Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیاٹرمپ نوبل انعام کے مستحق ہیں؟

Updated: July 23, 2025, 1:48 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

امن کا نوبل انعام حاصل کرنا امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دیرینہ خواہش ہے لیکن وہ امن کے رکھوالے ہر گز نہیں ہیں، امن ان کیلئے صرف ایک کھوکھلاسا لفظ ہے، وہ نسل پرستی اور نفرت پر مبنی سیاست کے علمبردار ہیں اور جس امن کی بات کرتے ہیں وہ قبرستان کاامن ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

پرانے زمانے میں  جب کوئی زمینداربادشاہ کے دربار میں  کسی حاجت روائی کے لئے حاضر ہوتا تھا تو اس کی خدمت میں  قیمتی نذرانے پیش کرتا تھا۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو جب حال میں  وہائٹ ہاؤس میں  دور حاضرہ کے شہنشاہ اعظم ڈونالڈ ٹرمپ کی قدم بوسی کے لئے آئے تو انہوں  نے اس خط کی کاپی ٹرمپ کو پیش کی جو انہوں  نے نوبل پرائز کمیٹی کو بھیجی تھی جس میں  ٹرمپ کو اگلے نوبل پیس پرائز کے لئے نامزد کیا گیا تھا۔ ٹرمپ کے لئے اس سے بیش قیمت نذرانہ کچھ اور نہیں  ہوسکتا تھا۔ٹرمپ کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں  ہے تاہم ایک محرومی انہیں  ہر وقت ستاتی رہتی ہے۔ٹرمپ کو نوبل انعام برائے امن کا بہت ارمان ہے۔ وہ برسوں  سے اس انعام کے حصول کے لئے تڑپ رہے ہیں ۔سال رواں  کے جنوری میں  وہائٹ ہاؤس میں  دوبارہ داخل ہونے کے بعد ٹرمپ نے متعدد بار نوبل پیس پرائز کی اپنی تمنا کا برملا اظہار کیا ہے۔ اب تو امریکی صدر یہ شبہ بھی ظاہر کرنے لگے ہیں  کہ انہیں  نوبل پیس پرائز کبھی بھی نہیں  دیا جائے گا جبکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اس انعام کے مستحق ہیں ۔
میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ ٹرمپ اس عظیم اعزاز کے مستحق کیسے ہوسکتے ہیں ۔ پچھلے سال اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں  نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ دوسری بار صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے چوبیس گھنٹوں  کے اندر وہ یوکرین کی جنگ بند کروادیں  گے۔ جنگ آج تک جاری ہے۔ اب ٹرمپ نے روسی صدر ولادی میر پوتن کو ایک نئی دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں  نے ۵۰؍ دنوں  کے اندر جنگ ختم نہیں  کی تو روس پر ۱۰۰؍فیصد ٹیرف عائد کردیں  گے۔ جہاں  تک غزہ کا تعلق ہے توٹرمپ نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق جنوری میں  وہاں  سیز فائر کرواتو دیا لیکن نیتن یاہو نے جب چند ہفتوں  میں  اس کی دھجیاں  اڑاکر فلسطینیوں  پر دوبارہ بمباری شروع کردی تو وہ خاموش تماشائی بن گئے۔ غزہ میں  اکیس ماہ سے قتل عام کا جاری رہنا بھی ٹرمپ کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ نوبل انعام کے ان کے سپنوں  کے محل کی بنیاد یوکرین اور غزہ کی جنگ بندیوں  پر ہی رکھی گئی تھی۔ جب یہ سپنے سچ نہیں  ہوئے تومئی میں  ٹرمپ کو بھارت۔ پاکستان کی مختصر جنگ میں  نوبل انعام کے حصول کا ایک نیا موقع نظر آیا۔ وہ بار بار بھارت۔پاک جنگ کے سیز فائر کا کریڈٹ لینے لگے۔

یہ بھی پڑھئے : ہاں،ذرا ایک نظر اپنے پڑوسی پر بھی

جنگ رک جانے پر پاکستان کی جان میں  جان آئی اور اس نے اظہار تشکر کے طور پر ٹرمپ کو نوبل پرائز کے لئے نامزد کردیا۔ ٹرمپ اس خبر سے اس قدر شادماں  ہوگئے کہ ’’آئی لو پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے فوجی سربراہ عاصم منیر کو وہائٹ ہاؤس میں  ظہرانے پر مدعو کرلیا۔ٹرمپ بار بار یہ دعویٰ کرتے رہے کہ جنوبی ایشیا میں  جنگ بندی انہوں  نے کروائی ہے اور ہندوستان بار بار ان کے دعوے کو مسترد کرتا رہا۔ دریں  اثنا نیتن یاہو کو محسوس ہوا کہ ٹرمپ ان سے قدرے بے اعتنائی برت رہے ہیں  تو انہیں  ایک ترکیب سوجھی۔ انہوں  نے ٹرمپ کو سمجھایا کہ نوبل انعام کی ان کی دعوے داری مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے انہیں  کوئی بڑا کارنامہ انجام دینا ہوگا۔دراصل ٹرمپ کو شیشے میں  اتار کر نیتن یاہو اپنے دیرینہ مذموم ارادے کی تکمیل کی راہ ہموار کررہے تھے۔ ایران کے جوہری تنصیبات پر بمباری کرکے نیتن یاہو کے کلیجے میں  ٹھنڈک پڑ توگئی لیکن جب ایران کے میزائیل اسرائیل کے مضبوط دفاعی سسٹم کی پول کھولتے ہوئے تل ابیب اور حیفہ پر آگ برسانے لگے اور جب آئرن ڈوم ایران کے عزائم کے سامنے بے بس نظر آنے لگا تو نیتن یاہو نے منتیں  کرکے ٹرمپ کو بھی جنگ میں  کودنے کے لئے آمادہ کرلیا۔ امریکہ نے بھی ایرانی جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا دعویٰ کردیا اور ساتھ ساتھ سیز فائز کا اعلان بھی کردیا۔ ایسا لگا جیسے ریفری نے گیم شروع ہوتے ہی سیٹی بجاکر گیم کے خاتمے کا اعلان کردیا ہو۔ در اصل پورا کھیل تو نوبل انعام کے لئے ماحول تیار کرنے کا تھا۔بلی اس وقت تھیلے سے باہر آگئی جب نیتن یاہو نے ٹرمپ کو نوبل انعام کے لئے نامزد کردیا۔ اسرائیل کو ایران پر بلااشتعال حملہ کرنے کی ہر ی جھنڈی دکھاکر اور پھر خود امریکہ کو جنگ میں  جھونک کر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کو ہی نہیں  پوری دنیا کے امن کو خطرے میں  ڈال دیا۔ اس شر انگیزی کے بعد نوبل انعام برائے امن کی عوے داری پیش کرنے کے لئے نیتن یاہو اور ٹرمپ کی طرح موٹی چمڑی کی ضرورت ہے۔ شاید اس طرح پلان بناکر کسی نے بھی نوبل انعام حاصل کرنے کی کوشش نہیں  کی ہوگی۔پہلے ایک غیر ضروری جنگ شروع کریں ، بمباری کرکے ہزاروں  بے گناہ شہریوں  کا ناحق قتل کروائیں ، عمارتیں ، اسکولوں  اور اسپتالوں  کو تباہ کریں  اور پھر بمباری روک کر یہ اعلان کردیں  کہ"Now is the time for peace"۔ پھر اپنے حاشیہ برداروں  کے ذریعہ نوبل انعام کے لئے خود کو نامزد کروائیں ۔ یہ پوری صورتحال کتنی مضحکہ خیز ہے اس کا اندازہ قارئین بہ آسانی لگا سکتے ہیں ۔
 ٹرمپ امن کے رکھوالے ہر گز نہیں  ہیں ۔ امن ان کیلئے صرف ایک کھوکھلاسا لفظ ہے۔ ٹرمپ نسل پرستی اور نفرت پر مبنی سیاست کے علمبردار ہیں ۔ ٹرمپ جنگ مخالف نہیں  ہیں ۔ ٹرمپ جس امن کی بات کرتے ہیں  وہ قبرستان کاامن ہے۔ اگر بالفرض محال ٹرمپ کو نوبل پیس پرائز مل جاتا ہے تو نوبل انعام کی ساکھ مٹی میں  مل جائیگی۔
پس نوشت: ماضی میں  نوبل پیس پرائز ووڈرو ولسن، مارٹن لوتھر کنگ، مدر ٹریسا، نیلسن منڈیلا، ڈیسمنڈ ٹوٹو جیسے طویل قامت ہستیوں  کو ملا ہے۔ کیا ٹرمپ ان مشاہیر کی صفوں  میں  کھڑے ہونے کے قابل ہیں ۔ لیکن نوبل پرائز کی سوا سو سالہ تاریخ میں  کئی مرتبہ ایسے لیڈروں  کوبھی نوازا گیا جو اس عظیم اعزاز کے ہرگز مستحق نہیں  تھے۔ ۲۰۰۹ء میں  صدر منتخب ہونے کے محض چند ماہ کے اندر بارک اوبامہ کو نوبل انعام دیا گیا۔اس پر کافی تنقیدیں  ہوئی تھیں  اور خود اوبامہ نے حیرت کا اظہار کیا تھا۔ اوبامہ نے نوبل پیس پرائز کی لاج نہیں  رکھی اور افغانستان، پاکستان، یمن،صومالیہ، لیبیا، عراق اور سیریا پر بمباری کروائی۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجراور ویتنامی لیڈر Le Duc Thoکو ۱۹۷۳ء میں  نوبل پیس پرائز کا مشترکہ طور پر مستحق قرار دیا گیا۔ ویتنامی لیڈر نے انعام لینے سے ہی انکار کردیا۔ ویتنام کی جنگ میں  جس میں  لاکھوں  بے گناہ لوگ مارے گئے تھے کسنجر نے کلیدی کردار نبھایا تھا۔ اس لئے ان کے نام کے اعلان کے ساتھ ہی امریکہ میں  اور ساری دنیا میں  زبردست احتجاج ہونے لگے۔ اسی لئے کسنجر انعام لینے اوسلو نہیں  گئے۔ ٹرمپ کی نوبل پیس پرائز کی نامزدگی پر حیرت کی ضرورت نہیں  ہے کیونکہ ماضی میں  ایک بار ہٹلر کو بھی اس انعام کے لئے نامزدکیا گیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK