• Fri, 24 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

دیر آید درست آید!

Updated: September 24, 2025, 1:50 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

ایسا ہرگز نہیں سمجھنا چاہئے کہ مغرب میں اس وقت فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا گیا کیونکہ غزہ میں جاری قتل عام برطانیہ،فرانس اور کینیڈا کے سربراہوں کو خون کے آنسو رلا رہا ہے۔اگر ایسا ہوتا تو پہلے غزہ کی نسل کشی رکوائی گئی ہوتی۔ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنا نسبتاًآسان کام تھا سو انہوں نے یہ کردیا۔ ویسے بھی یہ مغرب کا کوئی تاریخی اقدام نہیں ہے بلکہ تاریخی غلطی کی اصلاح ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال کے بعد فرانس نے بھی فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا۔ بلجیم، لگژمبرگ،مالٹا، اینڈورا اور سین میرینو کے نام بھی فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک کی فہرست میں  شامل ہوگئے۔ فلسطین کو بطور ایک آزاد ریاست تقریباً ۱۵۰؍ممالک تسلیم کرچکے ہیں ۔ اب دیگر مغربی ممالک بھی دیر سے ہی سہی لیکن اسی راستے پر گامزن نظر آرہے ہیں ۔ اگر یہ روش برقرار رہی تو بہت جلد ۱۹۳؍ میں  شاید صرف اسرائیل اور امریکہ دو ایسے ممالک بچیں  گے جنہیں  فلسطینی ریاست کسی قیمت پر قابل قبول نہیں  ہے۔پیر کے دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس دھماکے کے ساتھ شروع ہوا۔ اجلاس کا آغاز فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ کاوشوں  سے منعقد کی گئی ایک منفرد کانفرنس سے ہوا جس میں  مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی عالمی لیڈروں  نے پرزور وکالت کی۔ دنیا کو اس بات پر حیرت نہیں  ہوئی کہ اسرائیل اور امریکہ نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا کیونکہ اسے یہ بخوبی علم ہے کہ دو برسوں  سے غزہ میں  نسل کشی کس نے جاری رکھی ہے اور کس کی شہ پر جاری رکھی ہے۔ 
برطانیہ،فرانس، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے امریکہ اور اسرائیل کے قریبی اتحادی ممالک کے ذریعہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے سے اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو تلملااٹھے اور یہ الزام لگا دیا کہ ان ممالک کا یہ اقدام ’’ دہشت گردی کو انعام سے نوازنے‘‘کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو غطریس نے اپنی تقریر میں  اس مضحکہ خیز الزام کو مسترد کرتے ہوئے اقوام عالم کو یہ باور کرادیا کہ ایک آزاد خودمختارریاست ’’فلسطینیوں  کا حق ہے انعام نہیں  ۔‘‘
آج تل ابیب اور واشنگٹن دونوں  کی شرانگریزی کی وجہ سے مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل ایسی منزل نظر آتا ہے جہاں  پہنچنا دشوار ہے لیکن تاریخی حقیقت یہ ہے کہ اسی دوریاستی حل پر ہی اوسلو امن معاہدہ کی بنیاد رکھی گئی تھی جسے امریکہ نے ۱۹۹۳ء میں  فلسطینیوں  اور اسرائیل کے درمیان کروایا تھا۔ وہائٹ ہاؤس میں  صدر بل کلنٹن کی نگرانی میں  اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن اور فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے اس معاہدے پر دستخط کئے تھے۔لیکن اسرائیل اور امریکہ کی نیتوں  میں  تو شروع سے ہی کھوٹ تھا اسی لئے فلسطینی ریاست کا خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں  ہوسکا۔ سوال یہ ہے کہ جب فلسطینیوں  نے ۱۹۹۳ء میں  ہی اسرائیل کو تسلیم کرلیا تو انہوں  نے یہ مطالبہ کیوں  نہیں  کیا کہ اسرائیل، امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک بھی علامتی طور پر ہی سہی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیں ۔ 
 ایسا ہرگز نہیں  سمجھنا چاہئے کہ مغرب میں  اس وقت فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا گیا کیونکہ غزہ میں  جاری قتل عام برطانیہ،فرانس اور کینیڈا کے سربراہوں  کو خون کے آنسو رلا رہا ہے۔اگر ایسا ہوتا تو پہلے غزہ کی نسل کشی رکوائی گئی ہوتی۔ غزہ میں  ابھی تک جنگ بندی اس لئے نہیں  ہوئی کیونکہ ان نام نہادمہذب ممالک نے کبھی خلوص نیتی سے کوشش ہی نہیں  کی۔ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنا نسبتاًآسان کام تھا سو انہوں  نے یہ کردیا۔ ویسے بھی یہ مغرب کا کوئی تاریخی اقدام نہیں  ہے بلکہ تاریخی غلطی کی اصلاح ہے۔یہ اصلاح کرنے پر بھی کیئر اسٹارمر، ایمانویل میکرون، مارک کارنی اور انٹونی البانیز جیسے سربراہان اسلئے مجبور ہوئے کیونکہ ان کے عوام کے دلوں  میں  غزہ میں  انسانیت کے قتل سے شعلے بھڑک اٹھے ہیں ۔ پچھلے دو برسوں  سے لندن، پیرس، مانٹریل، پرتھ،سڈنی، نیویارک، شکاگواور درجنوں  شہروں  میں  لوگ سڑکوں  پر اتر کر فلسطینیوں  کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت میں  ریلیاں  نکال رہے ہیں  اور غزہ میں  نسل کشی رکوانے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ فرانس کی پیش رفت کے باوجود جب اٹلی نے فلسطین کو تسلیم نہیں  کیا تو پورے ملک میں  غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔جس وقت میں  یہ کالم مکمل کررہا ہوں  اٹلی کے درجنوں  شہروں  میں  عوام وزیر اعظم جارجیا میلونی کے فیصلے کے خلاف پر تشدد احتجاج کررہے ہیں ۔ امریکہ اور یورپ کے قد آور دانشور، صحافی، ناول نگار، فنکار، مصور، کھلاڑی، راک اسٹار، باکسر جنہیں  اپنے اپنے ملک میں icons سمجھاجاتا ہے اور جن کے لاکھوں  فین ہیں  ان لوگوں  نے عالمی اسٹیج پر فلسطین کی آزادی کیلئے اپنی آواز بلند کی اور فلسطین کے پرچم لہرائے۔اس عوامی دباؤ کے آگے یورپی رہنماؤں  کو جھکنا پڑا اور فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرنا پڑ۔ ان رہنماؤں  کی یہودی نوازی کی ایک دیرینہ تاریخ رہی ہے اسلئے ان سے فلسطینیوں  سے ہمدردی کی توقع فضول ہے۔مسئلہ فلسطین جنم ہی نہیں  لیتا اگر برطانیہ اور فرانس نے ایک سازش کے تحت دنیا بھر کے یہودیوں  کو سرزمین فلسطین پر لاکر بسانے کے صہیونی منصوبے کی پوری طرح حمایت اور سرپرستی نہ کی ہوتی۔ 
 اس وقت بھی غزہ میں  فلسطینیوں  کا قتل عام جاری ہے اور صہیونی آبادکار مغربی کنارے کو مکمل طور پر ہڑپنے پر آمادہ ہیں ۔ برطانوی روزنامہ دی گارجین نے اپنے اداریہ میں  لکھا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ فلسطینیوں  کے قتل عام کو روکنے کے لئے کی گئی کسی معنی خیز کاروائی کی عدم موجودگی میں  سنگدلانہ بھی ہے بزدلانہ بھی اور پرفریب بھی۔فرانس کے صدر میکرون نے بھی یہ اعتراف کیا کہ آج کی سب سے اہم ضرورت غزہ میں  جنگ کا خاتمہ اور شہری آبادی کا تحفظ ہے تو پھر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک ایسے اقدام کیوں  نہیں  کررہے ہیں  جن کی وجہ سے غزہ میں  جاری قتل عام روکا جا سکے۔ یورپی سربراہان کیوں  نہیں  یہ اعلان کرتے ہیں  کہ آئی سی سی کے ذریعہ جاری کئے گئے وارنٹ پر عملدر آمد کرتے ہوئے وہ نیتن یاہو کو گرفتار کرلیں  گے؟ یوکرین جنگ کی پاداش میں  ولادیمیر پوتن کے متعلق تو انہوں  نے یہ اعلان کرنے میں  دیر نہیں  کی تھی۔ نیتن یاہو کو گرفتار کرنا اگر ان کے بس کی بات نہیں  ہے تو کم از کم برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا اسرائیل کو تمام تجارتی، سیکوریٹی اورعسکری تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دے کر ہی دکھائیں  ورنہ دنیا یہی کہے گی کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان مغرب کی روایتی ریاکاری کے سوا اور کچھ نہیں ۔

یہ بھی پڑھئے : یو پی میں بی ایس پی طاقت کے مظاہرہ کیلئے تیار

  میرے تمام تحفظات کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا برطانیہ، فرانس اور کینیڈا جیسے ممالک کافیصلہ صحیح سمت میں  اٹھایا گیا قدم ہے خواہ اس کے پیچھے جو بھی عوامل کارفرماہوں  اور خواہ یہ قدم اٹھانے میں  انہوں  نے کافی دیر کیوں  نہ کردی ہو۔ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرکے ان ممالک نے فلسطینیوں  کے حق خود ارادیت پر مہر بھی ثبت کی ہے اور نظریہ فلسطین کو ہمیشہ کے لئے دفن کردینے کی صہیونی سازش کو بڑا جھٹکا بھی دیا ہے۔ 

palestine Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK