تہران کے بجائے تل ابیب میں عمارتیں گرنے لگی ہیں، اسرائیل کا دفاعی نظام بے بس ہوچکا ہے اور دوحہ میں امریکی ایئربیس پر حملہ کر کے ایران نے واشنگٹن کی مجرمانہ جارحیت کا جواب بھی دے دیا ہے
EPAPER
Updated: June 25, 2025, 3:42 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
تہران کے بجائے تل ابیب میں عمارتیں گرنے لگی ہیں، اسرائیل کا دفاعی نظام بے بس ہوچکا ہے اور دوحہ میں امریکی ایئربیس پر حملہ کر کے ایران نے واشنگٹن کی مجرمانہ جارحیت کا جواب بھی دے دیا ہے
سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب میں ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کرکے ڈونالڈ ٹرمپ نے بنجامن نیتن یاہو کا تیس سال پرانا ارمان آخر پورا کرہی دیا۔ ۱۹۹۶ء میں پہلی بار اسرائیل کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سے نیتن یاہوایران پر جوہری ہتھیاربنانے کا الزام لگاکر امریکہ کو مسلسل اس کے ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کے لئے اکسارہے تھے۔امریکہ کئی دہائیوں سے ایران کے خلاف مسلسل محاذ آرائی کرتارہا لیکن ٹرمپ سے قبل کسی امریکی صدر خواہ وہ بل کلنٹن ہوں یاجارج ڈبلیو بش جونیئر، بارک اوبامہ ہوں یا جو بائیڈن نے یہ انتہائی قدم اٹھانے کی جرات یا حماقت نہیں کی تھی۔
یوں تو ہر امریکی صدر اسرائیل کی اطاعت کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے لیکن ٹرمپ نے جس طرح صہیونی ریاست کی خوشنودی کے لئے نہ صرف بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کی دھجیاں اڑائی ہیں بلکہ امریکہ کی عالمی ساکھ تک کو داؤ پر لگا یا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ نیتن یاہو سے تو ٹرمپ کا خاص یارانہ ہے۔ ٹرمپ کایہودی داماد جیرڈ کشنر کا باپ چارلس کشنر نیتن یاہو کادوست اور بزنس پارٹنر ہے۔ اپنے پہلے دور اقتدار میں ٹرمپ نے مقبوضہ یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرکے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کردیاتھا، سیریا کی گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے ناجائز تسلط کو جائز قرار دے دیاتھا اور ایران کے ساتھ ۲۰۱۵ء میں اوبامہ کے ذریعہ کئے گئے جوہری معاہدے کو پھاڑ کر پھینک دیا۔یہ تمام اقدام سراسر ناجائز اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف تھے۔
جمعرات کے دن وہائٹ ہاؤس پریس سکریٹری نے اعلان کیاتھا کہ امریکہ اسرائیل کی جانب سے ایران جنگ میں براہ راست ملوث ہوگا یا نہیں ا س بات کا فیصلہ ٹرمپ اگلے دو ہفتوں میں کریں گے۔ دو دن بعد ہی ٹرمپ نے سوشل میڈیا کے ذریعہ ساری دنیا کو فخر سے یہ پیغام دے دیا کہ امریکہ کے بمبار طیاروں نے ایران کی جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے اور امریکہ اب براہ رست جنگ میں کود چکا ہے۔ سیاستدانوں کے قول و عمل میں تضاد کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ٹرمپ اپنی کہی ہوئی کسی بات پر قائم نہیں رہتے ۔ ان کو امریکی صدر کا عہدہ سنبھالے ہوئے ابھی چار ماہ ہوئے ہیں اور اس مختصر سے عرصے میں وہ بار بار اپنے بیانات سے پلٹے اور پالیسی فیصلے بدلے۔ ۲۰؍جنوری کو اپنی افتتاحی تقریر میں ٹرمپ نے کہا تھاکہ ان کی حکومت کی کامیابی کا پیمانہ وہ جنگیں نہیں ہوں گی جو وہ جیتیں گے بلکہ وہ جنگیں ہوں گی جنہیں وہ بند کروائیں گے اور وہ جنگیں بھی جن میں وہ کبھی شامل ہی نہیں ہوں گے۔
اسی لئے ایران کے جوہری مراکز پر بمباری کرکے ٹرمپ نے بہت بڑا نظریاتی دھوکہ کیا ہے اوراپنے ووٹروں سے کئے گئے عہد کو توڑا ہے۔ ٹرمپ کے پرستاروں کی ایک بڑی تعداد اسرائیل کی جنگ کا حصہ بننے کی شدید مخالفت کررہی تھی۔ ایک سروے میں صرف ۱۶؍ فیصد امریکیوں نے امریکہ کے براہ راست جنگ میں شامل ہونے کی حمایت کی تھی۔اس وقت امریکہ میں ٹرمپ کی ریپلیکن پارٹی کے ورکرز خود کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں اور احتجاجاً MAGA ٹی شرٹ اور ٹوپیوں کوسر راہ جلارہے ہیں ۔ پارٹی کے لیڈروں میں بھی تقسیم صاف نظر آرہی ہے۔ٹرمپ کی قریبی رکن پارلیمنٹ مارجری ٹیلر گرین نے کھل کر بغاوت کا اعلان کردیا ہے۔ مارجری کے مطابق اسرائیل کی پرائی جنگ میں ملوث ہوکر ٹرمپ نے اپنے ووٹروں کو دغا دیا ہے۔ نیتن یاہو صرف اپنی کرسی بچانے کے لئے ایرن سے جنگ کررہے ہیں یہ امریکہ کی جنگ نہیں ہے۔
۱۳؍ جون کو اسرائیلی حملوں کے بعد امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے یہ وضاحت کی تھی کہ امریکہ کا ان حملوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن جب ایران نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا، جب تہران کے بجائے تل ابیب میں عمارتیں جلنے اور گرنے لگیں ،جب بن گورین ائیر پورٹ،حیفہ آئیل ریفائنری اور گلیلوٹ ملٹری انٹلی جنس کمپلیکس پر میزائل برسنے لگے،جب شمالی اور جنوبی اسرائیل کے شہروں میں سائرن کی آواز سن کر دہشت ذدہ شہری تہ خانوں میں جان بچانے کے لئے چھپنے لگے، جب اسرائیل کا مشہور زمانہ دفاعی نظام درہم برہم ہونے لگا اورجب آئرن ڈوم ایران کے بیلسٹک میزائلوں کے سامنے بے بس نظر آنے لگا تب نیتن یاہو کو سمجھ میں آگیا کہ ایران کو نرم چارہ سمجھ کر انہوں نے کتنی بھاری غلطی کردی ہے اور تب وہ گڑگڑاکر ٹرمپ سے مدد مانگنے لگے۔ تل ابیب کی سڑکوں پرراتوں رات ٹرمپ کی تصویروں سے آویزاں بڑے بڑے ہورڈنگ لگادئے گئے جن پر لکھا ہے:
"Mr President, please finish the job"
یہ بھی پڑھئے : حکومت کی گیارہ سالہ کارکردگی کو کیسے دیکھا جائے؟
ٹرمپ نے نیتن یاہو کے دباؤ میں یہ قدم اٹھایا ہے اور اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑرہا ہے۔خلیجی ریاستوں میں امریکہ کے متعدد بحری اور فضائی اڈے ہیں جہاں ۴۰؍ ہزار سے زیادہ امریکی فوجی تعینات ہیں ۔ ان سب کی زندگیوں کو ٹرمپ نے غیر ضروری خطرے میں ڈال دیا ہے۔ایران نے دوحہ کے امریکی ائیر بیس پر میزائیلیں داغ کر یہ اعلان کردیا کہ واشنگٹن کی مجرمانہ جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت تہران میں ہے۔ ٹرمپ کو بھی ایران کا پیغام سمجھ میں آگیا اسی لئے راتوں رات ان کے سربدل گئے۔ جو ٹرمپ کل تک خدا کے لہجے میں ایران کو’’غیر مشروط طور پر خود سپردگی‘‘ کا حکم دے رہے تھے وہ آج اسلئے اس کا شکریہ ادا کررہے ہیں کہ تہران نے میزائیل داغنے سے پیشتر اطلاع دے کر امریکی فوجیوں کی جان بخش دی۔
اسرائیل نے ۱۳؍ جون کے ڈرامائی حملوں میں اہم ایرانی سائنسدانوں اور اعلیٰ فوجی حکام کا قتل کرکے بلاشبہ ابتدائی برتری حاصل کرلی تھی اور ایسا لگ رہا تھا جیسے ایران مقابلے میں زیادہ دیر نہیں ٹھہرسکے گا لیکن ایران نے منہ توڑ جوابی کاروائی کرکے بازی پلٹ دی۔ آج اسرائیلی شہری جان بچانے کے لئے مصراور قبرص کے راستے اسرائیل سے فرار ہورہے ہیں ۔ امریکہ کا جنگ میں کودنے کا فیصلہ اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔منگل کی صبح جب میں یہ کالم مکمل کررہا ہوں رائٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے امیر قطر سے درخواست کی ہے کہ وہ ایران کو سیز فائر کے لئے راضی کرلیں کیونکہ اسرائیل کو امریکی صدر نے راضی کرلیا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور امریکہ میں منظرنامہ اتنی تیزی سے بدل رہا ہے کہ کسی قسم کی قیاس آرائی کرنا بے حد جوکھم کا کام ہے لیکن جنگ بندی کا امکان روشن نظر آرہا ہے اور یہ نہایت خوش آئند بات ہے۔نیو یارک ٹائمز کی ایک تازہ رپورٹ کی سرخی کے ساتھ کالم ختم کرتا ہوں :
Can Iran, Israel and the U.S. Now All Claim to Have Won?