Inquilab Logo

بلّی کی تصویریں بنانے والا

Updated: February 03, 2024, 1:05 PM IST | Asif Farrukhi | Mumbai

اس نے در و دیوار پر بہت سی بلیاں بنائیں اور خالی جگہوں کو بلیوں کی تصویروں سے بھر دیا۔ پھر اسے نیند آنے لگی۔ گہری نیند۔ وہ وہیں دیوار کے پاس پڑ کر سونے کو تھا کہ اچانک اسے اپنے استاد کے الفاظ یاد آئے: ’’رات کے وقت بڑی جگہوں سے بچ کر رہنا، چھوٹی جگہوں پر رہنا۔‘‘

Photo: INN
تصویر : آئی این این

بہت زمانہ گزرا کہ جاپان کے ایک چھوٹے سے دیہات میں ایک غریب کسان اور اس کی بیوی رہا کرتے تھے۔ دونوں بڑے نیک اور بھلے مانس تھے۔ ان کے کئی بچے تھے۔ اس لئے ان سب کو پالنا پوسنا اور کھلانا پلانا مشکل ہورہا تھا۔ بڑا بچہ ۱۴؍ سال کی عمر ہی میں اس قابل ہوگیا تھا کہ اپنے ماں باپ کی مدد کرسکے اور اس کی بہنیں جوں ہی چلنے پھرنے لگتیں، گھر کے کام کاج میں ماں کا ہاتھ بٹانے لگتیں۔
مگر جو سب سے چھوٹا بچہ تھا وہ محنت کا اہل نظر نہیں آتا تھا۔ وہ ہوشیار بہت تھا، اپنے باقی بہن بھائیوں سے زیادہ ہوشیار۔ لیکن وہ اس قدر کمزور اور چھوٹا سا تھا کہ جو کوئی اسے دیکھتا، یہ کہتا کہ یہ لڑکا تندرست و توانا نہیں ہوگا۔ اس لئے اس کے ماں باپ نے یہ سوچا کہ بہتر یہی ہوگا کہ یہ لڑکا کسان کے بجائے راہب بن جائے۔ ایک روز وہ اسے گاؤں کی عبادت گاہ میں لے گئے اور وہاں جو بوڑھا، نیک دل راہب رہتا تھا اس سے درخواست کی کہ اس لڑکے کو اپنا چیلا بنا لے اور اسے وہ ساری باتیں سکھا دے جو راہبوں کو معلوم ہونا چاہئیں۔
بوڑھے راہب نے بہت شفقت کے ساتھ اس لڑکے سے بات کی اور دو چار مشکل سوال پوچھے۔ لڑکے نے اس ذہانت سے جواب دیئے کہ راہب نے اسے عبادت گاہ میں داخل کرنے اور رہبانیت کی تعلیم دینے کی ہامی بھر لی۔
بوڑھا جو بھی سکھاتا، لڑکا بڑی تیزی سے سیکھ لیتا اور سارے کاموں میں بوڑھے راہب کا بڑا فرمانبردار تھا مگر اس میں ایک خرابی تھی وہ پڑھنے کے دوران بلّی کی تصویریں بناتا رہتا اور ایسی جگہوں پر بھی تصویریں بنا دیتا جہاں بلّی کی تصویر نہیں بنانی چاہئے۔
وہ جب بھی کبھی اکیلا ہوتا، بلیوں کی تصویریں بنانے لگتا۔ راہب کی کتابوں کے حاشیے پر، عبادت گاہ کے پردوں پر، دیواروں پر اور ستونوں پر وہ بلّی کی تصویریں بنائے جاتا۔ راہب نے اسے کئی بار ٹوکا مگر وہ بلّی کی تصویریں بنانے سے باز نہیں آیا۔ وہ تصویریں اس لئے بناتا تھا کہ اس کا اپنے آپ پر بس نہیں چلتا تھا۔ اس میں وہ چیز تھی جسے ’’مصور کا جوہر‘‘ کہتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ راہب کا چیلا بننے کے قابل بھی نہیں تھا۔ چیلے کو تو صرف اپنے کام سے کام رکھنا پڑتا ہے۔
ایک دن جب وہ پردے پر بلّی کی بڑی ماہرانہ تصویر بنا کر اٹھا تو بوڑھے راہب نے سخت لہجہ میں اس سے کہا، ’’میرے بچے، اب تمہیں اس عبادت گاہ سے چلے جانا چاہئے۔ تم کبھی اچھے راہب نہیں بن سکو گے مگر شاید تم بہت بڑے مصور بن جاؤ۔ اب مَیں تمہیں آخری مشورہ دے دوں اور میری بات گرہ میں باندھ لو اور اسے ہرگز نہ بھولنا۔ رات کے وقت بڑی جگہوں سے بچ کر رہنا، چھوٹی جگہوں پر رہنا۔‘‘
لڑکے کی سمجھ میں نہیں آیا کہ راہب کا اس بات سے کیا مطلب تھا کہ رات کے وقت بڑی جگہوں سے بچ کر رہنا، چھوٹی جگہوں پر رہنا۔ وہ سوچتا رہا۔ اپنے کپڑوں کی گٹھری باندھتے ہوئے بھی سوچتا رہا مگر اس کی سمجھ میں نہیں آیا اور اب اس میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ راہب سے اس بات کا مطلب پوچھ لے۔ وہ بس خدا حافظ ہی کہہ سکا۔
 دکھے ہوئے دل کے ساتھ وہ عبادت گاہ سے باہر نکلا اور سوچنے لگا کہ اب کیا کرے؟ اگر گھر جاتا ہے تو اس بات کا یقین ہے کہ ابّا اسے اس بات پر سزا دیں گے کہ راہب کی نافرمانی کی۔ اس لئے وہ گھر جاتے ہوئے بھی ڈرتا تھا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اگلے گاؤں میں جو بارہ میل دور ہے ایک بہت بڑی عبادت گاہ تھی۔ اس نے سن رکھا تھا کہ وہاں بہت سے راہب ہیں۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس گاؤں میں چلا جائے گا اور ان راہبوں سے کہے گا کہ اسے اپنا شاگرد بنا لیں۔
 وہ عبادت گاہ کافی دن سے بند پڑی تھی مگر اس لڑکے کو یہ بات معلوم نہ تھی۔ عبادت گاہ اس لئے بند ہوگئی تھی کہ ایک بھتنا وہاں آگیا تھا۔ اس بھتنے نے راہبوں کو بھگا دیا اور اس جگہ پر قبضہ جما لیا تھا۔ کئی ایک بہادر سورما اس عبادت گاہ میں گئے کہ بھتنے کو نکال دیں مگر وہ زندہ پلٹ کر نہ آئے۔ یہ ساری باتیں کسی نے اس لڑکے کو نہیں بتائی تھیں۔ اس لئے وہ بڑے اطمینان کے ساتھ قدم اٹھاتا ہوا اس عبادت گاہ کی طرف چل پڑا۔ اس اُمید پر کہ وہاں کے راہب اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے۔
 جب وہ اس گاؤں میں پہنچا تو اندھیرا ہوچکا تھا اور گاؤں والے سونے کے لئے لیٹ گئے تھے۔ لڑکے نے دیکھا کہ گاؤں میں تو نیند کا وقت آگیا ہے مگر عبادت گاہ میں روشنی ہورہی ہے جو لوگ یہ کہانی سناتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بھتنا آسیب زدہ مقام پر چراغ جلا لیتا تھا تاکہ بھولے بھٹکے مسافر دھوکا کھا کر وہاں پناہ لینے اور رات گزارنے کیلئے آجائیں۔ لڑکا فوراً عبادت گاہ کی طرف چل پڑا اور وہاں پہنچ کر دروازے پر دستک دینے لگا اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔ نہ کوئی اندر سے نکلا۔ لڑکے نے دروازے کو دھکا دے کر دیکھا۔ اسے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ دروازہ اندر سے بند نہیں تھا۔ وہ اندر چلا گیا۔ اس نے دیکھا کہ چراغ جل رہا ہے اور وہاں کوئی نہیں ہے۔
 لڑکے کو خیال ہوا کہ کوئی نہ کوئی راہب جلد ہی آجائے گا اس لئے وہ وہاں بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا۔ پھر اسے احساس ہوا کہ عبادت گاہ میں ہر چیز خاک دھول سے اٹ رہی ہے اور چاروں طرف مکڑی کے جالے لٹک رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر اس نے سوچا کہ وہاں کے راہبوں کو ایک شاگرد کی واقعی ضرورت ہے جو ہر چیز کو صاف ستھری رکھ سکے۔ یہ دیکھ کر اس نے سوچا کہ ان لوگوں نے بھلا اس عبادت گاہ کو اس قدر خستہ حال کیوں رکھا ہوا ہے؟ اس نے دیکھا کہ وہاں پردے اور دیواریں موجود ہیں اور وہ یہ دیکھ کر خوش ہوا کہ یہ خالی جگہیں بلیاں بنانے کے لئے خوب ہیں۔ حالانکہ وہ تھکا ماندہ تھا مگر خالی جگہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر وہاں سے قلم دان نکالا اور روشنائی میں قلم ڈبو کر بلیوں کی تصویریں بنانے لگا۔
 اس نے در و دیوار پر بہت سی بلیاں بنائیں اور خالی جگہوں کو بلیوں کی تصویروں سے بھر دیا۔ پھر اسے نیند آنے لگی۔ گہری نیند۔ وہ وہیں دیوار کے پاس پڑ کر سونے کو تھا کہ اچانک اسے اپنے استاد کے الفاظ یاد آئے: ’’رات کے وقت بڑی جگہوں سے بچ کر رہنا، چھوٹی جگہوں پر رہنا۔‘‘
 عبادت گاہ بہت بڑی تھی۔ وہ وہاں اکیلا تھا اور جب اس نے اس بات پر دھیان دیا.... حالانکہ یہ بات ابھی اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی.... تو زندگی میں پہلی دفعہ اسے ڈر معلوم ہوا۔ اس نے ارادہ کیا کہ کوئی چھوٹی سی جگہ تلاش کرکے وہیں سو رہے گا۔ اس نے تلاش کیا تو ایک الماری ملی جس کے پٹ اندر سے بند ہو جاتے تھے۔ وہ اسکے اندر گھس کر لیٹ گیا۔ پٹ اندر سے بند کر لئے اور سو گیا۔
 رات بیت چلی تھی اور بہت وقت ہوگیا تھا کہ بھیانک شور سے اس کی آنکھ کھل گئی.... ایسی آوازیں آرہی تھیں کہ جیسے کوئی لڑ رہا ہو، چیخ رہا ہو، شور اس قدر ہولناک تھا کہ اس کی ہمت بھی نہ ہوئی کہ الماری کی دراز میں سے جھانک کر دیکھ لے۔ وہ وہیں ساکت پڑا رہا، ڈر کے مارے سانس بھی روک لیا۔
 عبادت گاہ میں جو چراغ جل رہا تھا، ایک دم سے بجھ گیا۔ اندھیرے میں آوازیں اور بھی خوفناک معلوم ہورہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ رگوں میں لہو جم جائیگا۔ عبادت گاہ ان آوازوں سے تھرتھراتی ہوئی معلوم ہورہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ آسمان ہل رہا ہے۔ زمین کانپ رہی ہے۔ وہ الماری کے اندر دبکا پڑا رہا۔ شور تھم گیا اور چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ ایسا سناٹا جو شور سے بھی زیادہ ڈراؤنا تھا۔ وہ اب بھی الماری کے اندر چپ چاپ بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور الماری کی درازوں میں سے سورج کی روشنی چھن چھن کر آنے لگی۔
 تب وہ اپنی پناہ گاہ سے باہر آیا اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ سب سے پہلی چیز جو اسے نظر آئی وہ یہ تھی کہ عبادت گاہ کے سارے فرش پر خون ہی خون ہے اور پھر اس نے دیکھا کہ خون میں لت پت، ایک دیو قامت چوہا.... بھتنا چوہا.... وہاں پڑا ہوا ہے جو قد میں گائے سے بھی بڑا ہے۔
 مگر اس بھتنے کو کس نے مارا؟ وہاں دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ نہ آدمی نہ جانور۔ پھر اس کی نظر پڑی کہ رات کو اس نے دیوار پر جو بلیاں بنائی تھیں ان کے منہ کو خون لگا ہوا ہے۔ تب اسے اندازہ ہوا کہ اس نے جو بلیاں بنائی تھیں انہوں نے اس بھتنے کو مارا تھا اور تبھی اسے اندازہ ہوا کہ اسکے استاد نے اس سے کیوں کہا تھا: ’’رات کے وقت بڑی جگہوں سے بچ کر رہنا، چھوٹی جگہوں پر رہنا۔‘‘
 عبادت گاہ کی اس رات کے بعد وہ لڑکا بڑا ہو کر بڑا مشہور مصور بن گیا۔ اس کی بنائی ہوئی بلیاں اب بھی جاپان آنے والے سیاحوں کو دکھائی جاتی ہیں۔
(ماخوذ: پیام تعلیم، ۲۰۰۷ء)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK