Inquilab Logo

اُٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں

Updated: April 10, 2021, 4:30 PM IST | Shahid Latif

اتنی اموات موجودہ دور کے لوگوں نے کبھی دیکھی تھیں نہ ہی ایسا کچھ سنا تھا۔ ہم عجیب و غریب دور میں ہیں۔ موت کا ایک دن معین ہے مگر سانحاتِ موت اپنے آپ میں بڑا سانحہ ہیں۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

گزشتہ سال جب کورونا عروج پر تھا تب بھی کم و بیش دو ماہ ایسی ہی کیفیت میں گزرے تھے۔ اب ایک بار پھر وہی حالات ہیں۔ ایک دن میں کئی کئی اموات معمول بن گئی ہیں۔ سوچئے تو ذہن ماؤف ہوجاتا ہے۔ کیسی کیسی شخصیتیں اُٹھ گئیں۔ آتش ؔ کے الفاظ میں ’’اُٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں!‘‘ پچھلے سال اور رواں سال میں داعیٔ اجل کو لبیک کہنے والوں کی فہرست مرتب ہو تو محسوس ہوگا کہ زمیں اتنے آسماں کھا گئی کہ ایسا لگتا ہے جیسے دُنیا بے آسماں ہوگئی ہے۔ اِس دور میں موجود کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ اُس نے مختصر عرصے میں اتنی ساری اموات دیکھی ہیں۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب کورونا کا نتیجہ نہیں ہے۔ ان میں بہت سی بالکل فطری موتیں ہیں مگر یہ وائرس نجانے کیوں ہر موت کو اپنے نام لکھوانے پر اتنا بضد ہے کہ اس کے سائے میں نہ تو شوگر سے کسی کی موت ہورہی ہے نہ ہی بلڈ پریشر سے، کینسر، ٹائیفائڈ، برڈ فلو، سوائن فلو، یرقان وغیرہ سے بھی کوئی فوت نہیں ہورہا ہے۔ ہر موت کورونا کے کھاتے میں درج ہورہی ہے۔ حیرت ہے۔ اب تک دُنیا میں جتنے وائرس نمودار ہوئے سب چھپتے تھے، اپنے ہونے کا اعلان نہیں کرتے تھے۔ طبی ماہرین ان کی شناخت کرلیتے تو ان کا شہرہ ہوتا تھا، اُنہیں انعام، اکرام اور خطاب سے نوازا جاتا تھا مگر یہ وائرس بالکل مختلف ہے۔ یہ چھپتا نہیں اعلان کرتا ہے،ببانگ دُہل کرتا ہے اور موت کو اپنے نام لکھوا لیتا ہے۔ ایسا کیوں ہے، اس راز پر سے پردہ اُٹھے نہ اُٹھے، اتنی اموات کبھی بھلائی نہیں جاسکیں گی، میر ؔ سے استفادہ کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایسا بھاری ہے جو شاید ہی کسی ناتواں سے اُٹھے۔ اور اس دُنیائے رنگ و بو ‘میں کون ہے جو ناتواں نہیں!
 اس دوران ہونے والی بیشتر اموات ایسی ہیں جو عام دنوں میں ہوتیں تو ان پر کئی کئی دن اظہارِ رنج و غم ہوتا۔ اب عالم یہ ہے کہ لوگ ایک موت پر دل تھام نہیں پاتے ہیں کہ دوسری موت کی اطلاع آجاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موت برحق ہے اور کسی دُور افتادہ علاقے میں جاکر چھپ جائیے، موت کا فرشتہ ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر وہاں بھی پہنچ جائیگا۔اس کے باوجود موت کا غم ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والا خلاء بھی کبھی پُر نہیں ہوتا، یہ الگ بات کہ یہ اسی وقت محسوس ہوتا ہے جب کسی کی موت واقع ہوتی ہے۔ غم تازہ ہوتا ہے تو خلاء بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بعد جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، انسان اس کی موجودگی کو بھولتا جاتا ہے۔ کروڑوں میل پر پھیلی ہوئی اس دُنیا میں ایسے کروڑوں اربوں خلاء ہیں جو کبھی پُر نہیں ہوئے مگر زمانے کی یادداشت سے محو ہوگئے۔ چھوٹا بڑا، ادنیٰ اعلیٰ، معروف غیر معروف ہر شخص اپنے آپ میں ایسی اکائی ہوتا ہے کہ اُس جیسا دوسرا کوئی نہیں ہوتا۔ اسی لئے اُس کی رخصتی سے پیدا ہونے والا خلاء پُر نہیں ہوتا۔ چاہے وہ چھوٹا خلاء ہو یا بڑا۔ کسی انسان کے دس بیٹے پیدا ہوجائیں مگر ان میں سے کوئی ایک بھی باپ کے خلاء کو پُر نہیں کرتا۔اسی لئے موت چاہے جتنی برحق ہو، اس کے تئیں ناپسندیدگی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ موت کو ایک ظالم شے کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے ہنستے کھیلتے گھر ماتم کدہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔موت کے ناپسندیدہ تصور کئے جانے کا ایک ثبوت اُردو شاعری میں موت پر کہے گئے اشعار بھی ہیں۔ جوش کی ایک نظم کے مصرعے ہیں:
یہ سیہ رو‘ آن میں دن کو بنا دیتی ہے رات
 اس کے اک جھونکے سے بجھ جاتی ہے قندیل حیات
 آہ اس کا شامیانہ سسکیاں اس کی قنات
 اس کے ناہموار کاندھوں پر نکلتی ہے برات
 مسکرا کر آنسوؤں کے تار پر گاتی ہے موت
ہچکیوں کی گونج میں پازیب جھنکاتی ہے موت
اگر موت کے تعلق سے بے بسی کا اظہار کیا گیا تو کبھی کبھی جھلاہٹ بھی در آئی۔ اس وقت یاد نہیں آرہا ہے کہ کس شاعر کا شعر ہے مگر اس کا ایک مصرعہ ’’یہ بھی کیا تُک ہے کہ اک دن سبھی کو مرنا ہے‘‘ ناپسندیدگی اور جھلاہٹ ہی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ موت، زندگی کی ہنگامہ خیزی، جوش و خروش، ذوق عمل، حسن عمل، سب کچھ چھین لیتی ہے۔ اس کے بعد دفتر بند ہوجاتا ہے جبکہ انسان اُسی وقت تک کچھ کرسکتا ہے جب تک دفتر کھلا رہتا ہے۔ اس کے بعد وہ نہ تو چاہ سکتا ہے کہ کچھ کرے نہ ہی کچھ کرسکتا ہے۔
  اسی لئے زندگی کے ایک ایک لمحہ کی قدر کرنے کی صلاح دی جاتی ہے۔ اسی لئے ہر ساعت کو غنیمت جاننے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ دُنیا میں بہت سے لوگ ایسے گزرے ہیں جنہیں زندگی کی قندیلیں بجھتی نظر آئیں تو وہ زیادہ فعال ہوگئے اور فیصلہ کیا کہ جتنا وقت بچ گیا ہے، اُسے زیادہ سے زیادہ تعمیری اور یادگار کاموں میںصرف کریں۔ اس کالم میں گزشتہ ہفتے ایک ایسی طالبہ عائشہ چودھری کی روداد بیان کی گئی تھی جس نے موت کو قریب آتا دیکھا تو زندگی کو پوری طاقت سے بھینچ لیا اور گزرنے والے ایک ایک منٹ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ مند بنانے کی کوشش کرنے لگی۔ اس نے کتاب لکھی۔ ترغیبی لیکچر س دیئے اور اپنی ان سرگرمیوں کے ذریعہ پیغام دیا کہ جس کے پاس جتنا کم وقت ہوتا ہے اُسے اتنا زیادہ فعال ہونا چاہئے۔ اور یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ کوئی نہیں جانتا کہ اُس کے پاس کتنا وقت ہے۔ 
 چونکہ دُنیا سے جانے والوں سے گفتگو نہیں ہوسکتی اور بڑے سے بڑا اینکر اُنہیں انٹرویو نہیں کرسکتا اس لئے کبھی کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ آخری وقت میں اُن کی دلی کیفیات کیا تھیں مگر ایسا لگتا ہے کہ جس نے جتنی فعال اور کارآمد زندگی گزاری اور اس دارالعمل کو حسن عمل سے جس قدر منور کیا، اُس نے اپنے آخری لمحات میں اُتنی ہی طمانیت محسوس کی۔ اسی کو اقبال نے کہا تھا ’’چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست‘‘۔ اس مقامِ ِاعلیٰ و ارفع تک پہنچنے کی خواہش اور کوشش کی ابتداء میں ایک عملی مشق یہ ہوسکتی ہے کہ انسان کسی دن سب کاموں سے فارغ ہو اور قلم کاغذ لے کر اپنے گزشتہ چوبیس گھنٹوں کا جائزہ لے کہ اس نے کس کام پر کتنا وقت صرف کیا۔ اس کے بعد محاسبہ کرے کہ چوبیس گھنٹوں کے ۱۴۴۰؍ منٹ میں کتنے منٹ ایسے گزرے کہ جن سے آخری لمحوں میں چہرے پر مسکراہٹ کھیل جانے کی اُمید پیدا ہوتی ہے۔ یہ مضمون نگار تو اِس حساب ِسود و زیاں میں خسارہ میں ہے، آپ؟n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK