Inquilab Logo

بی جےپی کا انتخابی منشور خواب یا حقیقت!

Updated: April 21, 2024, 3:20 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

عام انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔دونوں ہی بڑی پارٹیاں پوری قوت کے ساتھ انتخابی میدان میں اُتری ہوئی ہیں اور اپنے اپنے منشور کا اعلان بھی کرچکی ہیں۔

The extent to which Narendra Modi has dominated the BJP can be gauged from the fact that the party named its election manifesto `Modi`s Guarantee`. Photo: INN
بی جے پی پر نریندر مودی کس قدر حاوی ہوچکے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پارٹی نے اپنے انتخابی منشور کا نام ’مودی کی گارنٹی‘ دیا ہے۔ تصویر : آئی این این

عام انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔دونوں ہی بڑی پارٹیاں پوری قوت کے ساتھ انتخابی میدان میں اُتری ہوئی ہیں اور اپنے اپنے منشور کا اعلان بھی کرچکی ہیں۔ کانگریس کا منشور ۴۶؍ صفحات اور بی جے پی کا منشور ۷۶؍ صفحات پر مشتمل ہے۔کانگریس کے منشور میں راہل گاندھی کی تین سے چار تصویریں ہیں جبکہ بی جے پی کے منشور کے ہر صفحہ پر مودی چھائے ہوئے ہیں۔ اس مینی فیسٹو کا نام ہی’مودی کی گارنٹی‘ ہے۔ منشور میں بی جے پی نے اپنے پسندیدہ مذہبی موضوع کو خاص جگہ دیتے ہوئے پوری دنیا میں رامائن کا تہوار منانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔آیئے دیکھتے ہیں مراٹھی اخبارات نے بی جے پی کے انتخابی منشور پر کیا کچھ لکھا ہے اور اس کا کس طرح تجزیہ کیا ہے؟
سامنا(۱۶؍اپریل )
 اخبار اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’ایران نے اسرائیل پر ۳۰۰؍ ڈرون میزائلوں سے حملہ کردیا۔بی جے پی نے پارلیمانی انتخابات کیلئے جو منشور جاری کیا ہے وہ بھی ہندوستانی عوام پر کسی ڈرون کے حملوں جیسا ہی ہے۔بی جے پی کا منشور ملک اور عوام کے ساتھ ظالمانہ مذاق سے کم نہیں ہے ۔نوجوانوں، خواتین، کسانوں اور غریبوں کو بااختیار بنانا، یکساں سول کوڈ کا نفاذ اورایک ملک ،ایک انتخاب ،ایسا مودی کی گارنٹی دینے والا منشور جاری کیا گیا ہے۔اس میں نیا کچھ بھی نہیں ہے۔گزشتہ ۱۰؍ برسوں میں کئے گئے وعدوں کو ایک بار پھر دہرایا گیا ہے۔کسانوں کی آمدنی دگنا کرنےکا اعلان ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے منشور میں بھی کیا گیا تھا لیکن کسانوں کی آمدنی دگنا ہونا تو دور جو معمولی آمدنی تھی، وہ مزید کم ہوگئی ہے۔۲۰۱۴ء سے پہلے کسان مشکلات کا سامنا کررہے تھے، لیکن مودی دور میں وہ غلام اور محتاج بن گئے ہیں۔ایم ایس پی کا مطالبہ اور  سیاہ قانون کے خلاف جب کسانوں نے دہلی کی جانب مارچ کیا تو انہیں روکنے کیلئے سرحد پر کیلیںگاڑ دی گئیں۔احتجاج کرنے  والے کسانوں پر گولیاں برسانے والے مودی انتخابی منشور میں ان کی خیر خواہی کا جھوٹا وعدہ کر رہے ہیں ۔ بھگوان رام کیلئے  راستوں پر رنگولی بنائی جاتی ہیں مگر کسانوں کے راستوں پر کیل  ٹھونک کر ظلم وتشدد کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔مودی نے اعلان کیا ہے کہ مفت راشن اسکیم اگلے پانچ سال تک  چلائی جائے گی۔کم از کم ۸۰؍ کروڑ لوگوں کو پانچ کلو  اناج دے کر انہیں آنے والے ۵؍ سال تک غلام اور غریب رکھنے کی یہ مودی گارنٹی ہے۔لوگوں کو روزگار کی ضرورت ہے۔لوگ محنت اور عزت نفس سے کمانا چاہتے ہیں لیکن مودی انہیں روزگار نہیں دے سکتے ہیں البتہ راشن دے رہے ہیں کیونکہ روزگار کی گارنٹی ناکام ہوچکی ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: راج ٹھاکرے کی موقع پرستی مہاراشٹرکی سیاست میں کیا گل کھلائےگی؟

سکال(۱۶؍اپریل )
 اخبار  نے اپنےاداریہ میں لکھا ہے کہ’’جمہوری ممالک میں انتخابات سے قبل سیاسی جماعتیں منشور پیش کرتی ہیں۔ ان میں الیکشن جیتنے کے بعدقوانین، ضوابط اور پالیسیوں میں ہونے والی تبدیلیوں سے متعلق اہم نکات زیر بحث لائیں جاتے ہیں۔منشور سے پارٹی کی سیاسی سمت بھی طے ہوتی ہے اسلئے ان انتخابی منشور پر بحث ومباحث بھی ہوتے ہیں۔پچھلے ہفتے کانگریس نے `’نیائے پتر‘ `کے  عنوان  سے اپنا منشور جاری کیا ۔اتوار کو بی جے پی نے’سنکلپ پتر‘ جاری کیا۔دونوں قومی پارٹیاں حکومت کے معاملات کو کس نظر سے دیکھتی ہیں،اس کی ایک جھلک منشور میں دکھائی دی۔ پسماندہ افراد کی مدد کرنا بی جے پی کے منشور کا نمایاں حصہ ہےلیکن اس میں ملک سے پسماندگی کےخاتمے کا وسیع ہدف کیوں ندارد ہے؟بی جے پی نے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے رہنے کا خواب دکھایا ہے،لیکن اسے حقیقت میں تبدیل کرنے کیلئے مختلف اداروں کو درپیش مسائل اور چیلنجوں کی کوئی تفصیل نہیں دی ہے۔دس سال کے اقتدار میں بی جے پی نے یقیناً اپنے ایجنڈے پر چلتے ہوئے کئی متنازع ایشوز کو حل کیا  ہے۔جیسے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، جموں کشمیر میں آرٹیکل ۳۷۰؍ کا خاتمہ،تین طلاق کو غیر آئینی قرار دینا اور پسماندہ طبقہ کیلئے ۱۰؍ فیصد ریزرویشن وغیرہ معاملات انجام تک پہنچے  ہیں۔اس مرتبہ بی جے پی نے مقبول عام نعروں سے دور رہنے کی کوشش کی ہے۔اسے بی جے پی کی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جو اسے اقتدار میں رہنے کے تجربہ کے بعد حاصل ہوئی ہے۔بی جے پی نے اپنے منشور میں ۲۵؍ کروڑ افراد کو غربت سے باہر نکالنے کا دعویٰ کیا ہے تو پھر پانچ سال تک ۵؍کلو مفت اناج دینے کا اعلان کیوں کیا گیا؟ ۲۰۱۴ ءمیں کسانوں کی آمدنی دگنی کرنے،ہر سال ۲؍ کروڑ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے،بدعنوانی کو ختم کرنے،ملک سے باہر کالا دھن واپس لانے کا اعلان کیا گیا تھا۔انتخابی مہم میں یہی موضوعات چھائے ہوئے تھے۔ان تمام وعدوں کا کیا ہوا؟ اس کا بی جے پی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
گلوبل ٹائمز(۱۶؍اپریل )
 اخبار نے لکھا ہے کہ ’’انتخابات کے موسم میں سیاسی پارٹیوں کی جانب سے منشور کا اجراء ایک رسم بن کر رہ گیا ہے۔کئی بار وہی ایشوز جو پچھلے منشور کا حصہ تھے، وہی ایک بار پھر نئے لباس میں نظر آتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک تحقیق کا موضوع ہے کہ رائے دہندگان انتخابی منشور کو کس حد تک سنجیدگی سے لیتے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ انتخابی منشور سے سیاسی جماعتوں کی فکر، ان کانظریہ اور ان کی ذہنیت واضح ہوتی ہے۔ گزشتہ دس برسوں سے مرکزمیں اقتدار بی جے پی نے بالآخر اپنا انتخابی منشور جاری کردیا ہے۔گزشتہ کئی دنوں سے بی جے پی  لیڈران `گارنٹی ` لفظ کا کثرت  سے استعمال کررہے ہیں اس کی جھلک منشور میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔اسی طرح یکم فروری کو پیش کردہ عام بجٹ بھی کچھ حد تک اس منشور میں جھلکتا ہے۔بی جے پی کے انتخابی منشور کا تجسس اسلئے  تھا کہ پارٹی نے پچھلے برسوں میں جو بھی وعدے کئے تھے، ان میں سے بیشتر پورے ہو چکے ہیں، اب منشور میں کون سے نئے وعدے کئے جائیں گے،اس کا انتظار تھا۔اس منشور میں ترقی کے ساتھ یکساں سول کوڈ اور ون نیشن، ون الیکشن پر زور دیا گیا ہے۔ظاہر ہے بی جے پی کا رتھ اب انہی دو اہم موضوعات کی جانب دوڑے گا۔ پچھلے دونوں منشور میں پارٹی نے بے روزگاری  اورمہنگائی ختم کرنے کا جو دل فریب نعرہ بلند کیا تھا اس کا ہلکا سا بھی ذکر اس منشور میں نہیں کیا گیا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK