Inquilab Logo

دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری سیاسی رنجش کا نتیجہ

Updated: March 31, 2024, 4:18 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ جب سے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے وزیر اعظم مودی کی ڈگری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھاکہ ان کے پاس کوئی ڈگری نہیں ہے۔

Kejriwal`s arrest is being seen as a political revenge not only in the country but also globally. Photo: INN
کیجریوال کی گرفتاری کو صرف ملک ہی میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی سیاسی انتقام کے طور پر دیکھاجارہا ہے۔ تصویر : آئی این این

سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ جب سے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے وزیر اعظم مودی کی ڈگری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھاکہ ان کے پاس کوئی ڈگری نہیں ہے۔ تبھی سے وہ مودی کے نشانے پر تھے۔ دہلی حکومت کی شراب پالیسی سے جڑے منی لانڈرنگ معاملے نے وزیر اعظم مودی کو ایک موقع فراہم کردیا کہ وہ ان سے اپنی بے عزتی کا انتقام لیں۔ وہیں عین لوک سبھا الیکشن سے قبل اپوزیشن کی صفوں میں جو جوش و خروش نظر آرہا ہے اس نے بھی بی جے پی کی نیند حرام کردی ہے۔ جہاں تک کیجریوال کا سوال ہے ان کے کانگریس کے ساتھ جانے سے شمالی ہند کی کئی ریاستوں میں بی جے پی کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مراٹھی اخبارات نے اس پر کیا لکھا ہے؟ 
سامنا(۲۳؍مارچ)
 اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو ای ڈی نے ان کے سرکاری گھر سے گرفتار کرلیاجبکہ انہیں دہلی ودھان سبھا میں مکمل اکثریت حاصل ہے۔ پنجاب میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے۔ چونکہ کیجریوال نے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر’انڈیا‘ کے ساتھ اتحاد کیا، اس کی وجہ سے بی جے پی کو دہلی، ہریانہ اور پنجاب میں بڑا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اسلئے انہیں گرفتار کیا گیا۔ وہیں کیجریوال کو کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے سے روکنے کیلئے بھی ای ڈی کے ذریعہ ڈرانے کی کوشش کی گئی۔ جب کیجریوال نے بی جے پی کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کردیا تو ای ڈی نے انہیں گرفتار کرلیا۔ شراب گھوٹالہ محض ایک بہانہ ہے۔ اگر کیجریوال کانگریس چھوڑ کر بی جے پی کی واشنگ مشین سے صاف ہوگئے ہوتے تو وہ اجیت پوار کی طرح بی جے پی کے نئے شنکر اچاریہ کہلاتے۔ اس سے قبل جھار کھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کو بھی ای ڈی نے اسی طرح گرفتار کیا تھا۔ جب مودی اور شاہ عوام کی منتخب حکومت کو گرانے میں کامیاب نہیں ہوتے تب وہ ای ڈی کا استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کے وزرائے اعلیٰ کو گرفتار کروا دیتے ہیں۔ اسی کانام آمریت ہے۔ روس اور چین میں سیاسی مخالفین کو غائب کردیا جاتا ہے یا مار دیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں جمہوریت کی دہائی دے کر مخالفین پر جھوٹے مقدمات درج کرکے انہیں جیل بھیجا جارہا ہے۔ ملک میں لوک سبھا انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے۔ الیکشن کمیشن نے خوف و دہشت سے پاک ماحول میں انتخابات کروانے کا دعویٰ کیا ہے۔ جب ضابطہ اخلاق نافذ ہوچکا ہوں ایسے میں حکومت مخالف پارٹیوں کا قافیہ تنگ کیا جانا، یہ کیسی ذہنیت ہے؟اپوزیشن کو الیکشن لڑنے سے روکنے کی یہ نئی طرح کی دہشت گردی ہے۔ ای ڈی کا الزام ہے کہ کیجریوال نے شراب کا ٹھیکہ دینے کے عوض کروڑوں روپے کا چندہ لیا ہے لیکن دیکھا جائے تو اس طرح بی جے پی کے کھاتے میں بھی کروڑوں کا عطیہ جمع ہوا ہے۔ انتخابی بانڈ گھوٹالوں سے تو بی جے پی کا پورا چہرہ ہی سیاہ ہوگیا ہےلیکن اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ سے ’انڈیا‘ اتحاد میں نئی جان

سکال(۲۳؍مارچ)
 اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ’’ اس سے کوئی اختلاف نہیں کرسکتا ہے کہ بدعنوانی کا خاتمہ درحقیقت ملک کی ترقی کا ایک وسیع مقصد ہےلیکن ملک کے حکمراں اور اپوزیشن اس معاملے کو سیاسی فائدے اور نقصان کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اس کی سب سے تازہ اور نمایاں مثال ای ڈی کے ذریعہ دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال کی گرفتاری ہے۔ اس گرفتاری کے بعد ہونے والی ڈرامے بازی، پارٹی کارکنان کا غصہ اور سیاسی گھمسان کو دیکھ کر شک پیدا ہوتا ہے کیا واقعی کوئی سچائی کو باہر لانا چاہتا ہے یا محض سیاسی رنجش کے تحت پورا ڈراما رچا گیا ہے۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرکز کے حکمرانوں اور ریاستی حکمرانوں کے درمیان یہ رسہ کشی بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے ہے یا سیاسی حساب کتاب چکتا کرنے کیلئے۔ ای ڈی نے دہلی سرکار کے مبینہ شراب گھوٹالہ میں نائب وزیر اعلیٰ منیش سیسودیاکو گرفتار کرنے کے بعد براہ راست `آپ `کے سربراہ اور وزیر اعلیٰ کیجریوال کو نشانہ بنایا ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے کیجریوال لگاتار کہہ رہے تھے کہ مرکزی حکومت ای ڈی کا استعمال کرکے انہیں گرفتار کرنے کے درپے ہے۔ اروند کیجریوال کی گرفتاری نے کئی طرح کے سنگین سوال کھڑے کردیئے ہیں۔ مرکزی حکومت ای ڈی کو بطور ہتھیار استعمال کررہی ہے۔ بی جے پی لیڈران اپوزیشن کے جن لیڈروں پر کروڑوں کے گھپلے کا الزام عائد کررہے تھے وہ جب بی جے پی میں شامل ہوگئے تو انہیں کلین چٹ مل گئی جبکہ ہیمنت سورین اور اروند کیجریوال کو جیل جانا پڑا۔ حالانکہ اپوزیشن مسلسل اس کے خلاف آواز بلند کررہا ہے مگر بی جے پی نے اس پر کوئی وضاحت یا اپنا موقف پیش کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ یہ ہٹ دھرمی نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘
لوک مت(۲۳؍مارچ)
 اخبار لکھتا ہے کہ ’’دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری کی سیاست نے ہلچل مچانے کے ساتھ ہی کئی سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ ملک کے عام لوگوں کو ان سوالات کے جواب جیسے تفتیشی ایجنسیوں اور مرکزی حکومت سے مطلوب ہیں ویسے ہی کیجریوال اور ان کی پارٹی سے بھی۔ دہلی کا شراب گھوٹالے کا راز ابھی فاش نہیں ہوا ہے بلکہ پچھلے ۲؍سال سے سرخیوں میں ہے۔ اسی معاملے میں کیجریوال کی کابینہ کے۲؍ ساتھی جیل میں قید ہیں۔ بذات خود کیجریوال نے ای ڈی کے ذریعہ جاری کئے گئے۹؍ سمن کو خاطر میں نہیں لایا۔ پھر آخر کیا وجہ تھی کہ انہیں اتنے دنوں تک گرفتار نہیں کیا گیا؟ لوک سبھا انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی کیجریوال کو جیل بھیج دیاگیا۔ ان سوالات کے جواب ای ڈی اور مرکزی حکومت کو دینا چاہئے۔ تفتیشی ایجنسیاں اپوزیشن کے لیڈروں کو ہی مسلسل نشانہ کیوں بناتی ہیں ؟ کیا بر سراقتدار طبقہ بدعنوانی میں ملوث نہیں ہے؟حکمراں جماعت میں شامل ہونے والے اپوزیشن لیڈروں کے زیر التواء مقدمات کیوں سرد خانے میں چلے جاتے ہیں ؟ دوسری جانب مخالفین بھی بے داغ نہیں ہے۔ لالو یادو جیسے کئی لیڈر جیل کی سزا کاٹ چکے ہیں۔ کیجریوال کے ساتھی سیسودیا اور جین بھی ضمانت نہ ملنے سے جیل میں ہیں۔ اتنے دن گزرنے کے باوجود عدالت سے انہیں راحت کیوں نہیں مل رہی ہے؟‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK