نئی دہلی کی جانب سے بیجنگ کے ساتھ سفارتی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات بہتر بنانے کیلئے انتھک محنت کی جارہی ہے۔ ایسا کرنا شاید ہمارے مفاد میں بھی ہےلیکن تعلقات استوار کرتے وقت تعلقات بگاڑ نے کے چین کے یکطرفہ اقدام کو نظر انداز کرنا دانشمندی نہیں ہوگی
EPAPER
Updated: July 30, 2025, 1:34 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
نئی دہلی کی جانب سے بیجنگ کے ساتھ سفارتی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات بہتر بنانے کیلئے انتھک محنت کی جارہی ہے۔ ایسا کرنا شاید ہمارے مفاد میں بھی ہےلیکن تعلقات استوار کرتے وقت تعلقات بگاڑ نے کے چین کے یکطرفہ اقدام کو نظر انداز کرنا دانشمندی نہیں ہوگی
۲۴؍ جولائی کو پانچ سال کے وقفے کے بعدچینی شہریوں کے لئے سیاحتی ویزا دوبارہ جاری کرنے کا اعلان کرکے حکومت ہند نے یہ بات پوری طرح واضح کردی کہ بھارت اور چین کے منجمد تعلقات پر جمی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جلد ہی براہ راست پروازیں بھی شروع ہونے والی ہیں ۔ جون ۲۰۲۰ء میں مشرقی لداخ کی گلوان گھاٹی میں ہوئی خونی جھڑپوں کے بعد بھارت اور چین کے تعلقات بدترین حد تک خراب ہوگئے تھے لیکن اکتوبر میں روس کے قازان میں برکس کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صد ر شی جن پنگ کی ملاقات کے بعد تلخیاں کم ہونے لگیں ۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ پچھلے پانچ برسوں سے دونوں ممالک کے اعلیٰ فوجی اہلکار لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے تنازعات کے حل کے لئے مسلسل مذاکرات کررہے تھے۔ان فوجی مذاکرات کے نیتجے میں پچھلے سال اکتوبر میں بھارت اور چین کے درمیان گلوان کے سرحدی تنازعے پر ایک سمجھوتہ ہوگیا۔ جون کے اواخر میں بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے بیجنگ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی۔۱۴؍ جولائی کو وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے چین کا دورہ کیا اور چینی صدر شی جن پنگ سے اہم ملاقات کی۔ جے شنکر وزیر اعظم نریندر مودی کے چین کے مجوزہ دورے کے لئے زمین ہموار کرکے آئے ہیں ۔ نئی دہلی کے سفارتی گلیاروں میں یہ خبر گرم ہے کہ مودی جی اگست۔ ستمبرمیں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے بیجنگ کا دورہ کرسکتے ہیں ۔ بلاشبہ بھارت اور چین کے تعلقات جو گلوان کی جنگ کے بعدپٹری سے اتر گئے تھے دوبارہ پٹری پر لوٹ رہے ہیں ۔
نئی دہلی کی جانب سے بیجنگ کے ساتھ سفارتی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات بہتر بنانے کے لئے انتھک محنت کی جارہی ہے۔ ایسا کرنا شاید ہمارے مفاد میں بھی ہے۔ چین ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ تجارت اور ٹیکنالوجی میں ہندوستان کا چین پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ اس کمزور ی کا فائدہ اٹھاکرہماری بانہیں مروڑنے کی خاطرشی جن پنگ نے رئیر ارتھ معدنیات ، کھاد اور دیگر اہم مصنوعات کے ہندوستان میں ایکسپورٹ پر روک لگا رکھی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے مینوفیکچرنگ اور زرعی سیکٹر زبری طرح متاثر ہورہے ہیں ۔ رئیر ارتھ میگنیٹس کی برآمد پر چینی بندش سے ہماری آٹو موبائل انڈسٹری خصوصاً بجلی کی کاروں کی پیداوار پر خطروں کے بادل منڈلارہے ہیں ۔ ہندوستان کو چین کی سرمایہ کاری کی بھی ضرورت ہے۔اس سارے تناظر میں چین کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا نئی دہلی کا فیصلہ معقول لگتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ چین کے ماضی کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے اس ہمسایہ پر اعتماد کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ نائب فوجی سربراہ راہل سنگھ نے انکشاف کیاہے کہ مئی میں آپریشن سیندور کے دوران بھارت ایک محاذپر دو دشمنوں سے لڑ رہاتھا یعنی چین بالواسطہ طور پر پاکستان کے ساتھ ہمارے خلاف محاذ آرا تھا۔ پاکستانی فوج نے جو اسلحے اور جنگی سازو سامان استعمال کئے ان میں سے ۸۰؍فیصد چین کے بنے ہوئے تھے۔مطلب یہ کہ ہندوستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع چین ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ہے۔
پچھلے ہفتے جب ہندوستان چینی شہریوں کے لئے ویزا جاری کرنے کا اعلان کررہا تھا اسی وقت یہ خبر آئی کہ دریائے برہمپترا پر چین دنیا کا سب سے بڑا ڈیم تعمیر کررہا ہے۔ ہندوستان کے لئے یہ بے حد تشویش کا سبب ہے کیونکہ چین اس ڈیم کے ذریعہ آسام اور اروناچل پردیش میں دریا کے پانی کے بہاؤ کو اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کرسکتا ہے۔ اروناچل پر چین پہلے سے ہی مسلسل اپنا حق جماتا رہتا ہے اور اسے جنوبی تبت کہتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے : ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی ایک صدارتی تقریر
ہمسایہ ممالک کے درمیان اختلافات کا کم ہونا اور تعلقات بہترہونا ایک خوش آئند بات ہے لیکن تعلقات استوار کرتے وقت تعلقات بگاڑ نے کے چین کے یکطرفہ اقدام کو نظر انداز کرنا ہمارے لئے دانشمندی نہیں ہوگی۔ایک دوسرے ہمسایہ پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی تمام پیشکش کو بھارت یہ کہ کر ہمیشہ مسترد کرتا رہا ہے کہ دہشت گردی اور بات چیت ایک ساتھ نہیں چل سکتی ۔ اسلام آباد کی مسلسل شر انگیزی کے مدنظر ہمارا یہ اصولی موقف درست ہے لیکن گلوان میں چین کی جانب سے کھلی جارحیت میں ۲۰؍ جانبازوں کی شہادتوں ، ایل اے سی پر گھس پیٹھ اور ہماری زمین پر غیر قانونی قبضہ کے باوجود ہم اس کے ساتھ ۵؍ سال سے مذاکرات کر رہے ہیں اور سفارتی، اقتصادی اور تجارتی رشتے مزید مستحکم کرنے کیلئے کوشاں ہیں ۔
پانچ سال قبل گلوان میں چینی جارحیت اس کے توسیع پسندانہ عزائم کا نتیجہ تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا بیجنگ نے اس جارحیت کیلئے کوئی وضاحت ہمیں پیش کی یا معذرت طلب کی اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا بیجنگ نے اس بات کی ضمانت دی کہ مستقبل میں وہ ایسی حرکت نہیں دہرائے گا؟ مودی حکومت نے دسمبر میں پارلیمنٹ میں یہ کہا تھا کہ جب تک سرحد ی علاقوں میں امن وسکون بحال نہیں ہوگا تب تک چین کے ساتھ باہمی رشتے نارمل نہیں ہونگے۔سوال یہ ہے کہ کیابھارت۔چین سرحد پر کسی قسم کی کشیدگی اب باقی نہیں رہی اور کیاحالات نارمل ہوگئے ہیں ؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایل اے سی پر فوجی de-escalation ہوگیا ہے اور کیا متنازع علاقوں اور بفر زون میں چین کی غیر قانونی تعمیرات ہٹالی گئی ہیں ؟ یہ تمام سوالات اپنی جگہ موجود ہیں اور پھر بھی ہم چین کے ساتھ مراسم بڑھارہے ہیں ۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت چین کے ساتھ تصادم کے بجائے مفاہمت کی راہ اپنانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ ہندوستان اور چین کے امور پر گہری نظر رکھنے والے پروفیسر سوشانت سنگھ کے مطابق بھارت چین کے شرائط پر چین کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے کے لئے بے قرار نظر آرہا ہے۔ سوشانت سنگھ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہندوستانی وزراء کے چین کے تابڑ توڑ سفارتی دوروں سے لگتا ہے کہ بھارتی حکومت چین کی تمام شرائط تسلیم کرکے مفاہمت کرنے کو بے چین ہے۔سوشانت سنگھ نے تو یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ مودی جی کے دور اقتدار میں علاقائی اور عالمی سطح پر ہندوستان کا رتبہ گھٹا ہے۔سوشانت سنگھ کا ماننا ہے کہ ہندوستان چین کی جارحانہ بالادستی کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ سوشانت سنگھ کا مشاہدہ درست لگتا ہے کیونکہ ہم نے نہ چین کو اس کے گھر میں گھس کر مارا اور نہ ہی اسے لال آنکھیں دکھائیں ۔