑا ’’ماما! بس آخری بات یہ مصنوعی سیارہ مدار میں اپنی گردش کیسے برقرار رکھتا ہے؟‘‘ ’’تم بہت چالاک ہو نیند بھی آرہی ہے تمہیںا ور سوال بھی پیدا کر رہی ہو۔ اچھا چلو میں تمہیں یہ بھی بتاتا ہوں۔‘‘ کامران خوش ہو کر بولا ’’مصنوعی سیارہ زمین کے مدار میں داخل ہونے کے بعد ۲۹؍ ہزار سے ۴؍ ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار حاصل کر دیتا ہے۔ اسے اپنی حرکت قائم رکھنے کے لئے کسی توانائی کی ضرورت نہیں ہوتی اس طرح مصنوعی سیارہ زمین پر نہیں گرتا۔‘‘ جیسے ہی یہ بات پوری ہوئی کامران نے دیکھا سبھی بچے بستر پر ہی لڑھک گئے ہیں اس نے سب کو اٹھایا ’’چلو بچو.... تم لوگ اپنے اپنے بستر پر جاؤ۔ صبح اُٹھ کر اسکول بھی جانا ہے۔ اور مجھے بھی اپنے امتحان کی تیاری کرنی ہے۔‘‘ اور کامران بھی کپڑے تبدیل کرکے اپنے بستر پر آرہا تھا۔ رات کے ۱۱؍ بج رہے تھے اور نیند کی پریاں پنکھ پھیلائے باری باری سے سبھی بچوں کو لوریاں سنا رہی تھیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK