Inquilab Logo Happiest Places to Work

جب میں چھتری بھول گیا تھا

Updated: August 20, 2022, 12:51 PM IST | Muhammad Rafi Ansari | Bhiwandi

موسم برسات میںچھتری کے چوری ہونے کے مقابلے میں چھتری گُم ہونے کے واقعات زیادہ پیش آتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کو مصیبت بھی اٹھانا پڑتی ہے۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

جن لوگوں کو بھولنے کی عادت ہے انہیں برسات کے موسم میں ایک نہ ایک دن اپنی چھتری سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ کچھ ایسے بیچارے بھی ہوتے ہیںجنہیں کئی بار ہاتھ دھونے کی نوبت آتی ہے۔ ویسے موسم برسات میںچھتری کے چوری ہونے کے مقابلے میں چھتری گُم ہونے کے واقعات زیادہ پیش آتے ہیں۔ چھتری جو گم ہوجاتی ہے وہ کسی نہ کسی کو ملتی ضرور ہے۔ جس کو ملتی ہے وہ خوش ہوتا ہے یہ سوچ کر کہ ’مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے‘ لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ مفت ہاتھ آنے والی چھتری کا حشر بھی اچھا نہیں ہوتا۔ بسا اوقات وہ جیسے ہاتھ آتی ہے ویسے ہی چلی بھی جاتی ہے۔ چھتریوں کی کئی قسمیں ہیں، چھوٹی، بڑی۔ ہلکی ، بھاری۔ مہنگی، سستی وغیرہ۔ دیکھاگیاہے کہ سستی چھتریاں ایک بار بگڑنے کے بعد مشکل ہی سے ہاتھ آتی ہیں۔ بگڑی چھتری بنوانے میں بڑی قباحت ہے۔ پہلے توچھتری ساز نہیں ملتے۔ قسمت سے مل گئے تو چھتری کی مرمت میں اتنا خرچ ہوجاتا ہے کہ اس میں ایک نئی اور بہتر چھتری خریدی جاسکتی ہے۔ اس لئے دانا کہتے ہیں کہ چھتری خریدنے میں احتیاط برتو۔ قیمتی چھتری بڑی توجہ چاہتی ہے۔ اس لئے لوگ اس کو اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چھتری تھوڑی سی لاپروائی میں اکثر بدل بھی جاتی ہے۔ مہنگی چھتری کے بدلے میں سستی چھتری کا ملنا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اسی لئے پہلے کے لوگ اپنی چھتریوں پر نام لکھوایا کرتے تھے۔ پرانے خوش خط لکھنے والے دیواروں پر اشتہارلکھنے کے علاوہ چھتریوں پر نام لکھنے کا کام بھی کرتے تھے۔ چھتری پر لکھے نام بڑے خوبصورت لگتے تھے۔ یہ نام چھوٹے حرفوں میں اور مختصرہوتے تھے۔ چھتری پر مکمل نام اور پتہ وغیرہ لکھنا ضروری نہیں ہوتا تھا۔ جن چھتریوں پر نام لکھا ہو ان کی حفاظت کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ اگر کوئی ایسی چھتری کو چرانا بھی چاہے تو نام لکھا دیکھ کر اپنے ارادے سے باز آجاتا تھا۔ اس طرح چھتری بغیر کسی کوشش کے محفوظ رہتی تھی۔  پُرانی چھتریوں کی ایک خصوصیت اور بھی تھی۔ ایک چھتری کے سائے میں داداجان، ابّو جان اور پوتے میاں آسانی سے آجاتے تھے۔ چلتے چلتے تینوںموسم کی سختی سے بچے بھی رہتے تھے اور بارش سے لطف اندوز بھی ہو تے جاتے۔ آج کل فولڈنگ یعنی مڑنے والی چھتری کا چلن ہے۔ اس میں بڑی انکساری ہے یہ مڑنے کے علاوہ جھک بھی جاتی ہے۔ اسے چاہے بیگ میں رکھ لو یا جیب میں ٹھونس لو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ نازک مزاجوں اور مصروف لوگوں کی پہلی پسند مانی جاتی ہے۔   ہاں ! تو کہنے کی بات یہ ہے کہ میں ہر سال اپنی چھتری کہیں نہ کہیں بھول بیٹھتا ہوں۔ میں نے پہلے پہل چھتری کب بھولی تھی مجھے ابھی تک یاد ہے۔ جولائی کا مہینہ تھا۔ میں صبح کالج جانے کے لئے بڑی عجلت میں گھر سے نکل پڑا۔ مجھے بس اسٹیشن جانا تھا۔ گھر سے اسٹیشن پہنچنے میں کم از کم پندرہ منٹ لگتے تھے۔ ابھی بمشکل پانچ منٹ کا راستہ ہی طے کیا تھا کہ موسم اچانک بدل گیا۔ میں چھتری بھول آیا تھا یہ سوچ کر دل دھک سے ہوگیا۔ ایک بار سوچا یہیں سے لوٹ چلوں ، پھر خیال آیا اور لیٹ ہو جاؤں گا۔ چنانچہ آگے بڑھنے ہی کو غنیمت جانا۔ برسات تیز ہو نے لگی۔ چار و ناچار ایک خستہ حال مکان کی چھت کے نیچے کھڑا ہوگیا۔ مگر یہ کیا وہاں تو آناً فاناً بن بادل برسات ہونے لگی۔ مکان کی چھت ٹپکنے لگی۔ اولتی کا پانی مجھے برسات کی بوندوں سے زیادہ بڑا معلوم ہوا۔ خیربستہ سر پر اُٹھا کر وہاں سے بھاگا۔ بھاگتے بھاگتے میں نے دیکھا کہ چھتری تانے لوگ بڑے آرام سے اپنی اپنی منزل کی سمت رواں دواں ہیں۔ سوائے میرے ہر شئے پُرسکون اورہر چھوٹا بڑا مطمئن اور بے فکر نظر آیا۔ مجھے چھتری بھولنے کا واقعی رنج ہوا..... اتنے میں میری نظر ایک صاحب پر پڑی۔ وہ بڑے آرام سے چھتری تھامے چلے جارہے تھے۔ میں بے اختیار ان کی چھتری میں گھس گیا۔ انہوں نے کچھ کہا نہیں صرف غور سے میری طرف دیکھا۔ مجھے ایسا لگا کہ شاید وہ میرے اس طرح چھتری میں داخل ہونے سے خوش نہیں ہیں۔ میں نے نوٹ کیا کہ وہ مجھے برسات سے بچانے کی کوئی شریفانہ کوشش نہیں کر رہے تھے بلکہ چھتری کو اپنی ہی طرف جھکائے چلے جا رہے تھے۔ مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی مگر چپ رہا کیونکہ غلطی اپنی تھی۔ پھرمیں جھٹ سے صاحب کی چھتری سے ان کا شکریہ ادا کئے بغیر باہر نکل گیا۔  اب میں بازار کے بیچوں بیچ سے بھیگتا گزر رہا تھا۔ مجھے دور سے کریم انکل چھتری ساز کی دکان نظر آئی۔ میں نے دیکھا وہ چھتری پر سر جھکائے مرمت کا کام کر رہے تھے۔ میں جلدی جلدی ان کی دکان کے قریب پہنچا۔ سلام کیا۔ مجھے دیکھے بغیر بولے ’’کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’کریم انکل مدد چاہئے۔‘‘ پوچھا ’’کیسی مدد؟‘‘ ’’مجھے کالج جاناہے ایک چھتری دے دیجئے۔‘‘ بولے’’ اچھا یہ بات ہے۔ دیکھو ! میرے پاس ایک ٹوٹی چھتری ہے۔ چاہو تو اسے لے جاؤ واپسی میں لوٹا دینا، مگر خیال رہے چھتری کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ‘‘ میں نے کہا ’’جی بہت اچھا‘‘ اور چھتری لے کر خوشی خوشی آگے بڑھ گیا.... اب اس چھتری کا حال سنو، وہ چھتری برائے نام تھی۔ مجھے اسے کھولنے میں بڑی دقت ہوئی۔ کھلی تو ادھ کھلی معلوم ہو رہی تھی۔ معمولی ہوا سے ڈگمگانے لگتی تھی۔ چند قدم چلنے پر اس نے مجھے تر بتر کر دیا۔ عاجز آکر میں نے اسے بند کردیا۔ دوستو! وہ ایسی بند ہوئی کہ آخر تک نہ کھلی.... کالج سے لوٹ کر میں بند چھتری لئے کریم انکل کی دکان پر پہنچا۔ مجھے دیکھ کر مسکرائے ، لیکن کچھ پوچھنے سے پہلے کہنے لگے ’’میاں! جس طرح تم نے میری (ٹوٹی پھوٹی) چھتری کا خیال رکھا اگر اپنی چھتری کا بھی رکھا ہوتا تو یہ حالت نہ ہوتی۔ آئندہ احتیاط کرنا۔‘‘ دوستو! کریم انکل کی بات کا آپ بھی خیال رکھنا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK