Inquilab Logo

تین کچھوے

Updated: March 25, 2023, 11:31 AM IST | Athar Parvez | Mumbai

تین کچھوے پانی میں رہتے رہتے تھک گئے۔ انہوں نے پہاڑوں کی سیر کرنے کے بارے میں سوچا۔ تینوں سفر کے لئے تیار ہوگئے۔ چونکہ تینوں کچھوے مستقل مزاج تھے اس لئے پہاڑ تک پہنچ گئے مگر

photo;INN
تصویر :آئی این این

ایک مرتبہ تین کچھوے پانی میں رہتے رہتے تھک گئے۔ انہوں نے سوچا کہ پہاڑوں کی سیر کرنا چاہئے۔ جہاں دیوتا رہتے ہیں۔ جہاں ہر وقت شانتی اور سناٹا رہتا ہے۔ جہاں سمندر جیسے طوفان نہیں آتے۔ یہ سوچنا تھا کہ وہ تینوں کچھوے پہاڑ کی سیر کے لئے نکل پڑے۔ انہوں نے اپنے ساتھ اپنے کھانے کا بہت سا سامان لیا۔ ان کا سفر بہت لمبا تھا۔ کیونکہ سمندر سے پہاڑ کا فاصلہ سیکڑوں میل کا تھا۔ پھر یہ کہ کچھوے ذرا رینگ رینگ کر بھی تو چلتے ہیں۔ مگر یہ تو آپ جانتے ہیں کہ کچھوے بڑے مستقل مزاج ہوتے ہیں۔ آپ نے سنا ہوگا کہ ایک بار ایک کچھوے نے اپنی مستقل مزاجی سے ایک خرگوش کو دوڑ میں ہرا دیا تھا۔ اور لوگوں کو یہ سبق دیا تھا کہ آدمی بھی چاہے تو مستقل مزاجی سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ یہ تینوں ہی کچھوے پہاڑ کی طرف چل پڑے۔ چلتے رہے۔ چلتے رہے۔ راستہ دور تھا، اور ہر طرف جھاڑ جھنکاڑ۔ لیکن وہ کچھوے بھی دُھن کے پکے تھے۔ وہ ہر تکلیف کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے۔ بالآخر ان کو پہاڑ دکھائی دیئے۔ جن کی چوٹی برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ان کو یہاں پہنچتے پہنچتے بیسیوں سال گزر گئے تھے۔ اتنے دن کے بعد جو انہیں منزل دکھائی دی تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ انہوں نے پہاڑ کے دامن میں ایک بہت اچھی جگہ پسند کی اور سوچا کہ یہاں کچھ دن آرام کریں۔ اس شانتی کے استھان کا کچھ مزا لوٹیں۔ انہیں یہ جگہ بہت پسند آئی۔ ہوا بھی ہلکے ہلکے چل رہی تھی۔ یوں تو سردی کا زمانہ تھا۔ لیکن کچھوے کی کھال اتنی موٹی ہوتی اور اتنی سخت ہوتی ہے کہ فولاد ہی اس کا مقابلہ کرسکتا ہے اس لئے اس میں سردی کا کیا اثر ہوتا۔ برفیلی ہوائیں آتیں تو کچھوے اپنا منہ اپنی موٹی فولاد جیسی کھال میں چھپا لیتے۔ اور ان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ ہوا میں ٹھنڈک تھی۔ ان کو یہاں پہاڑ کے دامن میں بہت اچھا لگا۔ اور ان کو اس بات پر حیرت ہوئی کہ آدمی بھی کیسا مورکھ ہے کہ اتنی اچھی جگہ چھوڑ کر سمندروں میں گھومتا پھرتا ہے۔ ان کو بہت زور کی بھوک لگی۔ انہوں نے سوچا کہ کھانا کھانا چاہئے۔ یہ سوچ کر انہوں نے اپنا کھانا نکالا۔ اور بہت سے بڑے بڑے پتّے اکٹھے کئے۔ اور پھر بڑے سلیقے سے ان پتّوں پر اپنا کھانا نکالا۔ لیکن جب کھانا کھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا اور ان کو خیال آیا کہ یہاں پر تو پانی کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ ہر طرف برف ہی برف ہے۔ اب کھانے کے بعد پانی کیسے پئیں گے۔ پھر اگر پاس پڑوس میں پانی ملا تو پتا نہیں کیسا ہو۔ ان کی عادت سمندر کا پانی پینے کی تھی۔ اس سے ہی ان کا کھانا ہضم ہوتا تھا۔ تینوں کچھوے سوچ میں پڑ گئے۔ ان کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کیا جائے۔ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ آخر ایک دوسرے سے کہنے لگے۔
 بڑا کچھوا بولا، ’’منجھلے کچھوے تم جاؤ اور سمندر سے جا کر پانی لے آؤ۔ پھر اطمینان سے بیٹھ کر کھائیں گے۔‘‘
 منجھلا کچھوا بولا، ’’میری تو رائے یہ ہے کہ چھوٹے کچھوے کو جانا چاہئے وہ اس وقت بھی خاصا چست چالاک معلوم ہوتا ہے میں تو اس وقت بہت تھک گیا ہوں۔‘‘
 چھوٹے کچھوے نے بہت آنا کانی کی مگر وہ دونوں اس کے پیچھے پڑ گئے اور اس کی نہ چلی۔ آخر مجبوراً چھوٹے کچھوے کو ان کی بات ماننی پڑی۔ پر وہ بولا، ’’مَیں چلا تو جاؤں مگر مجھے یقین ہے کہ میرے جانے کے بعد تم میرا انتظار کئے بغیر کھانا چٹ کر جاؤ گے۔ اور جب مَیں آؤں گا تو اس وقت مجھے کھانا بھی ملے گا تو وہ بھی جھوٹا ہوگا۔‘‘
 دونوں کچھوؤں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
 چھوٹا کچھوا سنجیدگی سے بولا، ’’جی ہاں ضرور کرو گے۔ مجھے تو یقین ہے کہ تم ہرگز ہرگز میرا انتظار نہ کرو گے۔‘‘
 مگر دونوں کچھوؤں نے بڑی خوشامد کی اور اس سے خوب اچھی طرح وعدہ کر لیا کہ جب تک تم نہ آؤ گے ہم کھانے میں ہاتھ نہ ڈالیں گے۔
 آخر مجبوراً چھوٹا کچھوا چلا گیا۔ اب باقی دونوں کچھوے بیٹھے انتظار کرتے رہے۔ انتظار کرتے کرتے مہینے گزر گئے۔ سال گزر گئے۔ دس سال گزرے۔ بیس سال گزرے۔ تیس سال گزرے۔ چالیس سال گزرے۔ پچاس سال گزرے۔ یہاں تک کہ سو سال گزرے۔ سو سال گزر گئے مگر چھوٹا کچھوا نہ آنا تھا نہ آیا۔ اب تو ان دونوں کا مارے بھوک کے برا حال ہوگیا۔ ان کو یقین ہوگیا کہ ضرور کوئی نہ کوئی حادثہ پیش آیا ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ چھوٹا کچھوا پانی لے کر نہ آجاتا۔ انہوں نے سوچا کہ اب زیادہ انتظار کرنے سے کوئی فائدہ نہیں اگر اس کو آنا ہوتا تو اب تک آجاتا۔
 آخر بھوک سے بے قابو ہو کر ان دونوں کچھوے نے کھانے میں ہاتھ ڈالا۔ ابھی انہوں نے کھانا کھایا بھی نہ تھا کہ چھوٹا کچھوا چٹان کے پیچھے سے کودتا ہوا آیا، اور بولا، ’’مَیں جانتا تھا کہ تم دونوں ہرگز ہرگز میرا انتظار نہ کرو گے۔ مَیں نے پہلے ہی کہا تھا۔ اسی لئے تو مَیں گیا نہیں تھا۔ یہیں بیٹھا ہوا دیکھ رہا تھا۔‘‘
 دونوں کچھوے بھونچکا رہ گئے۔ لیکن کہتے تو کیا کہتے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK