Updated: December 06, 2025, 10:01 PM IST
| Kolkata
کولکاتا میں اے ایم آئی آرٹ فیسٹیول ۲۰۲۵ء کے دوران فلمساز انوراگ کشیپ نے کہا کہ متعدد ہندی فلمیں جان بوجھ کر تنازع کھڑا کرنے کے مقصد سے بنائی جا رہی ہیں تاکہ سوشل میڈیا پر بحث چھڑ جائے اور فلم کی تشہیر بڑھے۔ پینل میں شریک دیگر فلم سازوں اور اداکاروں نے بھی سنیماکو درپیش مسائل جیسے سینسر شپ، تخلیقی آزادی کی کمی، کارپوریٹ کنٹرول، بڑھتی پیداواری لاگت، اور بدلتے ہوئے ناظرین کے رویے پر روشنی ڈالی۔ سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ موجودہ بحران کے باوجود نئی نسل کے فلم ساز اور اسکرپٹ رائٹرہندوستانی سنیماکی امید ہیں۔
نامور فلم ساز انوراگ کشیپ۔ تصویر: آئی این این
نامور فلم ساز انوراگ کشیپ نے جمعہ کو کولکاتا میں منعقد ہونے والے اے ایم آئی آرٹ فیسٹیول ۲۰۲۵ء میں کہا کہ آج کی بہت سی ہندی فلمیں دراصل اس مقصد کے ساتھ بنائی جاتی ہیں کہ وہ سوشل میڈیا پر تنازع کھڑا کریں اور اسی شور شرابے کو فلم کی تشہیر کے لئےاستعمال کیا جائے۔ ان کے مطابق، موجودہ دور میں فلمیں ’’غصے کو بڑھانے کا ذریعہ‘‘ بن گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’فلم ساز جانتے ہیں کہ جیسے ہی کوئی تنازع اٹھتا ہے، سوشل میڈیا دو حصوں میں بٹ جاتا ہے۔ شور بڑھتا جاتا ہے اور فلم بڑی ہو جاتی ہے۔‘‘ کولکاتا سینٹر فار کریئیٹیویٹی (KCC) میں ہونے والے پینل ڈسکشن کا عنوان تھا ’’عصرِ حاضر کے ہندوستانی سنیما کو درپیش چیلنجز‘‘، جس میں انوراگ کشیپ کے ساتھ فلم ساز النکریتا سریواستو، اداکارہ سواستیکا مکھرجی اور اسکرین رائٹر انجم راجابلی نے شرکت کی۔ گفتگو کی میزبانی اداکار سدھانوا دیشپانڈے نے کی۔ کشیپ نے گفتگو کے دوران کہا کہ کارپوریٹ کنسولیڈیشن نے فلمی ماحول کو شدید نقصان پہنچایا ہے، کیونکہ اب تخلیقی فیصلوں پر مالی مفاد رکھنے والے اداروں کا اثر بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے جنوبی ہندکی فلمی صنعت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں آج بھی انفرادی پروڈیوسرز اور سنیمامالکان تخلیقی فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جبکہ ناظرین اپنے فلم سازوں کے کام پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: جانئے’’ٹو مچ وِد کاجول اینڈ ٹوئنکل‘‘ میں شاہ رخ خان کی عدم شرکت کی اصل وجہ
پینل نے تقریباً دو گھنٹے تک فلمی صنعت میں بڑھتی سینسرشپ، بجٹ کے دباؤ، اوٹی ٹی کے اثرات، اور بدلتے ہوئے فلم بینی کے طریقوں پر تفصیلی بحث کی۔ فلم ’’لپ اسٹک انڈر مائی برقع‘‘ کی ہدایت کار النکریتا سریواستو نے کہا کہ مرکزی دھارے کے سنیما میںمردوں کا برتر اور اعلیٰ عکس اور جارحانہ بیانیہ کوئی نیا رجحان نہیں، بلکہ یہ دہائیوں پرانی اس موضوع کو بڑھاوا دیتی فلموں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناظرین کو طویل عرصے تک محدود اور مردانہ بیانیے والی فلمیں دیکھنے کی ’’تربیت‘‘ دی گئی ہے۔
اسکرین رائٹر انجم راجابلی نے کہا کہ آج کے ماحول میں اسکرپٹ رائٹرسب سے کمزور گروہ ہیں۔ انہوں نے ایسے معاہدوں کی نشاندہی کی جن میں اسکرپٹ رائٹرکو پابند کیا جاتا ہے کہ اگر اسکرپٹ پر کوئی سیاسی اعتراض اٹھے تو وہ پروڈیوسر کو ہرجانہ ادا کرے۔ انھوں نے کہا کہ’’یہ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اگر اعتراض کے باعث ۳۰؍ کروڑ کا نقصان ہو تو کیا اسکرپٹ رائٹر اتنی رقم ادا کرے گا؟‘‘
یہ بھی پرھئے: رنویر سنگھ کی ’’دھرندھر‘‘ کی مانگ میں اضافہ، ممبئی میں ۲۴؍ گھنٹے شوز جاری
پینل نے سنیما ٹکٹ اور کھانے پینے کی اشیاء کی بڑھتی قیمتوں پر بھی تشویش ظاہر کی۔ مکھرجی نے کہا کہ ’’پاپ کارن کا ایک ڈبہ بنگالی فلم کے ٹکٹ سے مہنگا ہے۔‘‘ کشیپ نے کہا کہ دہلی اور ممبئی میں فلم دیکھنا ’’لگژری‘‘ بن چکا ہے۔ آخر میں مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ مشکل حالات کے باوجود نئی نسل کے فلم ساز اور اسکرپٹ رائٹر ہندوستانی سنیما کی اصل امید ہیں۔ سریواستو نے کہا، ’’تبدیلی ہمیشہ دائرے سے شروع ہوتی ہے پھر مرکزی دھارے تک پہنچتی ہے۔‘‘ کشیپ نے مختلف خطوں کے نوجوان ہدایت کاروں کی تخلیقی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ اصل امید مقامی کہانیوںمیں ہے۔