EPAPER
Updated: June 12, 2020, 8:10 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسے فیس بک اور وہاٹس ایپ پر ایک خبر گردش کر رہی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اٹلی کے ڈاکٹر اور سائنسداں وہاں کورونا وائرس (کووڈ۔۱۹) سے فوت ہونے والے افراد کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں ، اس دوران انہیں معلوم ہوا کہ کووڈ۔۱۹؍ کوئی وائرس نہیں بلکہ ایک بیکٹیریا ہے جس کے سبب انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسے فیس بک اور وہاٹس ایپ پر ایک خبر گردش کر رہی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اٹلی کے ڈاکٹر اور سائنسداں وہاں کورونا وائرس (کووڈ۔۱۹) سے فوت ہونے والے افراد کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں ، اس دوران انہیں معلوم ہوا کہ کووڈ۔۱۹؍ کوئی وائرس نہیں بلکہ ایک بیکٹیریا ہے جس کے سبب انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہ بیکٹیریا جسم میں ’’بلڈ کلاٹ‘‘ (خون کا لوتھڑا) بناتا ہے جو انسانی دل اور پھیپھڑوں میں جمع ہونے لگتے ہیں ، اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب آدمی کو سانس لینے میں تکلیف ہونے لگتی ہے اور بالآخر وہ فوت ہوجاتا ہے۔
چند گھنٹوں بعد ہی اس خبر کو ’’فیک‘‘ (جعلی) قرار دیا گیا۔ اٹلی کے حکام سے جب اس تعلق سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ یہ خبر جعلی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جب یہ خبر گردش کررہی تھی تو بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ آخر وائرس اور بیکٹیریا میں کیا فرق ہوتا ہے؟ آج تعلیمی انقلاب کے قارئین کو اسی تعلق سے بتایا جائے گا کہ وائرس اور بیکٹیریا میں کیا فرق ہے۔
وائرس
وائرس لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’زہر‘‘ ہے۔ یہ ایک زہریلا جاندار ہوتا ہے جو خود سے زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا بلکہ زندہ خلیوں کے اندر پہنچ کر پھلتا پھولتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی چھوٹا طفیلی ذرہ ہے۔ وائرس حیاتی اجسام میں عدویئت (انفیکشن) پیدا کرتا ہے۔ وائرس آزاد زندگی قائم نہیں رکھـ سکتا اس لئے اسے پیراسائٹ کہتے ہیں ۔ یہ کسی دوسرے جاندارخلیہ کا ڈی این اے یا آراین اے استعمال کرکے ہی اپنی تکرار، یعنی ریپلی کیشن کرسکتا ہے۔ ایک میزبان خلیے سے دوسرے میں منتقل ہونے والا وائرس قریبی رابطوں ، آلودہ کھانوں ، پانی کے ذریعے یا پھر ہوا میں معلق بوندوں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ وائرس ایک مخلوق سے دوسری میں منتقل ہو۔یہ پودوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ بعض اوقات فصلوں کی مکمل تباہی کا سبب بنتا ہے۔
وائرس سے چیچک، خسرہ، پولیو، ریبیز، ایچ آئی وی اور کووڈ۔۱۹؍ جیسی بیماریاں ہوتی ہیں ۔ اینٹی بائیوٹکس کا وائرس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مخصوص اینٹی وائرل ادویات یا کوئی ویکسین ہی اس سے لڑ سکتی ہے۔
بیکٹیریا
بیکٹیریا نہایت چھوٹے جاندار کا ایک گروہ ہوتا ہے۔ عموماً یہ جاندار چند مائیکرومیٹر لمبے ہوتے ہیں اور ان کی مختلف اشکال ہو سکتی ہیں ۔ بیکٹیریا کرۂ ارض میں ہر جگہ موجود ہیں ۔ مٹی میں ، گرم پانی میں ، مادوں میں ، حیوانات اور نباتات میں بھی یہ پائے جاتے ہیں ۔ ایک گرام مٹی میں تقریباً ۴؍ کروڑ بیکٹیریا پائے جاتے ہیں ۔ ایک ملی میٹر میٹھے پانی میں کم از کم ۱۰؍ لاکھ بیکٹیریا ہوتے ہیں ۔ بیکٹیریا غذائی مواد کو دوبارہ قابلِ استعمال بناتے ہیں ۔ مٹی میں نائٹروجن کی موجودگی انہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ انسانی جسم میں خلیوں کی کل مقدار سے دس گنا زیادہ بیکٹیریا موجود ہیں ۔ ان کی زیادہ تر تعداد ہماری کھال اور نظامِ ہضم میں رہتی ہے۔ ان کی اکثریت ہمارے لئے غیر مضر اور ہماری قوتِ مدافعت کیلئے فائدہ مند ہے۔ تاہم، ان کی چند اقسام نقصاندہ ہو سکتی ہیں جو مختلف وبائی اور چھوت کے امراض پیدا کرتی ہیں ۔ بیکٹیریا سے طاعون، کالی کھانسی،تپ دق، ہیضہ، ڈائریا، جذام ،ٹائیفائیڈ جیسی بیماریاں ہوتی ہیں ۔
سانس سے متعلقہ بیماریاں پیدا کرنے والے بیکٹیریا عموماً مہلک بیماریاں پیدا کرتے ہیں ۔ ٹی بی بیکٹیریا ہی کی ایک قسم ہے جس سے ہر سال ۲۲؍ لاکھ افراد مرجاتے ہیں ۔ صنعتی اعتبار سے بیکٹیریا کو گندے پانی کی صفائی، دہی اور پنیر بنانے اور بائیو ٹیکنالوجی میں استعمال کیا جاتا ہے اور ان کی مدد سے اینٹی بائیوٹکس اور دیگر کیمیائی مادے بنائے جاتے ہیں ۔
وائرس اور بیکٹیریا میں کیا فرق ہے؟
بیکٹیریا اور وائرس بہت ہی چھوٹے حیاتیات ہیں جو انسانوں میں مرض پیدا کرسکتے ہیں ۔
بیکٹیریا عام طور پر وائرس سے کہیں زیادہ بڑے ہوتے ہیں اور یہ ایک ہلکی خردبین کی مدد دیکھے جا سکتے ہیں ۔ وائرس بیکٹیریا سے تقریبا ایک ہزار گنا چھوٹے ہوتے ہیں اور الیکٹرون خردبین میں نظر آتے ہیں ۔
بیکٹیریا اور وائرس دونوں ہی بیماری پھیلانے کی سب سے اہم وجہ ہیں ۔
جسامت کے اعتبار سے بیکٹیریا بڑے ہوتے ہیں لیکن وائرس زیادہ خطرناک ہوتے ہیں ۔
بیکٹیریا ہمارے لئے مدد گار بھی ثابت ہوتے ہیں لیکن وائرس ہمارے لئے ہمیشہ نقصان دہ ہوتے ہیں ۔
وائرس زندہ اور مردہ کے بیچ شمار کئے جاتے ہیں ۔ وہ اپنے سے کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ وہ خود کچھ نہیں کرتے بس بے حس و حرکت پڑے رہتے ہیں جبکہ بیکٹیریا کھانا جذب بھی کرتے ہیں اور خود کو بڑھاتے بھی ہیں ۔
وائرس تب تک بےجان پڑا رہتا ہے جب تک زندہ خلیات اس کے رابطے میں نہیں آ جاتے جیسے ہی اُسے کوئی ’’ہوسٹ‘‘ یعنی میزبان مل جاتا ہے تو یہ بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔
وائرس اور بیکٹیریا ہم پر کیسے حملہ آور ہوتے ہیں ؟
اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھتے ہیں : اینٹوں کی ایک دیوار میں اینٹوں کے درمیان سیمنٹ وغیرہ کامسالہ بھرا جاتا ہے۔ یہ اینٹ، ہمارے خلیات ہیں اور مسالہ ہر خلیے کے درمیان خالی جگہ۔ بیکٹیریا کا حملہ اُس مسالے یعنی خلیات کے درمیان خالی جگہ پر ہوتا ہے۔ نقصاندہ بیکٹیریا ہمیں بیمار کردیتے ہیں تو ڈاکٹر اینٹی بایوٹکس کے ذریعے ہمیں دوبارہ تندرست کردیتے ہیں ۔ خیال رہے کہ بیکٹیریا سے نجات پانے کیلئے اینٹی بایوٹکس لینے پڑتے ہیں ۔
وائرس زندہ خلیات کے رابطے میں آتا ہے تو تیزی سے فعال ہوجاتا ہے۔ یہ سیدھا خلیات کے اندر یعنی اینٹ میں داخل ہوجاتا ہے۔ اب اگر ہم اسے مارنے کیلئے اینٹ پر وار کریں گے تو اینٹ ٹوٹ جائے گی اور دیوار گرجائے گی۔ اسی طرح اگر ہم خلیے پر وار کریں گے تو ہمارے جسم کوشدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس لئے اس سے لڑنے کیلئے ویکسین کی ضرورت پڑتی ہے یا پھر ہماری قوت مدافعت کے ذریعے ہم وائرس کو شکست دے سکتے ہیں ۔ ہمارا مدافعتی نظام وائرس کے حملے کے ساتھ ہی حرکت میں آجاتا ہے اور اپنے خلیات کی حفاظت کرنے لگتا ہے۔ ہمارے جسم میں اینٹی باڈیز تشکیل پاتے ہیں اور پوری طاقت سے وائرس کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،لیکن یہ تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب ہمارا مدافعتی نظام مضبوط ہو۔ اس لئے کورونا وائرس یا کسی بھی قسم کے وائرس سے لڑنے کیلئے ہمارا مدافعتی نظام مضبوط ہونا ضروری ہے۔