• Thu, 16 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

لداخ مظاہرین کے مطالبات پرغورکرنے کی ضرورت: سابق بیوروکریٹس کی لیہہ تشدد کی مذمت

Updated: October 11, 2025, 8:03 PM IST | Leh

سابق بیوروکریٹس کے ایک گروپ نے لیہہ تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ لداخ کے مظاہرین کے مطالبات معقول ہیں، اور ان پر ہمدردانہ غور کرنے کی ضرورت ہے،مزید یہ کہ اس ضمن میں مذاکرات ہونے چاہئے، تاکہ ان کے قانونی مسائل کو حل کرنے کے طریقے تلاش کیے جا سکیں۔

A scene from the Leh protest. Photo: INN
لیہہ کے احتجاج کا ایک منظر۔ تصویر: آئی این این

۱۱۳؍سابق بیوروکریٹس کے ایک گروپ نے سنیچر کو لیہہ میں۲۴؍ ستمبر کو ہونے والے آئینی تحفظات کے احتجاج پر مرکزی حکومت کے ردعمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مطالبات معقول ہیں اور ہمدردانہ غور کے متقاضی ہیں۔ایک کھلے خط میں، آئینی کنڈکٹ گروپ نے کہا کہ مرکزی حکومت نے ملک میں ہونے والے احتجاجوں کے حوالے سے بار بار ’’ناقص رویہ‘‘اپنایا ہے، جس میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے، کسانوں کی تحریک اور منی پور میں نسلی تنازعہ شامل ہیں۔خط میں کہا گیا، ’’کسی خاص معاملے پر اتنے زیادہ لوگ کیوں احتجاج کر رہے ہیں، یہ جاننے کی بجائے، حکومت کا ردعمل اکثر ایک جیسا ہوتا ہے بلا سوچے سمجھے اور منفی، اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کسی سنجیدہ مشاورت کے بغیر۔‘‘انہیں دشمن مان لیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ ۲۴؍ ستمببر کو لیہہ میں لداخ کو ریاست کا درجہ دینے اور آئین کی چھٹی شیڈول میں شامل کرنے کے مطالبے پر ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس فائرنگ اور تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ پولیس فائرنگ میں چار افرد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ کارکن سونم وانگچوک کو۲۶؍ ستمبر کو لیہہ تشدد کا ذمہ دار قرار دے کر گرفتار کر لیا گیا۔دراصل لداخ کیلئے ریاستی درجے کا مطالبہ آئین کی دفعہ۳۷۰ء کے خاتمے کے بعد سامنے آیا ہے۔اس کے تحت ریاست کو جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔لداخ میں مقننہ کے فقدان سے مرکز کے زیر انتظام علاقے کے رہائشیوں میں ان کی زمین، فطرت، وسائل اور روزگار کے حوالے سے بے اطمینانی بڑھ رہی ہے اور خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔اسی پس منظر میں، سول سوسائٹی گروپوں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ لداخ کو آئین کی چھٹی شیڈول میں شامل کیا جائے، جس سے زمین، عوامی صحت اور زراعت کے انتظام کے لیے خود مختار ترقی کونسلیں قائم کرنے کی راہ ہموار ہو گی۔

یہ بھی پڑھئے: کرناٹک : سرکاری پروگرام میں قرآن کریم کی تلاوت پر واویلا

چھٹی شیڈول میں مخصوص قبائلی اکثریتی علاقوں کے شہریوں کے لیے زمین کے تحفظ اور برائے نام خود مختاری کی ضمانت دی گئی ہے۔ لداخ میں۹۷؍ فیصد سے زیادہ آبادی شیڈولڈ قبائل سے تعلق رکھتی ہے۔سابق اہلکاروں نے کہا کہ اگر ریاستی درجے اور چھٹی شیڈول میں شامل کیے جانے کے مطالبات پورے نہیں کیے جا سکتے، تو مرکزی حکومت پر لداخ کے رہائشیوں کو اس کی وجہ اور متبادل تجاویز پیش کرنا ضروری ہے جو ان کی شکایات کو دور کر سکیں۔اس کے بجائے، حکومت نے مظاہرین کے خلاف اپنی پوری طاقت سے جوابی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا،۔خط میں یہ بھی کہا گیا کہ مارے جانے والوں میں سے ایک تھارچن ایک سابق فوجی بھی تھا۔آئینی کنڈکٹ گروپ نے وانگچوک کی گرفتاری پر بھی تنقید کی، خط میں کہا گیا ہے کہ وانگچک کو ہندوستان اور بین الاقوامی سطح پر بہت عزت حاصل ہے۔ان کا احتجاج ہمیشہ پر امن رہا ہے۔‘‘انہیں گرفتار کرنے کے اگلے ہی دن ان کی این جی او کا ایف سی آر اےمنسوخ کر دیا۔حکومت کا سرحدی علاقوں میں مظاہروں سے اس غیر ذمہ دارانہ طریقے نمٹنا ہمارے ملک کی سلامتی کے لیے خطرناک صورت اختیار کر رہا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو آزادی کے بعد سے ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ یہاں سیاسی کھیل نہیں کھیلا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھئے: دہلی فسادات کیس: عمر خالد نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے صرف انہیں نشانہ بنایا، دیگر افراد کو چھوڑ دیا گیا

آئینی کنڈکٹ گروپ نے وانگچوک کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ تحریک کےلیڈروں سے مذاکرات کی وکالت کی تاکہ اگر کچھ قانونی رکاوٹ ہوں تو انہیں دور کیا جا سکے۔یہ بات بھی یاد رہے کہ وانگچوک کی گرفتاری کے بعد اپیکس باڈی لیہ اور کارگل ڈیموکریٹک الائنس نے حکومت سے مذاکرات سے دستبرداری اختیار کرلی ۔اپیکس باڈی لیہ اور کارگل ڈیموکریٹک الائنس سول سوسائٹی کے اتحاد ہیں جو لداخ کے لیے آئینی تحفظات کی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK