رسکن بونڈ کی مشہور مختصرکہانی The Boy Who Broke The Bank کا اُردو ترجمہ
EPAPER
Updated: March 10, 2023, 4:41 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
رسکن بونڈ کی مشہور مختصرکہانی The Boy Who Broke The Bank کا اُردو ترجمہ
سیٹھ گووند رام کی ملکیت والے ’’پیپل نگر بینک‘‘ کی سیڑھیوں پر جھاڑو مارتے ہوئے ناتھو بڑبڑا رہا تھا۔ ہاتھ میں دبے چھوٹے جھاڑو کو وہ عجلت اور لاپروائی سے سیڑھیوں پر پھیر رہا تھا کہ گردو غبار اس کے سر پر بادلوں کی طرح اڑتے اور پھر سے اپنی جگہ پر جم جاتے۔ لیکن ناتھو کو کوئی پروا نہیں تھی۔ جب ناتھو جھاڑو کوڑے دان میں جھاڑنے لگا تو دھوبی کا بیٹا سیتارام وہاں گزرا۔ سیتارام کپڑوں کی ڈیلیوری کے راؤنڈ پر تھا۔ اس کے سر پر استری کئے ہوئے کپڑوں کا بنڈل تھا۔
’’اس طرح صفائی مت کرو، ناتھو! کیا تم ناراض ہو؟کیا انہوں نے اب بھی تمہیں ماہانہ دو روپے اضافی دینے سے انکار کردیا ہے؟‘‘ سیتارام نے پوچھا۔
’’میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ جھاڑو دینے والے لڑکے نے شکایت کی۔ ’’مجھے ابھی اپنی ماہانہ تنخواہ بھی نہیں ملی ہے۔ اور آج مہینے کی بیس تاریخ ہے۔ کون یقین کرے گا کہ ایک بینک نے ایک غریب آدمی کی تنخواہ روک لی ہے؟ جیسے ہی مجھے میری تنخواہ ملے گی۔ میں یہاں سے نو دو گیارہ ہوجاؤں گا۔ میں یہاں کام ہی چھوڑ دوں گا۔‘‘ ناتھو نے اپنی بات پر زور دینے اور اپنے اعتماد میں اضافہ کرنے کیلئے جھاڑو کو کئی بار کوڑے دان پر مارا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں تمہارے لئے دعا کروں گا۔‘‘ سیتارام نے کہا۔ ’’میں تمہارے لئے کوئی مناسب نوکری بھی دیکھوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ سڑک پر ننگے پاؤں چلنے لگا۔ کپڑوں کے بڑے بنڈل سے اس کا سر اور کندھے تک چھپ گئے تھے۔ جب وہ کپڑوں کی ڈیلیوری دیتے ہوئے چوتھے گھر پہنچا تو گھر کی مالکن کو کہتے سنا کہ اسے ایک جھاڑو دینے والے کی ضرورت ہے۔
اپنے بنڈل کو باندھتے ہوئے اس نے کہا ’’ `میں ایک جھاڑو دینے والے لڑکے کو جانتا ہوں۔ وہ کام کی تلاش میں ہے۔ اگلے مہینے سے آپ کے ہاں آسکتا ہے۔ فی الحال ایک بینک میں کام کررہا ہے لیکن وہ اسے اس کی تنخواہ نہیں دے رہے ہیں، اور وہ بینک کی ملازمت چھوڑنا چاہتا ہے۔‘‘
’’ اچھا !‘‘ مسز سریواستو نے کہا۔ ’’اچھا، اس سے کہو کہ وہ کل مجھ سے آکر ملے۔‘‘
سیتارام کیلئے یہ خیال ہی خوش کردینے والا تھا کہ بیک وقت اس کے دو کام ہوگئے۔ دوست کیلئے نوکری بھی تلاش کرلی اور گاہک کی بھی مدد ہوگئی۔ وہ اپنا بنڈل سر پر ڈالے وہاں سے روانہ ہوگیا۔
مسز سریواستو کو کچھ شاپنگ کرنی تھی۔ اس نے آیا کو بچے کی دیکھ بھال کی ہدایات دیں اور باورچی سے کہا کہ وہ دوپہر کے کھانے میں دیر نہ کرے۔ اس کے بعد وہ کپڑوں کی دکانوں کا اپنا معمول کا دورہ کرنے کیلئے پیپل نگر بازار کیلئےروانہ ہوئیں۔
بازار کے ایک سرے پر املی کا ایک بڑا سایہ دار درخت تھا، اور یہیں مسز سریواستو کی دوست مسز بھوشن اپنے آپ کو گرمی سے محفوظ رکھنے کیلئے ایک بڑے رومال سے اپنے آپ کو پنکھا کر رہی تھیں۔ انہوں نے گرمی کی شکایت کی جو یقینی طور پر پیپل نگر کی تاریخ کا گرم ترین موسم تھا۔ اس کے بعد انہوں نے مسز سریواستو کو اس کپڑے کا ایک نمونہ دکھایا جو وہ خریدنے جا رہی تھیں۔ اگلے پانچ منٹ تک انہوں نے اس کے شیڈ، ساخت اور ڈیزائن پر تبادلہ خیال کیا۔ اس کے بعد، مسز سریواستو نے کہا، ’’کیا تم جانتی ہو کہ سیٹھ گووند رام کا بینک اپنے ملازمین کو تنخواہ بھی نہیں دے سکتا؟ آج صبح ہی میں نے ان کے جھاڑو دینے والے کی شکایت سنی، جسے ایک ماہ سے زیادہ کی تنخواہ نہیں ملی ہے۔‘‘
اوہ! یہ تو چونکانے والی خبر ہے!‘‘ مسز بھوشن نے تبصرہ کیا۔ ’’اگر وہ جھاڑو دینے والے کو تنخواہ نہیں دے سکتے ہیں تو پھر ان کا حال برا ہوگا۔ اس صورت میں وہ وہاں کے کسی بھی ملازم کو تنخواہ نہیں دے سکیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ مسز سریواستو کو املی کے درخت پاس چھوڑ کر اپنے شوہر کی تلاش میں چلی گئیں، جو کمل کشور کی فوٹو گرافی کی دکان کے سامنے بیٹھا مالک سے بات کر رہا تھا۔
’’تو آپ یہاں ہیں!‘‘ مسز بھوشن نے پکارا، ’’میں آپ کو تقریباً ایک گھنٹے سے ڈھونڈ رہی ہوں، آپ کہاں غائب ہو گئے؟‘‘
’’کہیں نہیں،‘‘ مسٹر بھوشن نے جواب دیا۔ ’’اگر تم ایک ہی دکان پر ٹھہری رہتی تو شاید تم مجھ مل جاتیں۔ لیکن تم ایک دکان سے دوسری دکان پر ایسے منڈلاتی پھرتی ہو، جیسے باغ میں بھنورا۔‘‘
’’اب آپ شروع نہ ہوجائیں۔ ویسے ہی اس گرمی نے برا حال کر رکھا ہے۔ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ پیپل نگر میں کیا ہو رہا ہے، حتیٰ کہ بینک بھی دیوالیہ ہونے والا ہے۔‘‘
’’یہ کیا بات ہوئی؟‘‘کمل کشور نے اچانک اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’کون سا بینک؟! پیپل نگر کا بینک؟ لیکن کیوں؟‘‘
’’ میں نے سنا ہے کہ انہوں نے ملازمین کو تنخواہیں دینا بند کر دی ہیں۔ اب یہ مت کہنا کہ وہاں آپ کا کھاتہ ہے، کشور؟‘‘
’’نہیں، لیکن میرے پڑوسی کا ہے!‘‘ اس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا، اور اس نے نچلے منزلے پر نائی کی دکان کے رکھوالے کو پکارا، ’’دیپ چند! کیا تم نے تازہ خبر سنی؟ پیپل نگر بینک بند ہونے والا ہے، بہتر ہے کہ تم جلد سے جلد اپنا پیسہ وہاں سے نکال لو۔‘‘
دیپ چند جو ایک معمر شخص کے بال تراش رہا تھا، ایسا چونکا کہ اس کا ہاتھ لرز گیا اور گاہک کے داہنے کان میں کٹ لگ گیا۔ گاہک درد اور تکلیف سے چیخا: درد، کٹے ہوئے کان اور تکلیف کی وجہ سے اور اس خوفناک خبر سے بھی جو اس نے ابھی سنی تھی۔ اس کی گردن کا ایک حصہ ابھی تک بغیر مونڈھا ہوا تھا، وہ اسی حالت میں سڑک کے پار ایک تاجر کی دکان کی طرف بڑھا، جہاں ایک ٹیلی فون تھا۔ اس نے سیٹھ گووند رام کا نمبر ڈائل کیا۔ سیٹھ گھر پر نہیں تھے۔ پھر وہ کہاں تھے؟ سیٹھ کشمیر میں چھٹیاں گزار رہے تھے۔ اوہ، کیا ایسا ہے؟ معمر صاحب کو یقین نہ آیا۔
یہ بھی پڑھئے: آخری پتہ (او ہنری)
وہ جلدی سے حجام کی دکان پر واپس گئے اور دیپ چند سے کہا: ’’پرندہ اڑ گیا ہے! سیٹھ گووند رام شہر چھوڑ چکے ہیں۔ یقینی طور پر، اس کا مطلب بینک کا بند ہونا ہے۔ ‘‘ اور پھر وہ دکان سے نکلے، اپنے دفتر کی طرف تاکہ چیک بک لے سکیں۔
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے بازار میں پھیل گئی۔ دکانوں سے تاجروں تک، گاہکوں کے درمیان، اور پھر مختلف سمتوں میں، پان بیچنے والوں، درزیوں، باغبانوں، جوہریوں، بھکاریوں تک پھیل گئی۔ بوڑھے گنپت بھکاری کی ٹانگیں ٹیڑھی تھیں۔ وہ فٹ پاتھ پر برسوں سے بیٹھتا تھا اور بھیک مانگتا تھا۔ شام کو کوئی آتا اور اسے لے جاتا۔ اسے آج تک کسی نے چلتے پھرتے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن یہ جاننے کے بعد کہ بینک دیوالیہ ہونے والا ہے، گنپت چھلانگیں لگاتا ہوا بینک کی جانب دوڑ پڑا۔ سبھی لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ جلد ہی معلوم ہوا کہ اس نے بینک میں ایک ہزار روپے محفوظ کررکھے تھے۔
مرد مختلف گروہوں میں گلی کے کونوں پر کھڑے بینک کی صورتحال پر بات چیت کر رہے تھے۔ پیپل نگر میں شاذ و نادر ہی کوئی بحران ہوتا تھا، شاذ و نادر ہی سیلاب، زلزلہ یا خشک سالی آتی تھی۔ پیپل نگر بینک کی خبر نے لوگوں کو باتیں اور قیاس آرائیاں کرنے پر مجبور کردیا۔ کچھ نے اپنی دور اندیشی پر فخر کیا، خود کو مبارکباد دی کہ وہ پہلے ہی اپنا پیسہ نکال چکے تھے۔دوسرے سیٹھ گووند رام کو مورد الزام ٹھہرا رہے تھے۔ ایک نے بتایا کہ سیٹھ ریاست سے فرار ہوگیا ہے۔ دوسرے نے کہا ملک ہی سے بھاگ گیا ہے۔ تیسرے نے کہا کہ وہ پیپل نگر میں چھپا ہوا ہے۔ چوتھے نے کہا کہ اس نے املی کے پیڑ سے لٹک کر خودکشی کرلی اور صبح جھاڑو والے نے اس کی لاش ٹھکانے لگائی۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
دوپہر تک اس چھوٹے سے بینک کے متعلق ہر ممکن افواہ پھیلائی جاچکی تھی۔ لوگ اپنی رقم لینے اور منیجر کو پریشان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے تھے۔ بینک میں پیسوں کی کمی تھی۔ ہنگامی فنڈز تیس میل دور کسی دوسرے بینک سے حاصل کئے جا سکتے تھے ۔
منیجرتذبذب کا شکار تھا کہ اتنی دیر تک وہ گاہکوں کا غصہ برداشت کرسکے گا یا نہیں۔ کشمیر میں بیٹھے سیٹھ گووند رام سے رابطہ کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ لوگوں کو کاؤنٹر سے واپس کر دیا گیا اور اگلے دن آنے کیلئے کہا گیا۔ لیکن گاہکوں نے بینک کی سیڑھیوں پر دھرنا دے دیا اور چیخنے لگے کہ ’’ہمیں ہمارے پیسے دو ورنہ ہم بینک میں گھس جائیں گے،اور `سیٹھ کو لے آؤ، ہمیں معلوم ہے وہ تجوری میں چھپا ہوا ہے!‘‘ شر انگیز افراد جن کا پیسہ بینک میں نہیں تھا، وہ بھی بھیڑ میں شامل ہوکر لوگوں کو بھڑکانے لگے۔ منیجر بینک کے دروازے پر کھڑے ہو کر انہیں تسلی دینے کی کوشش کررہا تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ بینک کے پاس کافی رقم ہے لیکن تمام یہاں نہیں ہے۔ اسے جمع کرنے کا کوئی فوری ذریعہ نہیں ہے۔ اس نے انہیں اگلے دن واپس آنے کی تاکید کی۔’’ہمیں ابھی پیسہ چاہئے!‘‘ ہجوم سے کچھ نعرے بلند ہوئے۔ ’’ابھی چاہئے، ابھی چاہئے!‘‘ اور ایک اینٹ اڑتی ہوئی پیپل نگر بینک کے شیشے کی کھڑکی سے ٹکرا گئی۔ اگلی صبح ناتھو بینک کی سیڑھیاں صاف کرنے پہنچا۔ اس نے کچرے اور ٹوٹے ہوئے شیشے اور پتھروں کو اپنے قدموں میں بے ترتیبی سے پڑا دیکھا۔ وہ انتہائی غصے سے چلایا ’’گدھوں کے بچو! دیر سے پیسے ملنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ تم نے میرا کام بھی بڑھا دیا!‘‘ اس نے اپنے جھاڑو سے کچرے کو سیڑھیوں سے گراتے ہوئے کہا۔
’’صبح بخیر، ناتھو!‘‘ دھوبی کے لڑکے نے اپنی سائیکل سے اترتے ہوئے کہا۔ `’’کیا تم اگلے مہینے کی پہلی تاریخ سے کوئی نئی نوکری شروع کرنے کیلئے تیار ہو؟ مجھے لگتا ہے کہ تمہیں تیار ہونا ہی پڑے گا کیونکہ اب بینک تو بند ہوجائے گا۔‘‘’’وہ کیسے؟‘‘ ناتھو نے پوچھا۔’’کیا تم نے نہیں سنا؟ ٹھیک ہے، تم کچھ دیر یہیں ٹھہرو۔ ابھی پیپل نگر کی آدھی آبادی اپنے پیسے لینے یہاں آجائے گی۔‘‘ اس نے خوشی سے ہاتھ ہلایا کہ بینک میں اس کا اکاؤنٹ نہیں ہے اور پھر اپنی سائیکل پر بیٹھ کر وہاں سے تیزی سے روانہ ہوگیا۔ ناتھو بڑبڑاتا ہوا سیڑھیاں صاف کرنے لگا۔ جب وہ اپنا کام ختم کر چکا تو منیجر کے انتظار میں سب سے اوپری سیڑھی پر بیٹھ گیا۔ آج وہ اپنی تنخواہ لینے کیلئےپرعزم تھا۔ ’’کس نے سوچا تھا کہ بینک دیوالیہ ہوجائے گا!‘‘ اس نے ایک غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے ہوئےاپنے آپ سے یہ سوال پوچھا۔ ’’میں حیران ہوں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘