Inquilab Logo

ہم نے عید منائی

Updated: July 09, 2022, 11:11 AM IST | Mohammad Kamran | Mumbai

اقبال اور سلیم میں گہری دوستی تھی۔ امتحان ختم ہونے کے بعد سلیم کے والد نے عیدالاضحی منانے کیلئے گاؤں جانے کا سوچا۔ سلیم نے اپنے دوست اقبال کو بھی ساتھ چلنے کیلئے راضی کر لیا۔ وہاں انہوں نے سلیم کے دادا جی سے ایک کہانی سنی۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

اقبال اور سلیم دونوں گہرے دوست تھے۔ وہ پڑھائی میں بھی بہت اچھے تھے اور ہر کام ایک دوسرے کی مدد سے کیا کرتے تھے۔ دونوں کے والدین ان کی دوستی سے بہت خوش تھے۔ جب دونوں امتحانات سے فارغ ہوگئے تو سلیم کے والد نے اس سال عیدالاضحی گاؤں میں منانے کا سوچا اور سلیم سے گاؤں چلنے کے لئے کہا۔ سلیم خوشی خوشی راضی ہوگیا۔ سلیم نے اپنے گہرے دوست اقبال کو بھی گاؤں چلنے کی دعوت دی اور اپنے والدین سے اجازت لے کر جانے کے لئے تیار ہوگیا۔ اگلی صبح روانگی تھی۔ دونوں نے سفر کے دوران آنے والے ہر مقام کا پورا لطف اٹھایا اور تین چار گھنٹوں کے سفر کے بعد وہ گاؤں پہنچ گئے۔ سلیم نے گاؤں پہنچ کر اقبال کو اپنے تمام رشتے داروں سے ملوایا اور گاؤں کی مختلف جگہوں کی سیر بھی کروائی۔ اقبال کو پہلی بار گاؤں کی فضا میں سیر کرنے میں مزہ آ رہا تھا۔ دن بھر موج مستی کرنے کے بعد وہ دونوں گھر آگئے جہاں سلیم نے اقبال کو اپنے دادا جان سے ملایا۔
 سلیم نے بتایا کہ مَیں جب بھی یہاں آتا ہوں تو دادا جان سے ہر دن کوئی نہ کوئی اسلامی واقعہ ضرور سنتا ہوں جس سے چھٹیوں میں نہ صرف سیر و تفریح ہوتی ہے بلکہ میری معلومات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ کہہ کر سلیم نے حسب ِ معمول دادا سے کوئی اسلامی واقعہ سنانے کی فرمائش کی۔ دو دن بعد بقر عید تھی اس لئے دادا جان نے عیدالاضحی کا عظیم واقعہ تفصیل سے بتانا شروع کیا کہ پیارے بچو! عیدالاضحی، عیدالفطر کے دو ماہ دس دن بعد آتی ہے۔ اس سے ہماری تاریخ کا ایک ایسا واقعہ وابستہ ہے جو اطاعت کی اعلیٰ مثال پیش کرتا اور یہ واقعہ سننے سے مسلمان کا ایمان پختہ ہو جاتا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ جو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے، ان کو ایک خواب آیا کہ اپنی قیمتی چیز کو خدا کی راہ میں قربان کر دو۔ اونٹ اس زمانے میں قیمتی چیز تصور کئے جاتے تھے، لہٰذا حضرت ابراہیمؑ نے بہت سارے اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کر دیئے۔ دوسرے دن پھر یہی خواب آیا کہ اپنی سب سے قیمتی چیز خدا کی راہ میں قربان کر دو تو پھر آپ نے بہت سارا مال و متاع اللہ کی راہ میں قربان کر دیا لیکن پھر وہی خواب آیا تو آپ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ مَیں نے اپنا مال و متاع قربان کر دیا لیکن اب بھی مزید قربانی مطلوب ہے اور سب سے زیادہ قیمتی اور پیاری چیز میرے پاس سوائے میرے لخت جگر حضرت اسماعیلؑ کے اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ اس خواب کا ذکر آپ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ سے کیا۔ وہ بھی پیغمبر تھے، کہنے لگے ابا جان خدا کے حکم اور آپ کی خواہش کے لئے میری جان بھی حاضر ہے، آپ اس حکم کی تعمیل میں تاخیر نہ کریں اور مجھے آپ اس امتحان میں ثابت قدم پائیں گے۔ حضرت ابراہیمؑ اپنے پیارے بیٹے کی قربانی کرنے کے لئے چلے۔ راستے میں شیطان مردود نے حضرت اسماعیلؑ کے دل میں وسوسے ڈالنے کی کوشش کی لیکن آپ ایک نبی تھے اور وہ اس کی باتوں میں نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ کو صرف اپنے پیغمبر حضرت ابراہیمؑ کا امتحان مقصود تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ چھری چلنے سے پہلے حضرت اسماعیلؑ کی جگہ دنبہ پہنچ جائے۔ حضرت جبرئیلؑ نے حکم کی اسی طرح تعمیل کی اور ان کی جگہ دنبہ ذبح ہوگیا۔ یہ واقعہ فرمانبرداری اور اطاعت کا ایک ایسا منظر پیش کرتا ہے جس کی مثال تاریخ عالم نہ اب تک پیش کرسکی ہے اور نہ کرسکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی اس عظیم قربانی کی یاد تازہ کرنے کے لئے مسلمانوں پر عیدالاضحی کے موقع پر قربانی دینا سنت ابراہیمؑ قرار دیا گیا ہے اس لئے اس عید کو عید قربان بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اس عمل کو ہر سال دہرانے کا حکم صادر فرمایا، لہٰذا ہر صاحب حیثیت مسلمان پر فرض ہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر قربانی دے۔ عید کے پہلے دن سے لے کر تیسرے دن تک قربانی دینا جائز ہے اور پہلے دن افضل قرار دی گئی ہے۔
 سلیم نے پوچھا ’’کیا دنبہ ہی ذبح کرنا جائز ہے یا کوئی اور جانور بھی؟‘‘ دادا جان نے جواب دیا، ’’ویسے تو سب سے افضل قربانی دنبے کی ہے لیکن اسلام میں تمام حلال جانوروں کو ذبح کرنا جائز قرار دیا گیا ہے۔‘‘ دادا جان نے پوچھا ’’بیٹا! ہمیں قربانی سے کیا سبق ملتا ہے؟‘‘ سلیم اور اقبال نے جواب دیا ’’قربانی سے ہمیں اطاعت خداوندی کا سبق ملتا ہے اور قربانی کرنے کے بعد جب اس کا گوشت یتیموں، مسکینوں اور غریبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے تو خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے، اس طرح ضرورتمندوں اور غریبوں کے حقوق کا احساس ہوتا اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تکمیل بھی ہو جاتی ہے۔ سلیم اور اقبال نے اگلے دن سے عید کی تیاریاں شروع کر دیں۔ عید کے دن دونوں نے سب کے ساتھ عیدگاہ میں نماز ادا کی اور جانور کی قربانی کا فریضہ بھی انجام دیا، پھر دونوں نے گوشت کے حصے رشتے داروں، غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کئے۔ سب کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کے بعد وہ خوشی خوشی چھٹیاں منا کر واپس شہر کے لئے روانہ ہوگئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK