Inquilab Logo Happiest Places to Work

مَیں اِتنا بول رہا ہوں کہ جتنا سن نہ سکوں!

Updated: May 03, 2025, 2:11 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے یعنی ایسا جاندار جو بول سکتا ہے۔ قدرت نے زبان دی ہے تو بولنا فطری ہے مگر کم لوگ ہیں جو اپنا محاسبہ کرتے ہیں کہ وہ کتنا ضرورتاً اور کتنا بے وجہ بولتے ہیں۔ موبائل نے مشکلیں بڑھا دی ہیں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ضروری اور غیر ضروری میں دو قدم کا فاصلہ بھی ہوتا ہے اور میلوں کی مسافت بھی۔ایک انسان کیلئے جو چیز ضروری ہے وہ دوسرے کیلئے غیر ضروری ہوسکتی ہے اور جو ایک کیلئے غیر ضروری ہے وہ دوسرے کیلئے ضروری ہوسکتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو چیز ضروری ہے وہ کچھ دیر کے بعد غیر ضروری ہوجاتی ہے، یا، ایک حد تک ضروری رہتی ہے اس کے بعد غیر ضروری ہوجاتی ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کسی چیز کو ضروری سمجھ کر اُسے اختیار کرتا ہے اور پھر اُس کا اتنا عادی ہوجاتا ہے کہ وہ غیر ضروری ہونے کی حدوں میں داخل ہو جاتی ہے اس کے باوجود وہ اُسے ضروری سمجھتا ہے۔ 
 انسان اپنی زندگی کا سفر اسی اُلجھن میں طے کرتا رہتا ہے کہ اُس کیلئے کیا ضروری ہے اور کیا غیر ضروری، جو ضروری ہے وہ کتنا ضروری ہے اور جو غیر ضروری ہے وہ کتنا غیر ضروری۔ اکثر جلسوں میں دیکھا گیا ہے کہ مقررین کو چند منٹ بعد اناؤنسر ایک پرچی تھماتا ہے جو اس بات کا اعلان ہوتی ہے کہ آپ کی تقریر کیلئے جو وقت مختص کیا گیا تھا وہ پورا ہوا۔ کچھ لوگ پرچی کو دیکھتے ہی متنبہ ہوجاتے ہیں اور کچھ نہیں ہوتے۔ وہ اُس کے بعد بھی ’’سمع خراشی‘‘ جاری رکھتے ہیں۔ اُن کیلئے اپنی بات ضروری ہوتی ہے جبکہ منتظمین کے نزدیک ایک حد کے بعد وہ غیر ضروری ہوجاتی ہے۔ بہت سے مقررین ضروری اور غیر ضروری کا فیصلہ کئے بغیر سامعین سے خطاب کرتے ہیں لہٰذا وقت ختم ہوجانے کے باوجود اُنہیں محسوس ہوتا ہے کہ جو کہنا تھا ابھی نہیں کہا۔ 

یہ بھی پڑھئے:چاپلوسی اور سکوت مسائل کا حل نہیں ہے

ایک جلسے میں ایک مقرر خاص کی طولانی تقریر کے دوران ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ ایک انسان دن بھر میں اوسطاً کتنے الفاظ بولتا ہوگا۔ جلسہ ختم ہوا تو دفتر پہنچنے کے بعد مَیں نے فوراً سے پیشتر انٹرنیٹ کی مدد لی اور مذکورہ سوال کا جواب جاننے کی کوشش کی یہ جانتے ہوئے کہ کون کتنا بولتا ہے اور دن بھر میں کتنے الفاظ استعمال کرتا ہے اس کا اندازہ ٹھیک ٹھیک طریقے سے کوئی نہیں لگا سکتا چاہے وہ کتنا ہی بڑا ایکسپرٹ ہو۔ مگر گوگل بابا کی خوبی یہ ہے کہ وہ غلط یا صحیح، ہر سوال کا کوئی نہ کوئی جواب پیش کردیتے ہیں، کبھی مایوس نہیں کرتے۔ مجھے بھی جواب ملا مگر کوئی ایک نہیں بلکہ بہت سے جوابات ملے اور ہر جواب دوسرے سے مختلف۔ ایسی صورت میں مَیں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کوئی سروے کیا گیا ہو یا کسی ماہر نے کوئی عقدہ کھولا ہو تو اُسے ٹھوس جواب سمجھا جاسکتا ہے مگر کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی۔ دو تین قابل قدر حوالے میسر آئے وہ اس طرح ہیں: ۱۲؍ نومبر ۲۰۱۳ء کی بی بی سی کی ایک رپورٹ ہے جو کلاڈیہ ہمانڈ کی تحریر کردہ ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ خواتین دن بھر میں ۲۰؍ ہزار الفاظ بولتی ہیں جبکہ مرد صرف ۷؍ ہزار الفاظ۔ کلاڈیہ ہمانڈ نے جو کچھ لکھا اس کا مفہوم یہ ہے کہ ۲۰؍ ہزار اور ۷؍ ہزار کو ثابت نہیں کیا جاسکتا مگر کئی سیلف ہیلپ گروپس اور سائنس کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں سے یہی تاثر ملتا ہے۔ مَیں ذاتی طور پر ان اعدادوشمار سے متفق نہیں ہوں۔  میرے خیال میں یہ مفروضہ ہے جس کی بنیاد وہ تعصب ہے جس کے تحت خواتین کو باتونی قرار دیا جاتا ہے۔ 
 ایک ویب سائٹ ہے ’’وِکی ہاؤ‘‘۔ اس میں بعض مطالعات کے حوالےسے بتایا گیا ہے کہ سماج میں دو طرح کے افراد ہوتے ہیں۔ کچھ کیلئے روزانہ ۶؍ ہزار الفاظ کافی ہوتے ہیں جبکہ کچھ کو روزانہ ۱۶؍ ہزار الفاظ درکار ہوتے ہیں۔ انہی مطالعات سے یہ بھی واضح ہوا کہ ہر شخص اوسطاً ۱۵۰؍ الفاظ فی منٹ  استعمال کرتا ہے۔ 
 مندرجہ بالا اعدادوشمارکے درست ہونے کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ ان کی تائید بھی مشکل ہے۔ سماج میں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ کچھ باتونی ہوتے ہیں اور کچھ کم گو۔ جو باتونی ہوتے ہیں بعض اوقات ہزار الفاظ کے استعمال کے باوجود اپنا مطمح نظر بیان نہیں کرپاتے ۔ ان کے برخلاف کچھ لوگ نہایت ہی کم الفاظ میں اپنا  مطمح نظر بآسانی بیان کردیتے ہیں۔مگر، یہ باتیں کسی اور موقع کیلئے اُٹھا رکھئے، فی الحال اس مضمون نگار کا مدعا کچھ اور ہے۔ وہ یہ کہ جب سے موبائل نے انسانی بستیوں پر یلغار کی ہے اور اسے جزو ِ لاینفک کا درجہ حاصل ہوا ہے، تب سے ہر خاص و عام نے زیادہ بولنا شروع کردیا اور اس کا گفت و شنید کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ مَیں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا مگر آپ خود تصور کرلیجئے جب موبائل نہیں تھا تب انسانی بول چال کتنی تھی اور موبائل آنے کے بعد کتنی ہوگئی ہے۔ موبائل کو اچھائی یا برائی کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے یہ دیکھئے کہ وہ کتنا شاطر ہے۔ یہ اپنے ریکارڈ میں بہت کچھ درج کرلیتا ہے۔ اگر آپ جاننا چاہیں کہ دن بھر میں آپ نے کتنی دیر بات چیت کی تو موصوف بتا دیں گے بلکہ خانہ بندی بھی کردیں گے کہ آپ نے ’’اِن کمنگ‘‘ کال پر کتنی دیر گفتگو کی اور ’’آؤٹ گوئنگ‘‘ کال پر کتنی دیر۔ چونکہ موبائل کی ترقی روز افزوں ہے اس لئے کچھ عجب نہیں کہ آنے والے دِنوں میں یہ، یہ بھی بتانے لگے کہ آپ نے بات چیت کے دوران کتنے الفاظ استعمال کئے (اُس کے بعد کی منزل یہ ہوسکتی ہے کہ دوران گفتگو آپ کی کتنی باتیں سچ پر مبنی تھیں اور کتنی جھوٹ پر مبنی)۔ جس دن موبائل یہ بتانے لگے گا کہ دن بھر کی بات چیت میں آپ نے، ہم نے کتنے الفاظ استعمال کئے تب ہی ہمیں صحیح اعدادو شمار مل سکیں گے اور شاید تب ہمارے ہوش اُڑ جائیں۔ 
 اب آئیے ضروری اور غیر ضروری کی بحث کی طرف۔ آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ موبائل فون پر اکثر لوگ ضروری کم، غیر ضروری باتیں زیادہ کرتے ہیں۔ان میں ایسے بھی ہیں جو  لمبی چوڑی تمہید باندھتے ہیں تب کہیں جاکر اصل مدعا پر آتے ہیں۔ بعض لوگ جس بات کا حوالہ دیتے ہیں اُسی کی تفصیل میں چلے جاتے ہیں اور اصل مدعا بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس مشاہدہ کے آئینے میں  ’’ضروری‘‘ اور   ’’غیر ضروری‘‘کے فرق کو سمجھا جاسکتا ہے۔
  اب سے تیس چالیس برس پہلے تک کہا جاتا تھا کہ کم گوئی دانائی اور وقار کی علامت ہے۔اب ایسا کہنے والے نہیں رہ گئے ہیں بلکہ افسوس کہ دانائی کا حقیقی مفہوم جاننے والے بھی شاید اتنے ہی ہوں کہ اُنگلیوں پر گنے جاسکیں۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ دانائی رُخصت ہو رہی ہے اور نادانی پروان چڑھ رہی ہے بالکل اُسی طرح جس طرح علم کم ہورہا ہے اور معلومات بڑھ رہی ہے یا سوچنا سمجھنا اور غور کرنا کم ہورہا ہے اور دیکھنا، سننا اور بولنا بڑھ رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK