• Sun, 05 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

برف میں کیسے لگی آگ؟

Updated: October 01, 2025, 1:36 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

لیہہ میں اگر تشدد اور تخریب کاری کی آگ بھڑک اٹھی ہے تو حکومت کو یہ ادراک ہونا چاہئے تھا کہ امن و سکون کے پیکر لداخیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت مقامی باشندوں کے دلوں میں پلتی بے چینی اورمایوسی کے عوامل جاننے کی کوشش اور ان کی شکایات کا ازالہ کرتی، پولیس نے مظاہرین پر اپنی بندوقوں کے دہانے کھول دیئے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

لداخ کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں  ہمالیہ کے دامن میں  واقع برفیلے کوہستان کی تصویر ابھرتی ہے  جہاں  دور تک پھیلے ہوئے چٹیل ریگستانی بیابان بھی ہیں  اور خوبصورت شفاف جھیلیں  بھی۔ جنت ارضی وادی کشمیر کو کہا جاتا ہے لیکن لداخ بھی قدرتی صناعی کا شاہکار ہے۔ سال میں  پانچ ماہ تک یہ پورا خطہ برف کی سفید چادر وں  میں  لپٹ کر اور بھی دلنشیں  ہوجاتا ہے۔لداخ کے باسیوں  کا اجتماعی مزاج بھی مقامی موسم کے زیر اثر پرسکون اور ٹھنڈا ہے۔ لداخ کے لوگ پوری طرح امن پسند ہیں  اسی لئے راجدھانی لیہہ میں  اگر تشدد اور تخریب کاری کی آگ بھڑک اٹھی ہے تو حکومت کو یہ ادراک ہونا چاہئے تھا کہ امن و سکون کے پیکر لداخیوں  کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت مقامی باشندوں  کے دلوں  میں  پلتی بے چینی اورمایوسی کے عوامل جاننے کی کوشش کرتی اور ان کی شکایات کا ازالہ کرتی، پولیس نے مظاہرین پر اپنی بندوقوں  کے دہانے کھول دیئے، چار لوگوں  کو ہلاک اور درجنوں  کو زخمی کردیا۔بھیڑ اگر بے قابو بھی ہوگئی تھی تو اسے پہلے لاٹھی چارج اور اشک آور گیس کے استعمال کے ذریعہ منتشر کیا جاسکتا تھا۔ فائرنگ اگر ناگزیر ہوگئی تھی تو گولی پیروں  میں  ماری جاسکتی تھی۔ لداخیوں  کا الزام ہے کہ مظاہرین کے سروں  اور سینوں  کو نشانہ بنایا گیا۔
 پرانے ہندوستان میں  احتجاجات، مظاہرے، دھرنے، جلسے،  جلوس اور عوامی تحریک روز مرہ کی باتیں  تھیں ۔ اپنی تمام تر خامیوں  اور کمیوں  کے باوجود پرانے انڈیا میں  جمہوریت نہ صرف موجود تھی بلکہ پھل پھول رہی تھی۔ لیکن ۲۰۱۴ء  کے بعد سے حکومت کی کسی پالیسی کی مخالفت یا کسی اقدام کی مزاحمت جرم بن گیا ہے۔ اختلاف رائے کا حق نہ صرف صحت مند جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے بلکہ اس کی جان ہے۔ہرشہری کو حکومت کے کسی فیصلے سے اختلاف رکھنے کا پورا حق ہے۔ بادشاہت میں  حکمراں  کا ہر فیصلہ لوگ اس لئے  سرتسلیم خم کرکے قبول کرلیتے تھے کیونکہ وہ شہری نہیں  رعایا ہوتے تھے۔ آج وطن عزیز میں  نہ تو بادشاہت رہی اور نہ ہی رعایا۔  باشعور شہریوں  سے یہ توقع کرنا غلط ہے کہ وہ عقیدت مندوں  یا بھکتوں  کی طرح آنکھیں  بند کرکے حکومت کے ہر حکم کی تعمیل کرتے رہیں ۔آج حکومت عوام کی جانب سے اپنے کسی فیصلے کی مخالفت اور کسی اقدام کی مزاحمت برداشت کرنے کی قوت سے محروم ہوچکی ہے اسی لئے وہ ہمہ وقت اختلاف رائے کو کچل دینے پر آمادہ رہتی ہے۔ اس کے لئے ایک منصوبہ بند روڈ میپ تیار کیا جاتا ہے۔
۲۰۲۰ء میں  متعصبانہ شہریت قانون  کے خلاف شاہین باغ میں  کامیابی کے ساتھ چلائی گئی خواتین کی تحریک کو حکومت نے ٹھیک یہی ہتھکنڈہ استعمال کرکے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی تھی۔ کسانوں  نے متنازع زرعی قوانین کے خلاف مظاہرے شروع کئے تو انہیں  بھی کبھی خالصتانی تو کبھی پاکستانی قرار دیا گیا۔ لداخ کے حالیہ خلفشار کے بعد پھر ایک بار اسی مانوس بیانیہ کو فروغ دیا جارہا ہے۔لداخ تحریک کا چہرہ سونم وانگ چک نہایت شریف النفس، وضعدار، تعلیم یافتہ، نرم گفتار انسان ہیں ۔ وہ ایک اعلیٰ ذہن انجینئر ہیں  اور دو کارآمد ایجادات کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔ انہیں  میگسیسے ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے جسے ایشیا کا نوبیل انعام کہتے ہیں ۔ سونم ’’لداخ کی شناخت، کلچر اور زمین کو بچانے‘‘کے لئے برسوں  سے ایک تحریک چلارہے ہیں  اور لداخ کے لوگ پوری طرح ان کی تحریک سے وابستہ ہوچکے ہیں ۔ وہ ایک گاندھی وادی ہیں  اوراہنسا پر یقین رکھتے ہیں ۔ احتجاج کے لئے ستیہ گرہ اور بھوک ہڑتال کا سہارا لیتے ہیں ۔  
۲۴؍ستمبر کو جب ان کے مظاہروں  کے دوران تشدد بھڑک اٹھا تو ان کو اور ان کی تحریک کو منظم طریقے سے بدنام کیا جانے لگا۔ کہا گیا کہ وہ نیپال اور بنگلہ دیش کی طرز پر ہندوستان میں  بھی جین زی کو بغاوت کے لئے اکسارہے ہیں ۔ فروری میں  انہوں  نے پاکستان میں  ایک کلائمیٹ کانفرنس میں  شرکت کی تھی جس کی بنیاد پر انہیں  آئی ایس آئی کا ایجنٹ کہاجارہا ہے۔ یہ بین الاقوامی کانفرنس اقوام متحدہ نے منعقد کروائی تھی اور پہلگام حملے کے قبل ہوئی تھی۔ چند روز قبل پاکستان کے ساتھ کرکٹ میچ کھیلنے والی ہندوستانی ٹیم پر بھی پاکستانی ایجنٹ ہونے کا الزام کیوں  نہیں  لگایا جاتا ہے؟
 سونم پر غیر ملکی فنڈز کی حصولیابی اورمالی بدعنوانی کا الزام بھی منڈھ دیا گیاہے۔ قصہ مختصر یہ کہ سونم جیسے دیش بھکت کو دیش دروہی بنا کر ہی دم لیا گیا۔ انہیں  NSA جیسے ظالمانہ قانون کے تحت گرفتار کیا گیا مطلب یہ کہ سونم ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ بن گئے ہیں ۔  فروری ۲۰۲۰ء  میں  بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے ڈنکے کی چوٹ پر دلی پولیس کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے تین دنوں  کے اندر جعفرآباد میں  جاری سی اے اے مخالف احتجاج نہیں  رکوایا تووہ نتیجہ بھگتنے کیلئے تیار رہے۔ کپل مشرا کی اس زہریلی تقریرکے چند گھنٹوں  کے بعد ہی دلی میں  دنگے پھوٹ پڑے جن میں  ۵۰؍لوگ مارے گئے۔ ویڈیو اور انٹرنیٹ پر موجود ثبوتوں  کے باوجود کپل مشرا پر کوئی آنچ نہیں  آئی۔  آج مشرا دلی حکومت میں  قانون اور انصاف کا وزیر ہے اور سونم وانگ چک جیل کی سلاخوں  کے پیچھے ہیں ۔کیا اس سے بڑی ناانصافی کوئی ہوسکتی ہے؟

یہ بھی پڑھئے : سچن تنڈولکر کا خیال،کرکٹ کی تہذیب کا خیال ہے

پولیس فائرنگ میں  ہلاک ہونے والے چار لوگوں  میں  تیوانگ تھارچن نام کا ایک سابق فوجی اہلکار بھی شامل ہے جس نے کارگل جنگ میں  پاکستان کے خلاف مورچہ سنبھالا تھا۔سونم وانگ چک کے دو بنیادی مطالبات ہیں ۔ لداخ کی یونین ٹیریٹری کی حیثیت ختم کرکے اسے مکمل صوبے کا درجہ دیا جائے اور اسے ملک کے آئین کے Sixth Schedule میں  شامل کیا جائے۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں  اس کا وعدہ بھی کیا تھا۔اس شمولیت سے لداخ کویہ اختیار مل جائے گا کہ وہ اپنے قبائلی تہذیب و ثقافت، وراثت، رسوم، ماحولیات اور طرز زندگی کی حفاظت کے لئے قانون بناسکے۔مودی حکومت لداخ باسیوں  کا مطالبہ ماننے سے شاید اس لئے انکار کرتی ہے کیونکہ اس کا مطلب ہوگا اس کا لداخ کو جموں  کشمیر سے الگ کرنے اور UTبنانے کا فیصلہ ناکام ثابت ہوچکا ہے۔
 لداخ ایک جانب پاکستان اور دوسری جانب چین سے گھرا ہے۔ ۵؍ سال قبل مشرقی لداخ کے گلوان میں  چینی فوج نے ہمارے ۲۰؍ جانبازوں  کو شہید کردیا تھا۔ اس وقت لداخ میں  عوام غم زدہ بھی ہیں  اور ناراض بھی۔ اتنے حساس سرحدی خطے کے لوگوں  کا غم و غصے میں  ہونا ملک کی سلامتی کیلئے نیک شگون نہیں  ہے۔ لداخ کی جمہوری تحریک پر گودی میڈیا کے ذریعہ وطن دشمنی کا ٹھپہ لگانا بارود کو چنگاری دکھانے کے مترادف ہے۔ لداخ کے لوگوں  کے دل ٹوٹے ہوئے ہیں  ان کے زخموں  پر نمک پاشی کے بجائے مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔

ladakh Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK