انسان غربت کو بلاتا نہیں، غربت اُسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے۔ یہ نہ ہو تو دُنیا کا کوئی انسان غریب ہونا پسند نہ کرے۔ چونکہ وہ من چاہے طریقے سے غریب نہیں بنا اس لئے اُسے غربت سے باہر لانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔
EPAPER
Updated: May 19, 2025, 1:00 PM IST | Professor Sarwar Al-Huda | Mumbai
انسان غربت کو بلاتا نہیں، غربت اُسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے۔ یہ نہ ہو تو دُنیا کا کوئی انسان غریب ہونا پسند نہ کرے۔ چونکہ وہ من چاہے طریقے سے غریب نہیں بنا اس لئے اُسے غربت سے باہر لانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔
نہ مفلسی ہو تو کتنی حسین ہے دنیا۔ فراق کی نظم ’’آدھی رات‘‘ کا یہ مصرعہ نظم میں کچھ اس طرح آتا ہے جیسے رات کے سناٹے میں کوئی انکشاف ہوا ہو۔ اور ایک سادہ سا مصر عہ انسانی زندگی کی ایک بڑی سچائی کا بوجھ اٹھا لیتا ہے۔ مفلسی کے بارے میں یہ بات کسی سیاسی ایجنڈے کے تحت نہیں کہی گئی تھی۔ نگاہ جب دنیا کی طرف جاتی ہے تو اسے لوٹ کر اپنی طرف بھی آنا ہوتا ہے۔ دیکھنے والی نگاہ کیا دیکھتی ہے اور وہاں سے کیا کچھ اپنے لئے اور دوسروں کے لئے لاتی ہے اس کا تعلق تو دیکھنے والے کی نظر اور حساسیت سے ہے۔ مفلسی نہ تو کوئی نیا موضوع ہے اور نہ اب اس کے بارے میں کوئی نئی بات کہی جا سکتی ہے لیکن اسے بغور دیکھنے اور محسوس کرنے کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہوا ہے۔ غربت ایک ایسی سچائی ہے جو نظر کے سامنے بکھری ہوئی ہے۔بکھری ہوئی شاید پامال بھی ہوتی ہے اور ٹھکرائی بھی جاتی ہے۔ انسانی معاشرہ مختلف طبقاتی تضادات کے ساتھ موجود ہے لیکن کئی ایسی سچائیاں ہیں جو تضادات کے درمیان وحدت پیدا کرتی ہیں۔ مفلسی کے بارے میں کس نے پہلی مرتبہ سوچا اور لکھا، اس کی تحقیق سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مفلسی وقت کے ساتھ گھٹی ہے یا بڑھی ہے۔ حکومت کے کارپرداز جو منصوبے بناتے ہیں ان کا رشتہ مفلسی کی زندگی سے بھی ہوتا ہے۔حکومت بار بار یہ یقین دلاتی ہے کہ کوئی بھی شخص بھوکا نہ رہے اور اسے صاف پانی میسر ہو۔ یہ جذبہ عملی سطح پر دکھائی بھی دیتا ہے لیکن اس حقیقت کو کیا کہا جائے کہ مفلسی بڑھتی ہی جاتی ہے، کم نہیں ہوتی۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ اور چین کی رسہ کشی اور عالمی معاشی غلبہ کا سوال
مفلسی کا تعلق کسی خاص طبقے یا برادری سے تو نہیں ہے مگر یہ ضرور ہے کہ کوئی خاص طبقہ اس کی گرفت میں زیادہ ہے۔ جب مفلسی کسی خاص طبقے کی پہچان بن جائے تو وہاں سے ایک سیاست بھی اپنے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ اس طبقے کی نفسیاتی الجھن اگر نہ بھی ہو تو بھی رفتہ رفتہ وہ طبقہ الجھن کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہماری سیاسی زندگی میں کچھ ایسے نعرے بھی سامنے آئے جن میں عام انسانی آبادی کے تعلق سے درد مندی بھی تھی اور فکرمندی بھی۔ یہ نعرے بتاتے ہیں کہ ایک آبادی اپنی پریشاں حالی کے ساتھ سہولتوں کی منتظر ہے۔ انتظار کی گھڑیاں کتنی طویل ہوتی جاتی ہیں، اس درمیان کسی گھر اور خاندان کے لوگ اپنی پریشاں حالی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ درخت لگانے والا اس امید کے ساتھ درخت لگاتا ہے کہ کوئی اس کی چھاؤں میں بیٹھے گا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اس وقت نہیں ہوگا۔ فٹ پاتھ پر سے گزرتے ہوئے اور وہ بھی گرمی کے موسم میں، کتنا دکھ ہوتا ہے انہیں دیکھ کر جو ریڈ لائٹ کے نیچے مسافروں سے کچھ مانگتے ہیں اور جب شام ڈھلتی ہے تو اسی فٹ پاتھ پر سو جاتے ہیں۔ مانگنے والوں میں زیادہ تر بچے ہوتے ہیں اور بزرگ بھی۔ یہ وہ مفلسی ہے جو شہر کی مختلف سرخ بتیوں (ریڈ لائٹ) کے درمیان نہ صرف دکھائی دیتی ہے بلکہ سنائی بھی دیتی ہے۔
جب مفلسی خاموش تھی تو اس کو محسوس کرنے والے لوگ زیادہ تھے۔ اب غربت اعلان کرتی ہے تو لوگ پہلے کی طرح کان نہیں دھرتے۔ گاڑی کا شیشہ کبھی نیچے آ جاتا ہے، اور مانگنے والے کے چہرے پر چمک آ جاتی ہے۔ بعض بچے شیشے کو نیچے دیکھ کر نہ صرف ہاتھ بڑھاتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ بچوں کے چہرے پر وقت کا اتنا اثر دکھائی دیتا ہے کہ نگاہ جھک جاتی ہے۔ ان چہروں پر فکر کی نہیں بلکہ غربت کی لکیریں ہیں۔ لوگ ریڈ لائٹ کی اس زندگی کو اپنا انتخاب بتاتے ہیں یعنی یہ لوگ اسی زندگی کے ساتھ بہت خوش ہیں۔ چاہے یہ کلچر جس ذہن کی نمائندگی کرتا ہو، اس میں نہ تو کوئی خوشحالی ہے اور نہ مستقبل کی تعمیر کا کوئی منصوبہ۔ یہ زندگی حال بھی ہے اور مستقبل بھی۔ اس کی روح میں جو بے یقینی اور لاچاری ہے اس کو کسی مخصوص کلچر کی پیداوار بتانا کس حد تک مناسب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فٹ پاتھ پر سونے والے اور ریڈ لائٹ پر بھیک مانگنے والے دنیا بھر میں ایک ہی طرح کی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ ماحول کے فرق کے باوجود ان کی الجھن اور نفسیاتی الجھن ایک جیسی ہے۔ اس خاص طبقے کی زندگی کو قریب سے دیکھا جائے تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ زندگی کتنی آسان بنا لی گئی ہے۔
میں نے قریب کے ریڈ لائٹ پر ایک شخص کو دیکھا ہے،جس کا پورا وجود کبھی یہ تاثر پیش کرتا تھا کہ وہ نہ صرف دو ہاتھ سے بلکہ پورے وجود کے ساتھ سوالی ہے ۔ دو دہائیوں میں اس کا جسم دہرا ہوتا گیا اور اب وہ ایک کونے میں بیٹھ کر مسافروں کو دیکھتا ہے اور کچھ نہیں کہتا۔ اس درمیان کچھ نئے لوگ اس ریٹ لائٹ پر آ گئے اور وہ شخص ایک اجنبی کی طرح وقت گزار رہا ہے۔اس کی آنکھوں میں گزرے ہوئے دنوں کی دھول ہے اور ذہن اتنا دور جا چکا ہے کہ اسے سامنے کی چیزیں اچھی معلوم نہیں ہوتیں۔
ایک مرتبہ میرا جی چاہا کہ اس سے کچھ بات کروں تو وہ ہاتھ جوڑ کر مجھے آگے جانے کے لئے راستہ دکھانے لگا۔ مگر اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور شاید تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی اس کا ذہن دور دراز علاقے سے اپنی طرف لوٹ آیا تھا۔ جیسے جیسے موسم سخت ہوتا جاتا ہے، ریڈ لائٹ کی زندگی اور بھی مشکل ہوتی جاتی ہے۔یہ مشکل سردی کے موسم کی مشکل سے زیادہ بڑی ہے۔ گرم ہوا، گرم کوٹ تو نہیں لیکن جب گرم ہوا گرم کوٹ کی طرح جسم سے الجھنے اور چپکنے لگے تو جسم انگارہ بن جاتا ہے۔ ایک انگارہ وہ بھوکا پیٹ بھی ہے۔ کتنے انگارے ہیں جن کے درمیان ریڈ لائٹ کی زندگی روشن ہے۔ کتنی زندگیاں ان انگاروں کے ساتھ اندھیروں کی زد میں ہیں۔ رکشہ کھینچنے والے اور سامان کو ڈھونے والے، اپنے پسینے کے ساتھ بے خوف زندگی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ خوف وہاں ہے جہاں کھونے کے لئے بہت کچھ ہے۔ جن کے پاس کچھ نہیں اُنہیں کوئی خوف بھی نہیں۔ سیاسی اور سماجی زندگی میں جب انتشار ہو تو مفلسی کا خیال بھی کم کم آتا ہے۔ مفلسی کی بہت سی صورتیں اور شکلیں ہیں۔ آسودگی کی صورتیں اور شکلیں مئی جون کی چلچلاتی دھوپ میں ریڈ لائٹ کی زندگی سے کچھ اور بھی اجنبی دکھائی دیتی ہیں۔ فراق کی نظم کی داخلی فضا میں جنگ جاری ہے اور صاف محسوس ہوتا ہے کہ جنگ کا نتیجہ غربت اور بدحالی کے سوا کچھ اور نہیں۔ جنگ، مفلسی اور فطرت ان سب کے درمیان انسانی زندگی کس قدر دکھوں سے دوچار ہے۔ فراق نے اسی نظم میں کہا: اک آدمی ہے کہ اتنا دکھی ہے دُنیا میں۔