Inquilab Logo

’انڈیا‘ اتحاد میں اچھی پیش رفت، تین دنوں میں کئی ریاستوں میں سمجھوتہ

Updated: February 25, 2024, 5:56 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

کچھ دنوں قبل تک ’انڈیا‘ اتحاد میں انتشار ہی انتشار دکھائی دے رہا تھا یا کم از کم میڈیا کے ذریعہ ایسا دِکھانے کی کوشش کی جارہی تھی لیکن گزشتہ تین چار دنوں میں یہ گاڑی اب پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

Rahul Gandhi and Priyanka Gandhi took the command of the alliance in their hands and made the issue of seat distribution easy. Photo: INN
راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے اتحاد کی کمان اپنے ہاتھ میں لے کر سیٹوں کی تقسیم کا معاملہ آسان کردیا ۔ تصویر : آئی این این

کچھ دنوں قبل تک ’انڈیا‘ اتحاد میں انتشار ہی انتشار دکھائی دے رہا تھا یا کم از کم میڈیا کے ذریعہ ایسا دِکھانے کی کوشش کی جارہی تھی لیکن گزشتہ تین چار دنوں میں یہ گاڑی اب پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔  ابتدائی جھٹکوں کے بعد جس میں نتیش کمار اور جینت چودھری ’این ڈی اے‘ کا حصہ بن گئے ، اب ’انڈیا‘کی اتحادی جماعتیں کافی سنبھل سنبھل کر باتیں کررہی ہیں اورپیش رفت بھی کررہی ہیں۔ کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے درمیان اُترپردیش اور مدھیہ پردیش میں اتحاد کے بعد جہاں عام آدمی پارٹی کے ساتھ دہلی سمیت کئی ریاستوں میں سمجھوتے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے وہیں ممتا بنرجی کا لہجہ بھی کچھ حد تک نرم ہوا ہے۔    آئیے  دیکھتے ہیں کہ مختلف ریاستوں میں اتحاد کی کیا صورتحال ہے؟
 اترپردیش:
 اترپردیش میں اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ کانگریس کے حصے میں ۱۷؍ اور سماجوادی کے حصے میں ۶۳؍ سیٹیں آئی ہیں۔ سماجوادی کے حصے میں آنے والی سیٹوں میں سےبجنور کی لوک سبھا سیٹ بہوجن آزاد سماج پارٹی کو مل رہی ہے جہاں سے اس کے سربراہ چندر شیکھر آزاد (راون)  الیکشن لڑیں گے۔ سماجوادی پارٹی نے یکطرفہ طور پر کانگریس کیلئے ۱۷؍سیٹوں کااعلان تو پہلے ہی کر دیا تھا لیکن مسئلہ سیٹوں کی تعداد کا نہیں، سیٹوں کے انتخاب کا تھا۔ کانگریس وہ سیٹیں مانگ رہی تھی،جہاں ۲۰۰۹ء میں اس کے امیدوار جیتے تھے لیکن اس کیلئے سماجوادی پارٹی تیار نہیں تھی۔ سماجوادی کی تیارکردہ فہرست میں صرف امیٹھی اور رائے بریلی کی ۲؍ ایسی سیٹیں تھیںجو کانگریس کی پسند تھیں۔  بہرحال اب کانگریس کو جو سیٹیں دی گئی ہیں، ان میں سے(رائے بریلی، امیٹھی، کانپور، مہاراج گنج، جھانسی اور بارہ بنکی کی صورت میں)  ۶؍ سیٹیں ایسی ہیں جہاں کانگریس ۲۰۱۹ء میں کامیاب ہوئی تھی اوروہ اس مرتبہ بھی ان  سیٹوں کا مطالبہ کررہی تھی۔ کانگریس مراد آباد اور شراوستی کی سیٹیں بھی مانگ رہی تھیں جہاں گزشتہ سال بلدیاتی انتخابات میں اسے زبردست عوامی حمایت ملی تھی لیکن وہ اسے نہیں مل سکیں البتہ  امروہہ کی سیٹ مل گئی ہے جہاں سے ممکنہ طور پر کنور دانش علی کانگریس کے امیدوار ہوں گے۔ ۲۵؍فروری کو راہل گاندھی کی یاترا میں اکھلیش یادو  کی شرکت کے بعد اترپردیش کی سیاسی فضا میں ایک خوشگوار تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے۔
مدھیہ پردیش:
 سماجوادی اور کانگریس کے درمیان صرف اترپردیش ہی نہیں بلکہ مدھیہ پردیش کیلئے بھی سمجھوتہ ہوگیا ہے جہاں اسمبلی انتخابات کے دوران دونوں میں کافی تلخی پیدا ہوگئی تھی۔
  کانگریس نے سماجوادی پارٹی کیلئے اترپردیش کی سرحد سے متصل کھجوراہو کی لوک سبھا سیٹ چھوڑدی ہے۔ یہاں پر ۲۰۰۴ء سے لگاتار بی جے پی کامیاب ہوتی آرہی ہے البتہ سماجوادی پارٹی یہاں پر تیسری اور چوتھی پوزیشن پر اپنی موجودگی درج کراتی رہی ہے۔  حالانکہ ۲۰۱۸ء کے اسمبلی انتخابات میں اسی خطے میں سماجوادی پارٹی کی کارکردگی کافی بہتر رہی تھی۔ وہ ۵؍ سے زائد اسمبلی حلقوں پر اثرانداز ہوئی تھی۔
دہلی:
 دہلی میں عام آدمی پارٹی (آپ) کے ساتھ کانگریس کا سمجھوتہ ایک مشکل مرحلہ تھا لیکن یہ جس طرح  خوش اسلوبی سے حل ہوا، بی جے پی کو شکست دینے  کی خواہش رکھنے والے رائے دہندگان میں ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہوا۔ دہلی میں ’آپ‘ چار اور کانگریس تین پارلیمانی حلقوں میں الیکشن لڑے گی۔ اسی کے ساتھ دونوں جماعتوں میں گجرات، گوا، ہریانہ اورچنڈی گڑھ میں بھی اتحاد ہوگیا ہے۔ ’آپ‘گجرات کی ۲؍ اور ہریانہ کی ایک لوک سبھا سیٹ پر الیکشن لڑے گی جبکہ گوا اور چنڈی گڑھ کی دونوں ہی سیٹوں پر  ’آپ‘ کانگریس کی حمایت کرے گی۔  

یہ بھی پڑھئے:نتیش کمار کی کرسی تو بچ گئی لیکن پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ہے

پنجاب:
 یہاں ایک حکمت عملی کے تحت کانگریس اور’آپ‘ نے الگ الگ الیکشن لڑنے کااعلان کیاہے۔ دراصل  وہ اتحاد کرکے بی جے پی اور شرومنی اکالی دل کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتیں۔ گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو ۴۰؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۸؍ سیٹیں ملی تھیں جبکہ اکالی  اور بی جے پی اتحاد کو (بالترتیب ۲۷؍  اور ۹؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ)  ۲۔۲؍ سیٹیں اور ۷؍ فیصد  ووٹوں کے ساتھ’آپ‘ کو ایک سیٹ ملی تھی۔ فروری ۲۰۲۲ء میںاسمبلی انتخابات ہوئے تو ریاست کی سیاسی صورتحال تبدیل ہوگئی۔اس میں ’آپ‘   واضح اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ ایسے میں دونوں ہی پارٹیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اکیلے الیکشن لڑنا زیادہ سود مند ثابت ہوگا لیکن اگر بی جے پی اور اکالی دل میں اتحاد ہوتا ہے تو پھر کانگریس اور ’آپ‘ بھی مل کر الیکشن لڑ نے کا فیصلہ کرسکتی ہیں۔
 بہار:
 یہاں پر سیٹوں کی تقسیم کااعلان نہیں ہوا ہے لیکن یہ تقریباً طے ہے کہ ۲۰۱۹ء جیسی صورتحال رہے گی۔ اُس وقت ریاست کی ۴۰؍ لوک سبھا سیٹوں میں سے آر جے ڈی ۱۹؍ اور کانگریس ۹؍سیٹوں  پر الیکشن لڑی تھی۔کم و بیش یہی صورت حال اس مرتبہ بھی رہے گی۔ جے ڈی یو کے اتحاد سے باہر نکل جانے کے بعد بہار میں سیٹوں کی تقسیم کا اب کوئی مسئلہ نہیں رہا۔  گزشتہ دنوں راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ میں تیجسوی یادو شریک ہوچکے ہیں اور ۳؍ مارچ کو تیجسوی کی ’جن وشواس ریلی‘ میں راہل  نے بھی شرکت کا وعدہ کیا ہے۔ گمان غالب ہے کہ تیجسوی کے ’جن وشواس یاترا‘ کے مکمل ہوتے ہی یا پھر ’جن وشواس ریلی‘ میں اس کے باقاعدہ اعلان کی امید ہے۔
مغربی بنگال:
 بنگال میں ترنمول کانگریس اور کانگریس کے درمیان گفتگو کا سلسلہ رُک گیا تھا لیکن گزشتہ ۲؍ دنوں سے یہاں بھی  جمود ٹوٹاہے اور ایک بار پھر دونوں میں بات چیت شروع ہوگئی ہے۔  ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق مغربی بنگال میں کانگریس کو ۵؍ سیٹیں مل سکتی ہیں۔ اس کے بدلے میں ٹی ایم سی کو کانگریس آسام  میں ۲؍اور میگھالیہ میں ایک سیٹ دے سکتی ہے۔ بایاں محاذ بھی ’انڈیا‘ اتحاد میں شامل ہے لیکن مغربی بنگال میں وہ اتحاد میں شامل نہیں رہے گی۔   
 جھارکھنڈ:
 ریاست کی ۱۴؍سیٹوں کیلئے بھی سیٹوں کی تقسیم کا معاملہ حسب سابق رہنے کی امید ہے۔ یہاں پر گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے دوران کانگریس (۷) ، جے ایم ایم (۴) ، آر جے ڈی (ایک) اور ۲؍ سیٹوں پر بابو لال مرانڈی کی جھارکھنڈ وکاس مورچہ کے امیدواروں نے قسمت آزمائی کی تھی۔ یہاں اس دوران تبدیلی یہ آئی ہے کہ ۲۰۲۰ء میں بابو لال مرانڈی نے اپنی پارٹی کو  بی جے پی میں ضم کردیا ہے۔ ایسے میں اسے ملنے والی ۲؍سیٹیں کانگریس اور جے ایم ایم میں تقسیم ہوسکتی ہیں یا پھر ان میں سے ایک سیٹ آر جے ڈی کو دی جاسکتی ہے۔
مہاراشٹر:
 یہاں کی تصویر ابھی واضح نہیں ہے ۔ یہاں پر اسمبلی میں اِس وقت کانگریس چونکہ سب سے بڑی پارٹی ہے، اسلئے وہ زیادہ سیٹوں کا مطالبہ کررہی ہے لیکن اشوک چوان اور ملند دیورا جیسے لیڈروں کے پارٹی چھوڑنے سے اس کی پوزیشن ذرا کمزور ہوئی ہے۔ پارٹی کا بھرم باقی رہے اور اندر کی ٹوٹ پھوٹ باہر نہ آئے، اسلئے کانگریس نے راجیہ سبھا الیکشن میں چندر کانت ہنڈورے کو ہی ٹکٹ دیا تھا۔ ایک خیال یہ ہے کہ کانگریس اور ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا ۲۰۔۲۰؍ سیٹوں پر الیکشن لڑسکتی ہیں جبکہ این سی پی کو ۶؍ سیٹیں اور پرکاش امبیڈکر کی ونچت بہوجن اگھاڑی اور راجو شیٹی کی سوابھیمانی پکش کو ایک ایک لوک سبھا سیٹ مل سکتی ہیں۔
آسام:
 کہا جاتا ہے کہ آسام میںمولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی ’یو ڈی ایف‘ سے بھی کانگریس کا اتحاد ہوسکتا ہے۔ کانگریس نےحالانکہ ابھی تک اس کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے لیکن اس بات کے قوی امکانات ہیں۔ ہفتے دو ہفتے میں اتحادکی تصویر واضح ہوسکتی ہے۔ ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں آسام کے ۱۴؍ پارلیمانی حلقوں میں  بی جے پی کو ۹؍ سیٹوں پر کامیابی ملی تھی جبکہ کانگریس کو ۳؍ اور یوڈی ایف کو ایک سیٹ پر جیت ملی تھی۔ اگر ووٹ کی بات کریں تو بی جے پی کو ۳۶ء۰۵؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ کانگریس کو ۳۵ء۴۴؍ فیصد اور یو ڈی ایف کو ۷ء۸؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ مطلب واضح ہے کہ اگر جماعتیں دونوں مل کر الیکشن لڑی ہوتیں تو نتائج کچھ اور ہوتے۔  
جنوبی ہند کی ریاستیں:
 کیرالامیں برسوں سے ۲؍ گروپ (کانگریس اتحاد اور بایاں محاذ) کے درمیان انتخابی جنگ ہوتی رہی ہے... فی الوقت یہ دونوں ہی گروپ انڈیا اتحاد کا حصہ ہیں،اسلئے وہاں پر مل کر الیکشن لڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔تمل ناڈو میں کانگریس اور ’ڈی ایم کے‘ کے درمیان  اچھی ہم آہنگی ہے اور آپس میں مضبوط اتحاد ہے، اسلئے وہاں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔تلنگانہ، آندھرا پردیش اور کرناٹک میں کانگریس تنہا الیکشن لڑے گی کیونکہ حکمراں جماعت سے کانگریس کا براہ راست مقابلہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK