برطانیہ، فرانس اور کینیڈا جیسے ممالک کا بیان کہ’’ اگر اسرائیل نے غزہ میں جنگ بند نہیں کی تو اس کے ساتھ تجارتی رابطے منقطع کردیں گے‘‘، اسرائیل کے سابق فوجی سربراہ یائیر گولان کا یہ کہنا ’’ نیتن یاہو کا اسرائیل ایک وحشی ملک بن چکا ہے ‘‘ اور سینیٹر برنی سینڈرس کی پیشن گوئی کی کہ ’’غزہ کا قتل عام دنیا کے اجتماعی ضمیر پر ایک دائمی داغ بن جائیگا‘‘ ایسی کئی مثالیں ہیں
۱۹؍ ماہ سے غزہ میں نہتے شہریوں کا قتل عام دیکھتے دیکھتے دنیا شاید اب تھک گئی ہے یا پھر اب پھول جیسے فلسطینی بچوں کی ننھی منی لاشیں بے حس دنیا کے ضمیر پر بوجھ بننے لگی ہیں یا پھر شاید صہیونی فوج کے ذریعہ انسانی امداد روک دئے جانے کی وجہ سے فاقہ کشی سے ہزاروں اموات کے خطرے نے دنیا کو مضطرب کردیا ہے۔غزہ میں ’’اسرائیل کے مکمل پاگل پن‘‘ پر دنیا بھر میں اور خصوصاًیورپ میں پچھلے دس پندرہ دنوں میں جس طرح کا ردعمل سامنے آیا ہے وہ پچھلے ۱۹؍ماہ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ہاریٹز اخبار نے پیشن گوئی کی ہے کہ بہت جلد اسرائیل کو’’سفارتی سونامی‘‘کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کچھ تو ہوا ہے۔ کچھ تو ہورہا ہے۔ورنہ برطانیہ، فرانس اور کینیڈا جیسے ممالک کوجو اب تک نیتن یاہو کی اندھی حمایت کررہے تھے، ایک مشترکہ بیان جاری کرکے یہ وارننگ نہیں دینا پڑتی کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں جنگ بند نہیں کی تو اس کے ساتھ تجارتی رابطے منقطع کردیں گے۔ آپ کہیں گے یہ سب زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ زبانی جمع خرچ بھی کافی اہم اور معنی خیز ہے۔ جو مغربی ممالک کل تک فخر سے دعویٰ کررہے تھے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں ، آج وہ اسرائیل سے دوری بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ کل تک جو یورپی لیڈر نیتن یاہو کے ہر جنگی جرم کو جائز قرار دے رہے تھے وہ بھی آج یہ کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ ظلم کی انتہا ہوچکی ہے اب قتل عام روک دو۔ یہ بلاشبہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔ فرانسیسی صدر ایمینوئل میکرون کی یہ دھمکی کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں خوراک اور دیگر امدادی سامان کی فراہمی میں رکاوٹ جاری رکھی تو اس کے خلاف سخت کاروائی کریں گے، کسی خوش خبری سے کم ہے کیا؟خبر ہے کہ میکرون برطانیہ اوربلجیم جیسے یورپی ممالک کو فلسطین کو تسلیم کرنے کیلئے رضامند کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔بی بی سی کے بین الاقوامی ایڈیٹر جیریمی بوون کے مطابق ’’اسرائیل کو مغربی اتحادیوں کی جانب سے ملی اخلاقی حمایت ختم ہوچکی ہے۔‘‘
پچھلے ۱۹؍ماہ سے جو مغربی میڈیا صہیونی بربریت پر پردہ ڈالنے اور مظلوم فلسطینیوں کو ہی ان کی اپنی بربادی اور نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہرانے کی مذموم کوشش کررہا تھا وہ آج اپنا زوایہ نگاہ درست کرنے پر مجبور ہورہا ہے۔ پچھلے ۶۰۰؍ دنوں سے غزہ میں نیتن یاہو کی فوج قیامت برپاکر رہی ہے لیکن مغربی میڈیا اسرائیل کے انسانیت سوز جرائم کے جواز میں ’’۷؍ اکتوبر کے دہشت گردانہ حملے‘‘ کوپیش کرتا رہا۔لیکن شاید مغربی میڈیا کو شرم آنے لگی ہے ورنہ ’فنانشیل ایکسپریس‘ جیسا اسرائیل نواز اخبار "The west’s shameful silence on Gaza" جیسا اداریہ شائع نہیں کرتا۔ اس اداریہ میں غزہ کے ۲۲؍لاکھ باشندوں کے ناقابل بیان مصائب کا تذکرہ کرنےکے بعد اخبار لکھتا ہے ’’ ان سب کے باوجودامریکہ اور یورپی ممالک نے جو اسرائیل کو اپنا اتحادی مانتے ہیں ،مذمت کا ایک لفظ تک نہیں کہا ہے۔ انہیں اپنی خاموشی پر شرم آنی چاہئے۔‘‘ اس طرح کی صاف گوئی کی چند ہفتے قبل تک مغربی میڈیاسے توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔
برطانوی ٹی وی اینکر Piers Morgan شروع شروع میں غزہ پر اسرائیلی بمباری کو جائز ٹھہراتے تھے لیکن آج ان کا موقف بدل گیا ہے۔ ایک حالیہ انٹرویو کے دوران انہوں نے فلسطینی بچوں کے قتل اور اسرائیلی فوج کے مظالم پرجس مدلل انداز میں سوالات کئے اس نے اسرائیل کی خاتون سفارتکار Tzipi Hotovely کو بغلیں جھانکنے پر مجبور کردیا۔ کبھی مارگن اسرائیل کے طرفدار بن کر عرب نمائندوں سے جارحانہ انداز میں جرح کرتے تھے لیکن اب غزہ کے حالات نے ان کوحق گوئی سکھادی ہے۔ پچھلے ہفتے امریکہ کی مشہور درسگاہ MIT میں اپنے کلاس کی صدر میگھا ویموری نے گریجویشن کی افتتاحی تقریرمیں غزہ کی نسل کشی کے خلاف بے خوفی سے آواز بلند کی اوریہ الزام بھی لگایا کہ نہ صرف امریکہ بلکہ MIT بھی فلسطینیوں کی نسل کشی میں شامل ہے۔اپنی ہی یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے غزہ میں اسرائیل کے استبداد کے خلاف احتجاج اور فلسطین کی آزادی کا نعرہ بلند کرکے میگھا نے بہت بڑا رسک لیا کیونکہ ٹرمپ ایسے طلبہ کو گرفتار کرواکر ملک بدر کررہے ہیں ۔ میگھاکا غزہ یا اہل غزہ سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔وہ ایک ہندو نژاد امریکی شہری ہے لیکن غزہ کے ہولناک واقعات نے میگھا کو ظلم کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور کردیا۔ انسانیت ابھی مری نہیں ہے۔
انسانیت ابھی زندہ ہے اسی لئے اسرائیل کے سابق فوجی سربراہ یائیر گولان برملا یہ کہنے پر تیار ہوگئے کہ نیتن یاہو کا اسرائیل ایک وحشی ملک بن چکا ہے کیونکہ’’ ایک صحیح الدماغ ملک تفریح کی خاطر بچوں کو قتل نہیں کرتا ہے۔‘‘ انسانیت اگر مرچکی ہوتی تو اسرائیل کے سابق وزیر اعظم یہود اولمرٹ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اسرائیلی حکومت غزہ میں ایک بے مقصد جنگ لڑ رہی ہے جس کے جیتنے کا کوئی چانس نہیں ہے۔ اولمرٹ نے جو حکمراں لیکود پارٹی کے بانیوں میں سے ایک ہیں یہ دعویٰ کرکے سنسنی پھیلادی کہ نیتن یاہو غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں ۔ امریکہ کے بزرگ سینیٹر برنی سینڈرس نے پیشن گوئی کی ہے کہ غزہ کا قتل عام دنیا کے اجتماعی ضمیر پر ایک دائمی داغ بن جائے گا۔ سینڈرس نے امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے وارننگ دی کہ تاریخ اس بات کو فراموش نہیں کرے گی کہ امریکیوں نے نہ صرف یہ ظلم ہونے دیا بلکہ اس میں سہولت کار بنے۔ سینڈرس نے بھی نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دیا۔
یہ بھی پڑھئے : نظام تعلیم کامیابی اور ناکامی کے جال میں پھنس کر رہ گیاہے
امریکی ٹی وی چینلز پر غزہ کے حوالے سے genocide اور war crimes جیسی اصطلاحات پہلے نہیں سنی جاتی تھیں لیکن اب وہ کافی استعمال کی جارہی ہیں ۔ سی این این کے فرید زکریا ہوں یا نیو یارک ٹائمز کے ٹامس فریڈمین جنہیں پہلے ۷؍ اکتوبراور حماس کی دہشت گردی کے علاوہ کچھ اور نظر ہی نہیں آتا تھا اب وہ نیتن یاہو کی صہیونی انتہاپسندی پر تنقیدیں بھی کررہے ہیں اور فلسطینیوں کی بے بسی اور مظلومیت سے دکھی بھی ہیں ۔ نیتن یاہو کی ہٹلرانہ ہٹ دھرمی کے سامنے نہتے فلسطینیوں کا بے مثال کردار بھی دنیا کو متاثر کررہاہے۔ اتنے مصائب کے درمیان ایسے صبر و تحمل کا مظاہرہ دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اب تو انصاف پسند لوگ یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ ۷؍اکتوبر کو جو ہوا تھا وہ غلط نہیں تھا۔ Lawrence Wilkerson ریٹائرڈ امریکی کرنل ہیں اوروزیر خارجہ کولن پاول کے چیف آف اسٹاف رہ چکے ہیں ،کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں نے ۷؍اکتوبر کو جو کیا اس کا انہیں حق تھا۔ انکے مطابق فلسطینیوں کو قابض اور ظالم اسرائیلی حکومت کے خلاف پر تشدد مزاحمت کا پورا حق ہے۔n