Inquilab Logo

نتیش کمار کی کرسی تو بچ گئی لیکن پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ہے

Updated: February 18, 2024, 1:12 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

پانچ سال میں تیسری قلابازی نے نتیش کے حامیوں کو تذبذب میں مبتلاکردیا ہے، ایسے میں سیکولرطبقہ آر جے ڈی کے ساتھ اور سیکولر مخالف طبقہ بی جے پی کا دامن تھام سکتا ہے۔

JDU is currently fighting for its survival, it is threatened by both BJP and RJD and this opportunity has been provided by Nitish Kumar himself. Photo: INN
جے ڈی یو اِس وقت اپنی بقا کی جنگ کی جنگ لڑ رہی ہے، اسے بی جے پی اور آر جے ڈی دونوں ہی سے خطرہ ہےاور یہ موقع خود نتیش کمار نے فراہم کیا ہے۔ تصویر : آئی این این

بہار کے سینئر لیڈر نتیش کمار نےگزشتہ دنوں موجودہ اسمبلی میں تیسری بار قلابازی کھاتے ہوئے نویں مرتبہ وزارت اعلیٰ کاحلف اٹھایا۔ ایسا کرکے انہوں نے اپنے نام ایک ایسا ریکارڈ بنا لیا جسے توڑ پانا کسی لیڈر کیلئے آسان نہیں ہوگا۔ انہوں نے اپنی کرسی تو بچا لی لیکن ان کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ہے، اس پر دوست کیا دشمن، سبھی اتفاق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایساکیوں کیا؟ یہ اپنے آپ میں ایک معمہ ہے کیونکہ آر جے ڈی کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ان کی کرسی سلامت تھی۔ 
 بی جے پی کے ساتھ وہ کیوں گئے؟ ان پر کس طرح کا دباؤ تھا؟ یا ان کی کون سی ’نس‘ دبی ہوئی تھی؟اس کا عقدہ شاید بعد میں کھلے یا نہ بھی کھلے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی اس بار کی قلابازی سے ان کی شبیہ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ بڑے جتن کے ساتھ انہوں نے ’سوشاسن بابو‘ کے طورپر اپنی ایک پہچان بنائی تھی۔ ان کے تعلق سے یہ بات کہی جاتی تھی کہ کچھ بھی ہو، نتیش کمار بدعنوان نہیں ہوسکتے۔ گزشتہ دس برسوں میں موقع پرستی کی تمام حدیں پار کرجانے کے باوجود ان کی ایک شبیہ یہ بھی تھی کہ وہ اپنے اصولوں کے ساتھ ’سمجھوتہ‘ نہیں کر سکتے اور کسی کی ’دباؤ‘ کو خاطر میں نہیں لاتے، لیکن نویں بار کی حلف برداری نے ان کی پہچان پر ایسی کاری ضرب کی ہے کہ گزشتہ ۲۵؍برسوں میں تعمیر کیا گیا ان کا ’سوشاسن بابو‘ کا بت ایک جھٹکے میں پاش پاش ہوگیا۔ اس سے قبل وہ بدعنوانی کی بات کہہ کر بی جے پی سے اور فرقہ پرستی کی دہائی دے کر آر جے ڈی سے ہاتھ ملایا کرتے تھے.... اور مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ ان کی اس تاویل کو قبول بھی کرلیتے تھے۔ بی جے پی کے ساتھ رہتے ہوئے بھی وہ اپنے حامیوں کیلئے فرقہ پرست نہیں تھے اور آر جے ڈی کے ساتھ رہتے ہوئےبھی وہ ’بدعنوان‘ نہیں تھے۔ ان کے حامی یہی کہہ کر ان کا دفاع کرتے تھے کہ ’سمجھوتہ‘ ان کی سرشت میں شامل نہیں، اسلئے وہ اتحاد سے باہر نکل جاتے ہیں .... لیکن اس مرتبہ انہوں نے ’بلا وجہ‘ پالا بدل کر اپنے حامیوں کو بھی حیران کردیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ان کے کٹر حامی بھی ان کا دفاع نہیں کرپارہے ہیں۔ اس بار کی ان کی سیاسی قلا بازی سے ان کی ’مضبوط شخصیت‘ کی بنیاد ہل گئی ہے اور ان کی سیاسی زمین تیزی سے کھسکتی جا ر ہی ہے۔ نتیش کمار کی پارٹی کو ووٹ دینے والا وہ طبقہ جو فرقہ پرست نہیں ہے، اب آر جے ڈی کی طرف جارہا ہے تو وہ طبقہ جو لالو یادو کو پسند نہیں کرتا، بی جے پی کی طرف جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ جے ڈی یو کے ووٹ بینک پر قبضہ کرنے کیلئے آر جے ڈی اور بی جے پی دونوں ہی طرف سے کوششیں ہو رہی ہیں اور سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہوا دیکھ کربھی نتیش کمار کچھ نہیں کرپارہے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:بی جے پی کا ہدف،ووٹ ملے، نہ ملےاقتدار ملنا چاہئے

 آئیے! پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ آر جے ڈی اس سلسلے میں کیا کچھ کرسکتی ہے اور کیا کررہی ہے؟ آر جے ڈی کو پتہ ہے کہ جے ڈی یو کو ملنے والے تقریباً۲۰؍ فیصد ووٹوں میں سے ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو سیکولر ہے اور جو نتیش کمار کو بہار کی ترقی کے نام پر ووٹ دیتا ہے۔ آر جے ڈی کی یہی کوشش ہے کہ وہ اس بھرم کو توڑ دے اور لوگوں کو بتائے کہ نتیش کمار کی شبیہ کیا ہے اور وہ خود کیا ہیں۔ بہار اسمبلی میں تحریک اعتماد کے دوران اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو کی تقریر پوری طرح سے اسی حکمت عملی پر مرکوز تھی۔ ان کی تقریر کا ایک ایک لفظ اس بنیاد پر کاری ضرب تھا جس پر نتیش کمار نے اپنی ’سوشاسن بابو‘ کی شبیہ تعمیر کی تھی۔ اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔ انہوں نے غصہ کیا، نہ جھلاہٹ کا مظاہرہ کیا، نہ شکایت کی، نہ ہی کوئی الزام تراشی کی بلکہ نہایت شائستگی سے نتیش کمار کی اس شبیہ پر حملے کرتے رہے جن سے تیجسوی کومستقبل قریب میں فائدہ مل سکتا ہے۔ صرف بہار نہیں بلکہ پورے ملک کے عوام نے دیکھا کہ جس وقت نتیش کمار۱۸؍ سال میں نویں بار وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھا رہے تھے تو وہ تھکے ہوئے، الجھے ہوئے اور پریشان حال نظر آرہے تھے جبکہ ان کے مقابلے تیجسوی ایک پُرجوش اور فاتح لیڈر کی طرح ان کے خلاف تقریر کر رہے تھے۔ تیجسوی یادو نے نتیش کمار کو مخاطب کرتے ہوئے اسمبلی میں کہا کہ ’’ آپ مودی جی کو ہٹانے کیلئے ہمارے ساتھ آئے تھے۔ اب آپ کا یہ بھتیجا تنہا ہی مودی جی کے خلاف پرچم اٹھائے گا اور انہیں بہار میں روکے گا۔ ‘‘ مودی کو روکنے کی بات کہہ کر وہ لوگوں کے ذہنوں میں اُس یاد کی تازہ کررہے تھے جب ان کے والد لالو پرساد یادو نے ۱۹۹۰ء میں اڈوانی کی رتھ کو بہار میں روکا تھا۔ اس طرح سیکولر طبقے میں تیجسوی یادو نے نہ صرف نتیش کمار کی شبیہ کو مسخ کیا بلکہ بہار میں بی جے پی مخالف امیدوار کے طور پر خود کو `فیصلہ کن دعویدار کے طور پرمستحکم بھی کیا۔ 
 اس دوران تیجسوی یادو نے نتیش کمار کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والے کچھ اور نکات بھی پیش کئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’۲۰۱۷ء میں، آپ نے یہ کہہ کر ہمارا ساتھ چھوڑ دیا تھا کہ ای ڈی نے میرے خلاف بدعنوانی کا معاملہ درج کر لیا ہے لیکن ۲۰۲۲ء میں جب آپ بی جے پی سے ناطہ توڑ کر ایک بار پھر ہمارے ساتھ آئے تو کہاکہ تفتیشی ایجنسیاں جان بوجھ کر ہمارے خاندان پر شکنجہ کس رہی ہیں ۔ ‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے نتیش کی ’اصول پسندی‘ کو نشانہ بتایا۔ انہوں نےدنیا کو بتایا کہ نتیش کمار اصول کی نہیں، موقع پرستی کی سیاست کرتے ہیں ۔ اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہمارے ساتھ رہتے ہوئےآپ نے کئی بار اس طرح کاالزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی نے میڈیا پر قبضہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے آپ کی باتیں عوام تک نہیں پہنچ پارہی ہیں۔ آپ و ہ قبضہ ہٹانے چلے تھے لیکن اب تو آپ خود ہی ’قبضہ‘ ہوگئے۔ ‘‘
  تیجسوی یادو نے آر جے ڈی پر چپکائے گئے ’جنگل راج‘ کے ٹیگ سے بھی خودکو آزاد کرانے کی کوشش کی اور اس حوالے سے نتیش کے حملے کی دھار کو کند کرنے میں کامیابی بھی حاصل کی۔ بہار میں گزشتہ ایک سال میں دی گئی بڑی تعداد میں ملازمتوں کا کریڈٹ لیتے ہوئے بجا طور پر انہوں نے کہا کہ اگر یہ نتیش کمار کی بدولت ہوا ہے تو یہ کام اُن کے دور میں پہلے کیوں نہیں ہوا؟ اور پھر اگر وہ اتنی ساری ملازمتیں دینا ہی چاہتے تھے اور یہ ان کے ایجنڈے کا حصہ تھا تو ۲۰۲۰ء کے اسمبلی انتخابات کے دوران اسی بات پر وہ میرا مذاق کیوں اُڑاتے تھے؟ بہرحال نتیش کچھ بھی کہیں یا بی جے پی کوئی بھی الزام تراشی کرے لیکن سچ یہ ہے کہ بہار کے عوام جانتے ہیں کہ بہار میں جو ملازمتیں دی گئی ہیں، اس میں تیجسوی کا کردار زیادہ ہے۔ 
 ایسے میں دیکھا جائے تو آئندہ انتخابات تک وہ تمام لوگ جو نتیش کمار کو سیکولر، ایماندار، بااصول اور قابل اعتماد لیڈر کے طور پر ووٹ دیتے رہے ہیں، پوری طرح سے ان کے ساتھ نہیں رہ جائیں گے۔ تیجسوی یادو نےایک ماہر سیاست داں کی طرح انہیں سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ رہی سہی کسر بی جے پی پوری کر رہی ہے۔ جے ڈی یو کا ایک بڑا ووٹ بینک ای بی سی (انتہائی پسماندہ طقہ) ہے جس کی نمائندگی نتیش کمار کررہے ہیں اور دوسرا بڑا ووٹ بینک خاتون رائے دہندگان ہیں۔ بی جےپی نے ان دونوں ہی حصوں میں نقب لگانےکی کوشش شروع کر دی ہے۔ تیز طرار خاتون لیڈر دھرم شیل گپتا اور بھیم سنگھ کو راجیہ سبھا کیلئے نامزدگی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان دونوں ہی کا تعلق ’ای بی سی‘ سے ہے۔ 
 بہار میں نتیش کمار کی حالت کو دیکھتے ہوئے فلم’ شعلے‘ کے جیلر اسرانی یادآتے ہیں جو اپنے ساتھی اہلکاروں سے کہتے ہیں کہ آدھے اِدھر جاؤ، آدھے اُدھر جاؤ اور باقی میرے ساتھ آؤ۔ آئندہ انتخابات تک نتیش کمار کے حامی بھی آدھے تیجسوی کے ساتھ اور آدھے بی جے پی کے ساتھ جاسکتے ہیں۔ 

جنتادل متحدہ اورنتیش کمار کا عروج و زوال
 ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۰ء تک نتیش کمار کے عروج کا دور تھا جب لگاتار ۴؍ اسمبلی انتخابات میں ان کی پارٹی کا گراف نہایت تیزی سے بلندی کی جانب پیش رفت کررہا تھا۔ ۲۰۰۰ء میں ۶ء۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ان کی پارٹی کو ۲۱؍ سیٹیں ملی تھیں جو ۲۰۰۵ء میں بڑھ کر۱۴ء۵۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۵۵؍ سیٹ تک پہنچ گئی۔  ۶؍ ماہ دوبارہ الیکشن ہوا تو نتیش کمار کی پارٹی کو ۲۰ء۴۶؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۸۸؍ سیٹیں مل گئیں۔ اس کے بعد ۲۰۱۰ء میں  ووٹ فیصد ۲۲ء۵۸؍ تک پہنچا توسیٹوں کی تعداد بڑھ کر ۱۱۵؍ ہوگئی۔ جے ڈی یو کی بہترین کارکردگی تھی۔ اُس سے ایک سال قبل ۲۰۰۹ء میں  لوک سبھا میں جے ڈی یو کو بہار سے ۲۰؍ سیٹیں ملی تھیں، یہ بھی اس کی آج تک کی بہترین کارکردگی ہے۔یہیں سے جے ڈی یو کے زوال کا آغاز ہوتا ہے۔ ۲۰۱۵ء کے اسمبلی انتخابات میں   ۷۱؍ سیٹیں ملیں جبکہ۲۰۲۰ء میں وہ محض ۴۳؍ سیٹوں پر سمٹ گئی۔  ۲۰۲۲ء میں وہ یہی کہہ کر بی جے پی اتحاد سے باہر نکلتے تھے کہ زعفرانی پارٹی ان کی پارٹی کو کمزور کررہی ہے اور اسمبلی میں اپنی پارٹی کی خراب کارکردگی کیلئےبھی انہوں نے بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔    انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ جے ڈی یو کو کمزور کرنے کیلئے بی جے پی نے چراغ پاسوان کو میدان میں اُتارا تھا۔ آج وہ ایک بار پھر بی جے پی کے خیمے میں چراغ پاسوان کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK