سرکاری اسپتالوں کی حالت ِ زار کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت منہ چڑاتی ہوئی دکھائی دیتی ہےکہ ملک کے عوام سرکاری اسپتالوں سے زیادہ نجی اسپتالوں پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ ا
EPAPER
Updated: October 07, 2023, 1:05 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
سرکاری اسپتالوں کی حالت ِ زار کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت منہ چڑاتی ہوئی دکھائی دیتی ہےکہ ملک کے عوام سرکاری اسپتالوں سے زیادہ نجی اسپتالوں پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ ا
سرکاری اسپتالوں کی حالت ِ زار کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت منہ چڑاتی ہوئی دکھائی دیتی ہےکہ ملک کے عوام سرکاری اسپتالوں سے زیادہ نجی اسپتالوں پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ ایسا نہ ہوتا تو کیوں وہ لوگ بھی نجی اسپتال کا رُخ کرتے جن کی مالی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی؟
۱۸۔۲۰۱۷ء کے نیشنل سیمپل سروے کے مطابق ایک تہائی سے بھی کم لوگ ایسے ہیں جو سرکاری اسپتالوں کا رُخ کرتے ہوں ۔ سروے میں نجی اسپتال سے علاج کروانے والوں کی تعداد ۶۶؍ فیصد اور سرکاری اسپتالوں سے رابطہ کرنے والوں کی تعداد ۳۳؍ فیصد بتائی گئی تھی۔ اس ۳۳؍ فیصد میں بھی دیہی علاقوں کے مریضوں کی تعداد شہری علاقوں کے مریضوں کی تعداد سے بہت زیادہ نہیں ہے۔ اس سے جو تصویر واضح ہوتی ہے وہ اس طرح ہے:
عوام کا سرکاری اسپتالوں پر بھروسہ کم ہے۔ سرکاری اسپتالوں کے مسائل کسی سے مخفی نہیں ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے جو مریضوں اور اُن کے رشتہ داروں کو سرکاری اسپتال کی تگ و دو سے روکتی ہے، سرکاری اسپتالوں میں اُنہیں جس طرح دھکے کھانے پڑتے ہیں ، وہ اُن کیلئے ناقابل برداشت ہے، جو لوگ نجی اسپتال کا خرچ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں وہ بھی نجی اسپتالوں پر انحصار کرتے ہیں ، وغیرہ۔ سرکاری اسپتال اس لئے بھی بہت نیک نامی نہیں کما سکے ہیں کہ خود حکومت کی پالیسیوں کے سبب پرائیویٹ اسپتالوں کو زیادہ ترجیح ملی ہے بہ نسبت سرکاری اسپتالوں کے۔حکومت نے نجی اسپتالوں کی حوصلہ شکنی نہیں حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نجی اسپتال فائیو اسٹار ہوٹلوں جیسے ہیں ۔ وہاں ایک سے بڑھ کر ایک ڈاکٹر ہے اور ایک سے بڑھ کر ایک مشین ہے۔ بعض اسپتال تو اتنے عالیشان ہیں کہ کوئی صحتمند شخص اپنے کسی عزیز کی عیادت کو جائے تو اس کے دل میں بھی خواہش پیدا ہو کہ کاش بیمار ہواو راس اسپتال میں داخل ہو!
طبی نظام کو اب ہیلتھ کیئر سیکٹر کہا جاتا ہے۔ بعض رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے ہیلتھ کیئر سیکٹر کا ۴۰؍ فیصد ایسا ہے جو بنیادی سہولتوں سے عاری ہے۔ یہاں پانی کا مناسب انتظام نہیں ہے، تسلسل کے ساتھ بجلی سپلائی نہیں ہے، ڈاکٹر بھی خاطرخواہ تعداد میں نہیں ہیں ، ایمرجنسی رومس نہیں ہیں وغیرہ۔آئے دن یہ مسئلہ بھی سامنے آتا رہتا ہے کہ جو ہائی ٹیک مشینیں دستیاب ہیں ، اُنہیں چلانے والے کبھی حاضر ہیں تو کبھی حاضر نہیں ہیں ، کبھی مشین چل رہی ہے تو کبھی مشین نے چلنے سے معذوری کا اظہار کردیا ہے۔ اگر مشینیں ہیں ، چل بھی رہی ہیں اور انہیں چلانے والا بھی موجود ہے تو چونکہ مشینیں کم ہیں اس لئے مریضوں کو اپنی باری کا انتظار کرتے کرتے کئی دن کھپا دینے پڑتے ہیں ۔ یہ سب محض اسلئے ہے کہ حکومت سرکاری اسپتالوں پر نہ تو توجہ دیتی ہے نہ ہی اُنہیں نجی اسپتالوں جیسا ہائی ٹیک بنانے پر غور کرتی ہے۔ یہ تصویر کب بدلے گی، کبھی بدلے گی بھی یا نہیں ، اس کا جواب نہیں ملتا۔اہل اقتدار اس معاملے میں مخلص ہوتے اور انہیں عوام کا درد ہوتا تو کورونا میں جس قسم کے حالات پیدا ہوئے تھے وہ وارننگ بیل کا کام کرتے اور حکومت پہلی فکر کرتی سرکاری اسپتالوں میں قابل قدر بنانے کی۔ ناندیڑ، اورنگ آباد اور ناگپور کے حالات ایک اور وارننگ بیل ہیں ۔ کیا حکومت جاگے گی؟