نتیش رانے اور سنگرام جگتاپ کی اچانک خاموشی، ٹیپو سلطان کی جینتی کازور وشور سےمنایا جانا، آر ایس ایس کے خلاف کھل کر آوازیں بلند کرنا، یہ کسی تبدیلی کا اشارہ ہے۔
دلت تنظیموں نے ان دنوں آر ایس ایس کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے۔ تصویر:آئی این این
گزشتہ کچھ عرصے سے مہاراشٹر میں سیاسی ماحول کچھ بدلا بدلا سا نظر آ رہا ہے۔ میونسپل الیکشن کی ہماہمی کے دوران بھی نتیش رانے ، سنگرام جگتاپ اور گوپی چند پڈلکر خاموش ہیں۔ گزشتہ ۱۰؍ سال میں جو نہیں ہوا وہ منظر ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش پر دکھائی دیا۔ شیر میسور کی جینتی سوشل میڈیا پر بڑے دھوم دھام سے منائی گئی۔ ساتھ ہی آر ایس ایس کے خلاف کھلے طور پر آوازیں اٹھنے لگیں۔ حتیٰ کہ ممبئی میں بی جے پی اور کانگریس کارکنان کا آمنے سامنے مقابلہ دیکھنے کو ملا جو کہ گزشتہ ایک دہائی میں کبھی نظر نہیں آیا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ کچھ سال میں مہاراشٹر کی صورتحال بھی فرقہ واریت کے معاملےمیں اتر پردیش جیسی ہونے لگی تھی۔ تہوار کے موقع پر جلوس ، جان بوجھ کر مسجد کے سامنے ڈی جے بجانا اور پتھرائو کرنا، پھر مسلم نوجوانوںکی گرفتاری، اس معاملے میں سیاسی اور سماجی سطح پر خاموشی معمول بن گیا تھا۔ اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان کی تصویر نجی موبائل کے ڈپی پر رکھنا جرم ہو گیا تھا۔ اس کے بعد نئے نئے لیڈر بنے گوپی چند پڈلکر، نتیش رانے اور سنگرام جگتاپ جیسے لوگوں نے مسجدوں میں گھس کر مارنے، مسلمانوں کی دکانوں سے خریداری نہ کرنے اور مبینہ لوجہاد کے خلاف متحد ہونے کا اعلان کرنا شروع کیا۔ ان کی بد زبانیوں پر بھی سیاسی ور سماجی سطح پر خاموشی چھائی رہی۔ لیکن گزشتہ کچھ دنوں سےماحول میں کچھ تبدیلی دکھائی دے رہی ۔
کم از کم ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے ، نہ ہی نتیش رانے نے کوئی بیان دیا ہے نہ ہی گوپی چند پڈلکر نے کوئی بد زبانی کی ہے۔ سنگرام جگتاپ بھی پوری طرح سے خاموش ہیں۔ اس کے بجائے ونچت بہوجن اگھاڑی نے آر ایس ایس کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے۔ خاص کر پرکاش امبیڈکر کے بیٹے سجات امبیڈکر مسلسل ریاست کے مختلف علاقوں میں جلسے کرکے آر ایس ایس پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس پر ذات پات اور مذہب کے نام پر منافرت پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔ یاد رہے کہ پرکاش امبیڈکر گزشتہ ۴۰؍ سال سے سیاست میں سرگرم ہیں لیکن انہوں نے آر ایس ایس کے خلاف یوں باقاعدہ مہم کبھی نہیں چھیڑی تھی جس طرح ان دنوںان کی پارٹی چلا رہی ہے۔ سب بڑی حیرانی اس وقت ہوئی جب ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش پر مہاراشٹر کی تقریباً ہر پارٹی کے لیڈران نے سوشل میڈیا پر انہیں یاد کیا اور ریاست کے مختلف اضلاع میں بڑے پیمانے پر شیر میسور کی جینتی کا جشن منایا گیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال صورتحال یہ تھی کہ ڈی پی پر ٹیپو سلطان کی تصویر رکھنے، ٹیپو کی تعریف میں کوئی پوسٹ شیئر کرنے ، اور کسی دیوار یا ستون پر ان کا نام لکھ دینے تک سے پولیس معاملہ درج کر لیتی تھی۔ ان کی جینتی پر صرف دلت تنظیمیں ہی سوشل میڈیا پر مبارکباد پیش کرنے کا حوصلہ دکھاتی تھیں لیکن اس بار کیا ایم آئی ایم کیا ونچت بہوجن اگھاڑی ، کیا کانگریس کیا این سی پی ہر پارٹی کے کارکنان اور لیڈران نے ٹیپوکو خراج عقیدت پیش کیا۔ حتیٰ شیوسینا (شندے)ٌ اور بی جے پی کارکنان نے بھی ٹیپو کی شان میں پوسٹ شیئر کی۔ یہ واقعی ایک تحقیق طلب نکتہ ہے کہ اچانک اتنی بڑی تبدیلی کیسے آ گئی؟ اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے اس پر کوئی اعتراض بھی ظاہر نہیں کیا۔
ایسا پہلی بار ہوا کہ جب کانگریس کے کسی مسلم لیڈر کے خلاف بی جے پی کے کسی لیڈر نے اشتعال انگیز بیان بازی کی ہو اور جواب میں کانگریس کارکنان نے بی جے پی کا اسی کی زبان میں مقابلہ کیا ہو۔ جیسا کہ ممبئی میں سابق وزیر اسلم شیخ کے خلاف منگل پربھات لودھا کے بیان دینے پر ہوا۔ بی جے پی ورکروں نے ملاڈ میں اسلم شیخ کے خلاف مورچہ نکالا تو دوسرے دن کانگریس ورکروں نے لودھا کے دفتر کے باہر مورچہ نکالا۔ کانگریس میں آئے اس نئے حوصلے کو دیکھ کر ہر کوئی حیران رہ گیا۔
دراصل مراٹھا ریزرویشن تحریک کے دوران مسلمانوں کے بے لوث تعاون کی وجہ سے زمینی سطح پرمراٹھا مسلم دوستیوں کا پنپنا، بہار الیکشن کے دوران مسلمانوں کا ڈر یا خوف کے سایہ سے نکل کر آزادانہ طور پر ووٹنگ کرنا، اور ونچت بہوجن اگھاڑی کے علاوہ مقامی دلت تنظیموں کا کھلے طور پر آر ایس ایس کے خلاف صف بندی کرنا ، یہ ممکنہ وجوہات ہیں جنہوں نے سیاسی پارٹیوں کو حالات کا جائزہ لینے پر مجبور کیا ہے اور سیکولراز م اور دوستانہ ماحول کی باتیں ہو رہی ہیں۔ میونسپل الیکشن کے نتائج کے بعد سیاسی حالات کچھ اور رخ اختیار کر سکتے ہیں۔