Inquilab Logo

مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں

Updated: July 14, 2021, 6:42 PM IST | Parvez Hafeez

اسلام آباداب یہ چاہتا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات افغانستان کے حصار سے باہر نکلیں۔ پاکستان کی خستہ حال معیشت کاکورونا کی ہلاکت خیزیوں نے بیڑہ ہی غرق کردیا ہے۔عمران خان کی تمنا ہے کہ امریکی سرمایہ ملک میں آئے تاکہ اقتصادی اور تجارتی ترقی ہو اور وزگار کے مواقع پیدا ہوں۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو امریکہ سے کافی شکایتیں ہیں جن کا ا ظہار وہ میڈیا انٹرویو ز، تقریروں، امریکی اخباروں کے اپنے مضامین، یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں اپنے خطاب میں برملا کررہے ہیں۔ جون کے اواخر میں بجٹ کے دوسرے دن قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عمران امریکہ پر جم کر برسے اور چین کی جی بھر کے تعریف کی۔ ۲۰۰۱ء  میں امریکہ کی وار آن ٹیرر میں پاکستان کی شرکت اور افغانستان کی جنگ میں نیٹو افواج کی مدد کو عمران نے ملک کی ’’ تاریخ کا سیاہ ترین دور‘‘ قرار دیتے ہوئے عہد کیا کہ پاکستان اب کسی پرائی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔
 واشنگٹن پوسٹ کے ایک ادارتی مضمون میں عمران نے واضح کردیا کہ افغانستان میں کسی کارروائی کے لئے مستقبل میں وہ پاکستان میں کوئی امریکی فوجی اڈہ قائم کرنے نہیں دیں گے۔ عمران نے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی ملٹری طاقت ہونے اور افغانستان پر بیس برس طویل تسلط کے باوجود اگر امریکہ یہ جنگ نہیں جیت سکا تو بھلا پاکستانی اڈوں سے وہ اسے کیسے جیت سکے گا۔ ایک امریکی صحافی کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا القاعدہ، داعش یا طالبان کے خلاف مستقبل میں کسی کارروائی کے لئے پاکستان ا مریکہ کو اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت دے گا، عمران نے قطعیت سے کہا:’’ ہر گز نہیں۔‘‘ ان کے اس دو ٹوک Absolutely Not کے اعلان پر تحریک انصاف کے لیڈران عمران پر واری واری جارہے ہیں اورحکومت نواز میڈیابھی امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنے کے لئے کپتان کی پیٹھ تھپتھپارہے ہیں۔
 عمران امریکہ سے اس لئے روٹھے ہیں کیونکہ افغان جنگ میں دودہائیوں تک دامے درمے سخنے امریکی اور نیٹو افواج کی مدد کرنے، ستر ہزار پاکستانی فوجیوں اور شہریوں کی جانیں گنوانے،۱۵۰؍ بلین ڈالر کا خسارہ اٹھانے اور شورش زدہ افغانستان کی دلدل میں پھنسی امریکی افواج کو باعزت اور بحفاظت گھر کا راستہ فراہم کرنے کے باوجود، امریکہ نے ان بیش قیمت ’’ قربانیوں‘‘ کا خاطر خواہ صلہ پاکستان کو نہیں دیا۔ جوبائیڈن نے عمران کا شکریہ ادا کرنا تو دور جھوٹے منہ ہائے ہیلو تک نہیں کہا۔ بائیڈن کو وہائٹ ہاؤس میں سکونت پذیر ہوئے سات ماہ ہونے والے ہیں لیکن انہوں نے امریکہ کے فرنٹ لائن حلیف کے سربراہ کو ایک فون کال کے قابل بھی نہیں سمجھا۔ عمران نے تو نئے امریکی صدر کی اس بے اعتنائی کو بھی یہ کہہ کر نظر انداز کردیا کہ بائیڈن کی فی الحال دلچسپیاں اور ترجیحات کہیں اور ہیں لیکن ان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے اپنے اس ردعمل سے کہ پاکستان بائیڈن کے فون کال کے انتظار میں مرا نہیں جارہا ہے، دنیا پر آشکارا کردیا کہ پاکستان امریکی نگاہ التفات کے لئے واقعی مرا جارہا ہے۔
 ماحولیاتی تبدیلی پر اپریل میں منعقد کی گئی ایک سربراہی کانفرنس میں واشنگٹن نے انڈیا اور بنگلہ دیش تک کو مدعو کیا لیکن پاکستان کا نام پہلے گیسٹ لسٹ سے غائب تھا۔جب عمران خان اور میڈیا نے امریکہ کے اس سوتیلے رویے پر غم و غصے کا اظہار کیا تو کانفرنس سے محض تین چار دن قبل وزیر اعظم کے خصوصی معاون ملک امین اسلم کو دعوت نامہ بھیج دیا گیا۔لیکن اقوام عالم کے سامنے پاکستان کی جو سفارتی سبکی ہونی تھی وہ ہوگئی۔
  واشنگٹن اور اسلام آباد کے رشتوں میں دوریوں کی ایک اہم وجہ اسلام آباد اور بیجنگ کی قربتیں بھی ہیں۔ چونکہ امریکہ کی نظر میں خطے میں  ہندوستان ہی چین کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لئے بائیڈن مودی جی کی’’ اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کو نظر انداز کرکے نئی دہلی سے زیادہ قریب آرہے ہیں۔
  اسلام آباد میں یہ دیرینہ تاثر رہا ہے کہ وہائٹ ہاؤس میں ڈیموکریٹ صدر کی بہ نسبت ریپبلیکن صدر کی موجودگی ملک کے مفاد کے لئے بہتر ثابت ہوتی ہے۔ اوبامہ کے دور حکومت میں افغانستان ایشو پر پاکستان کو کافی تلخ تجربات سے گزرنا پڑا تھا۔ امریکی بحریہ نے پاکستان کی سیاسی قیادت اور فوج کو اندھیرے میں رکھ کر جس طرح ایبٹ آباد میں اوسامہ بن لادن کو ہلاک کیا وہ پاکستانی خود مختاری کے لئے ایک شرمناک تازیانہ سے کم نہ تھا۔یاد رہے کہ اس وقت بائیڈن نائب صدر تھے۔عمران کو توقع تھی کہ صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد پاکستان کے تئیں بائیڈن کے رویے میں بہتری آئے گی۔ اسلام آباداب یہ چاہتا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات افغانستان کے حصار سے باہر نکلیں۔ پاکستان کی خستہ حال معیشت کاکورونا کی ہلاکت خیزیوں نے بیڑہ ہی غرق کردیا ہے۔عمران خان کی تمنا ہے کہ امریکی سرمایہ ملک میں آئے تاکہ اقتصادی اور تجارتی ترقی ہو اور وزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ بائیڈن اگر ایک اشارہ کردیں تو IMF پاکستان کو وہ ۶؍بلین ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج فراہم کردے جو ملک کی اکانومی میں نئی روح پھونک سکتا ہے۔ اسی لئے نیو یارک ٹائمز کو دیئے گئے حالیہ انٹرویو میں عمران نے کہا کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ امریکہ کے ساتھ اس کے ویسے ہی مہذبانہ، مساویانہ اورمتوازن رشتے ہوں جیسے امریکہ کے  ہندوستان کے ساتھ ہیں۔انہوں نے واشنگٹن کو یاد دہانی بھی کرائی کہ پاکستان دہشت گردی مخالف امریکی جنگ میں پارٹنر تھا اور یہ بھی کہ خطے کے دوسرے ممالک خصوصاً ہندوستان کی بہ نسبت امریکہ کے ساتھ پاکستان کے زیادہ قریبی رشتے رہے ہیں۔قصہ مختصر یہ کہ پاکستان اس وقت خود کو ٹھگا ہوا محسوس کررہا ہے اور عمران بائیڈن کو یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں۔ 
  حالانکہ ٹرمپ نے  بھی ۲۰۱۸ء  میں پاکستان کو دی جانے والی ۶ء۱؍بلین ڈالر کی فوجی امداد منسوخ کردی تھی لیکن ایک سال بعد انہوں نے وہائٹ ہاؤس میں عمران خان کی کافی آؤ بھگت کی۔ عمران کے امریکہ دورے سے دونوں ممالک کے رشتے بہتر ہوئے۔ یوں تو پاکستان اور امریکہ کے دیرینہ رشتے رہے ہیں لیکن نائن الیون کے بعد جب صدر بش نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز کیا تودونوں ملک ایک مضبوط لیکن مشکل بندھن میں بندھ گئے اور نیٹو کے اراکین کے بعد پاکستان، امریکہ کا سب سے قریبی اسٹریٹجک حلیف بن بیٹھا۔ سوال یہ ہے کہ اب جب امریکہ افغانستان سے رسی تڑا کر بھاگ رہا ہے تو کیا اس کیلئے  پاکستان کی کوئی اسٹریٹجک اہمیت یا افادیت باقی رہے گی؟معروف امریکی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی ایکسپرٹ لیزا کرٹس کے مطابق اسٹریٹجک پارٹنرزکیلئے مشترکہ اسٹریٹجک مفادات لازمی ہیں جبکہ اس وقت افغانستان اور چین جیسے اہم ایشوز پر واشنگٹن اور اسلام آباد کے نظریات اور مفادات میں کوئی ہم آہنگی نظر نہیں آرہی ہے۔ زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ عمران کی واشنگٹن سے خفگی کے برقرار رہنے کا امکان ہے کم از کم اس وقت تک جب تک وہائٹ ہاؤس سے انہیں فون کال نہ آجائے۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK