رب العالمین نے فرمایا ہے کہ ’’مجھے پکارو، میں تمہاری پکار کو سنتا ہوں‘‘۔ ہمیں چاہئے کہ پکارنے کی طرح پکار کر تو دیکھیں۔
انسان اپنے مسئلوں کو خود سلجھانے کی کوشش کرے، مگر اپنی قوت کا سرچشمہ اللہ کی طرف رجوع سے حاصل کرے۔ تصویر: آئی این این
دنیا کی یہ رنگا رنگ، مصروف اور متلاطم زندگی بظاہر روشنیوں سے بھری دکھائی دیتی ہے، مگر ہر انسان کے باطن میں کبھی نہ کبھی اندھیروں کی ایک شام ضرور اُترتی ہے۔ یہ شام اُس وقت آتی ہے جب امید کی شمعیں بجھنے لگتی ہیں، جب خوابوں کی عمارتوں میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں اور جب انسان کو اپنے ہی وجود کی معنویت مشکوک دکھائی دینے لگتی ہے۔ ایسے وقت میں جب روح بے چین، دل بوجھل اور ذہن پژمردہ ہو جاتا ہے، انسان کے سامنے بظاہر دو راستے کھلتے ہیں : ایک، شکایت اور شکوے کا راستہ، جس پر چل کر انسان دوسروں کے سامنے اپنا دکھڑا بیان کرتا ہے مگر سکون نہیں پاتا؛ اور دوسرا، صبر، فکر اور رجوع الی اللہ کا راستہ، جو کٹھن ضرور ہے مگر بالآخر نور کی طرف لے جاتا ہے۔
لیکن اکثر انسان پہلا راستہ اختیار کرتا ہے۔ وہ اپنے زخموں کو انسانوں کے سامنے کھولتا ہے، اُن دلوں سے مرہم مانگتا ہے جو خود زخم خوردہ ہیں۔ نتیجتاً اس کی روح اور بھی زخمی ہوتی جاتی ہے۔ جب ہر در بند نظر آتا ہے تو وہ مایوسی کے اس گڑھے میں گر جاتا ہے جہاں روشنی کے ذرے تک ناپید ہوتے ہیں۔ یہی مایوسی اس کے ذہن کو اس خطرناک وہم کی طرف مائل کرتی ہے کہ شاید زندگی اب بوجھ بن چکی ہے، اور اب اس بوجھ کو اتار پھینکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں خودکشی کا خیال جنم لیتا ہے اور یہ خیال عقل و ایمان دونوں کی شکست کی علامت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خودکشی کوئی نجات نہیں، بلکہ مایوسی کی غلامی کا اعتراف ہے۔ یہ بزدلی کا مظہر ہے، اس بات کا اعلان ہے کہ انسان نے زندگی کے امتحان سے فرار اختیار کیا ہے۔ حالانکہ زندگی کا اصل حسن تو اسی جدوجہد میں پوشیدہ ہے جس میں انسان زخم کھا کر بھی مسکراتا ہے، ٹوٹ کر بھی جڑنے کی ہمت کرتا ہے، اور ہر شکست کو نئی بصیرت میں بدل دیتا ہے۔ قرآن نے اسی کیفیت کو ایک جملے میں سمو دیا، فرمایا: ’’اللہ کی رحمت سے نا اُمید مت ہو جاؤ۔ ‘‘
یہی وہ ربانی صدائے حیات ہے جو مایوس روح کو پھر سے سانس لینے کا حوصلہ دیتی ہے۔ انسان جب اپنے خالق کی طرف پلٹتا ہے تو گویا اپنی اصل پہچان کی طرف لوٹتا ہے۔ وہ ذات جس نے انسان کو عدم سے وجود بخشا، جو ہر آن اس کے ساتھ ہے، جو دلوں کا بھید جانتی ہے، اور جو بے آواز سسکیوں کو بھی سنتی ہے، وہی ذات انسان کی حقیقی پناہ گاہ ہے۔
مایوسی دراصل یقین کے زوال کا دوسرا نام ہے۔ جب انسان اپنے خالق پر اعتماد کھو بیٹھتا ہے تو زندگی کی ہر مشکل اسے بے معنی اور ہر دکھ اسے ناقابلِ برداشت محسوس ہونے لگتا ہے۔ لیکن جس نے یہ مان لیا کہ کائنات کا ہر واقعہ کسی نہ کسی مقصد کے تحت وقوع پذیر ہوتا ہے، اس کے دل میں کبھی ناامیدی کا بسیرا نہیں ہوتا۔ وہ جان لیتا ہے کہ ہر مصیبت ایک راز رکھتی ہے، اور ہر ناکامی اپنے اندر کامیابی کی کوئی نئی راہ چھپائے ہوئے ہے۔ زندگی کے واقعات محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک پوشیدہ حکمت کا حصہ ہیں۔ انسان جب اس حقیقت کو سمجھ لیتا ہے تو شکایت کے بجائے غور و فکر کرنے لگتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ مشکلیں اسے توڑنے نہیں بلکہ نکھارنے کے لئے آتی ہیں۔ دکھ، دراصل روح کی تربیت کا ایک مرحلہ ہے، جو انسان کے صبر، حوصلے اور یقین کو نئی شکل دیتا ہے، تاکہ وہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچان سکے۔
درد اگر شعور کے سانچے میں ڈھل جائے تو وہ بوجھ نہیں رہتا بلکہ روشنی بن جاتا ہے۔ انسان جب اپنے دکھوں کو شکوؤں میں نہیں بلکہ دعا میں بدل دیتا ہے تو اس کے اندر سکون کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ آنسو کمزوری کی علامت نہیں، بلکہ بندگی کی گہرائی ہیں۔ اور جب دل سچائی اور امید کے ساتھ اپنے خالق کی طرف رجوع کرتا ہے تو اندھیروں میں بھی روشنی نظر آنے لگتی ہے۔ اسی لئے کہا گیا: ’’جو اپنے زخموں کو چھپا کر مسکراتا ہے، وہ دراصل اپنے خالق کے قریب ترین ہوتا ہے۔ ‘‘
چنانچہ، انسان کو چاہئے کہ اپنے مسئلوں کو خود سلجھانے کی کوشش کرے، مگر اپنی قوت کا سرچشمہ اللہ کی طرف رجوع سے حاصل کرے۔ اپنی ہر مشکل، ہر غم، ہر اضطراب، اور ہر بے قراری اس کے حضور پیش کرے کیونکہ وہی ذات قرآن میں اعلان کرتی ہے:’’مجھے پکارو، میں تمہاری پکار کو سنتا ہوں۔ ‘‘یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب سجدے کی زمین آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہے اور دل کے دروازے پر نور کی کرن دستک دیتی ہے۔ پھر انسان سمجھتا ہے کہ مشکلیں راہِ فنا نہیں بلکہ راہِ ارتقا ہیں۔ زندگی کی اصل جیت یہ نہیں کہ ہم کبھی گِریں نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہر بار گر کر بھی اٹھنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ جو مایوسی کا گلا گھونٹ دے، وہی دراصل زندگی کو جیتا ہے۔ اور جو اللہ کی رحمت پر یقین رکھ لے، وہ کبھی ہارا ہوا نہیں رہتا۔