Inquilab Logo

بی جے پی کو زمین پر لانے والے لوک سبھا انتخابات کے خوش کن نتائج

Updated: June 09, 2024, 2:48 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

تمام اندازوں اور اگزٹ پول کو غلط ثابت کرتے ہوئے انڈیا اتحاد نے قابل ذکر کامیابی حاصل کی۔ ۴۰۰؍ پار کا نعرہ بلند کرنے والی بی جے پی کو حکومت سازی کیلئے اتحادیوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔

Without taking Chandrababu Naidu and Nitish Kumar into confidence, now Modi will not be able to take any important decision
چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار کو اعتماد میں لئے بغیر اب مودی کوئی اہم فیصلہ نہیں کر سکیں گے۔ تصویر : آئی این این

تمام اندازوں اور اگزٹ پول کو غلط ثابت کرتے ہوئے انڈیا اتحاد نے قابل ذکر کامیابی حاصل کی۔ ۴۰۰؍ پار کا نعرہ بلند کرنے والی بی جے پی کو حکومت سازی کیلئے اتحادیوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔ یو پی اے کے دور حکومت میں بدعنوانی، مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان عوام کو سنہرے خواب دکھا کر اقتدار میں آئی بی جے پی نے ان بنیادی مسائل کو سرے سے نظر انداز کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آزادی کے بعد ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی عروج پر پہنچ گئی۔ مگر بی جے پی عوام کو ایودھیا میں رام مندر، آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی اور شہریت ترمیمی قانون جیسے غیر ضروری فیصلوں سے رام کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ خواتین کے مسائل کو نظر انداز کیا گیا، منی پور میں خواتین کی بے عزتی کی گئی، اپوزیشن کے لیڈروں کو سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ اپنی پارٹی میں شامل کیا گیا اور انکار کرنے والوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ حد تو اس وقت ہوگئی جب ملک کے کسانوں نے احتجاج کیا تو انہیں دہشت گرد قرار دے دیا گیا اور ان پر گولیاں برسائی گئیں۔ اس سب کا اثر یہ ہوا کہ عوام مودی سرکار سے بدظن ہوگئی اور اس کی رعونت پر خاک ڈال دی۔ 
سامنا(۵؍جون)
 اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ’’خود کو بھگوان کا اوتار سمجھنے والے نریندر مودی کو ہندوستان کے عوام نے شکست سے دوچار کر دیا۔ اسے ہم آمریت پر جمہوریت کی فتح قرار دے سکتے ہیں۔ مودی کا چار سو پار کا نعرہ سوکھے پتے کی طرح ہوا میں اڑ گیا۔ عوام نے ثابت کردیا کہ وہی اس ملک کے اصل محافظ ہیں اور غرور، گھمنڈ اور تکبر کرنے والوں کو وہ ان کی اصل جگہ دکھانے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔ بنارس میں جب نریندر مودی پیچھے چل رہے تھے تب یقین ہوگیا کہ کوئی غیبی طاقت ضرور ہے۔ مودی اور شاہ کی جوڑی نے ملک میں کہرام مچا رکھا تھا۔ عوام کو بھی کھل کر اپنے من کی بات کہنے کی آزادی نہیں تھی۔ حکومت کے خلاف معمولی لب کشائی کرنے والوں کو سیدھا جیل میں ڈال دیا گیا۔ دہلی اور جھاڑ کھنڈ کے وزرائے اعلیٰ کو براہ راست جیل بھیجنے والے مودی اورشاہ نے بی جے پی کو واشنگ مشین بنا دیا۔ ملک کی تمام پارٹیوں کے بدعنوان لیڈروں کو بی جے پی میں شامل کرکے’آئے گا تو مودی ہی‘ کا نعرہ بلند کرنے والوں عوام نے اوقات دکھا دی ہے۔ بی جے پی کو واضح اکثریت نہیں ملی ہے اور نام نہاد این ڈی اے نے معمولی اکثریت حاصل کی ہے۔ اتر پردیش میں رام مندر کی سیاست کرکے اپنے آپ کو ہندوؤں کا شنکر اچاریہ سمجھنےکی کوشش کرنے والےمودی کو زبردست جھٹکا لگا ہے۔ یوپی میں کانگریس اور سماج وادی پارٹی نے ۸۰؍ میں سے ۴۳؍ سیٹیں جیتی ہیں۔ امیٹھی میں اسمرتی ایرانی کو راہل گاندھی کے پی اے نے شکست سے دوچار کردیا ہے۔ مودی کے غرور اور تکبر کو چکنا چور کرنے میں سب سے اہم کردار یوپی اور مہاراشٹر نے ادا کیاہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: ڈومبیولی میں گیس کا اخراج اگر یوں ہی جاری رہا تو دوسرا ’بھوپال گیس سانحہ‘ بھی ہوسکتا ہے

سکال(۵؍جون)
 اخبار اداریہ لکھتا ہے کہ’’پارلیمانی نتائج نے ظاہر کیا کہ سیاست میں من مانی طرز کی حکمرانی نہیں چلتی ہے۔ اگرچہ عوامی مینڈیٹ کے سبب این ڈی اے اقتدار تک پہنچ رہا ہےتاہم کچھ پارٹیوں کے لیڈروں کے رخ میں تبدیلی سے بہت بڑا الٹ پھیر بھی ہوسکتا ہے۔ اس لوک سبھا انتخابات میں عوام نے ایک عجیب و غریب نتیجہ دیا ہے۔ بی جے پی کو سب سے زیادہ سیٹیں ملنے کے باوجود انڈیا اتحاد میں زیادہ جوش و خروش نظر آیا۔ مودی ضرور تیسری بار وزیراعظم بنیں گے مگر ان کی قیادت میں وہ جوش باقی نہیں رہے گی۔ ان نتائج سے مودی برانڈ کو زبردست دھچکا لگا ہے۔ قومی سیاست میں ایک بار پھر کانگریس کا عروج اس پارٹی کیلئے اور راہل گاندھی کیلئے بڑی راحت ہے۔ پہلی بار مودی کو اپنے بل بوتے اور اکثریت کے بغیر حکومت کرنی ہوگی جو ان کیلئے کسی سخت امتحان سے کم نہیں ہوگا۔ کیا وہ اس خوش فہمی سے باہر نکل کر اپنے اتحادیوں کو ساتھ لےکر چلنے کا ہنر دکھا پائیں گے کہ انہیں بھگوان نے بھیجا ہے۔ یہاں یہ نکتہ کافی دلچسپ ہے کہ الیکشن سے پہلے ہی مودی نے کہا تھاکہ بڑے فیصلوں کیلئے تیار رہے۔ اس مرتبہ رائے دہندگان نے ایسا مینڈیٹ دیا ہے کہ بی جے پی کو بڑے اور متنازع فیصلے لیتے وقت دس بار سوچنا پڑے گا۔ ان نتائج کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کوئی پارٹی عوام کو اپنی جاگیر نہ سمجھے۔ ایک دہائی کے بعد ملک میں مخلوط پارٹیوں کی حکومت کا دور لوٹ رہا ہے۔ یہ ان لوگوں کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے جو پنچایت سے پارلیمنٹ تک اپنا اقتدار چاہتے تھے۔ الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی مودی نے تیسری بار اپنی جیت کو یقینی سمجھ لیا تھا۔ تاہم یہ مفروضہ انتخابات کے ہر مرحلے کے ساتھ تبدیل ہوتا گیا۔ اگرچہ اپوزیشن کا اتحاد پچھلے دو انتخابات کی بہ نسبت زیادہ متحد تھا لیکن کیرالا، مغربی بنگال اور پنجاب میں انڈیا اتحاد ایک دوسرے کے خلاف ہی برسر پیکار رہے، ورنہ صورتحال مختلف ہوتی۔ ‘‘
پربھات(۵؍جون)
 اخبار لکھتا ہےکہ ’’اٹھارہویں پارلیمانی انتخابات میں این ڈی اے کو معمولی اکثریت حاصل ہوئی جبکہ بی جے پی اکثریت کھو بیٹھی ہے۔ اس مخلوط حکومت میں مودی سرکار کو نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کے رحم وکرم پر فیصلے لینے ہوں گے۔ بی جے پی یہ الیکشن وزیر اعظم مودی کے ذاتی کرشمے پر لڑا تھا۔ اگرچہ ان کے اتحاد میں کئی پارٹیاں شامل تھیں مگر پچھلے دس برسوں میں مودی نے کبھی بھی این ڈی اے کی اتحادی جماعتوں کو گھاس نہیں ڈالی لیکن اب مودی ایسا نہیں کر پائیں گے کیونکہ اب چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار جیسے دو تجربہ کار لیڈروں کو اعتماد میں لئے بغیر یا ان سے پوچھے بغیرکوئی قدم نہیں اٹھا سکیں گے۔ اب امیت شاہ بھی یک طرفہ اور من مانے فیصلے نہیں کر پائیں گے۔ آزادی کے ۷۵؍برسوں میں مرکز کی کسی بھی حکومت نے انتخابی مقاصد کیلئے اپوزیشن کی ایسی درگت نہیں بنائی تھی۔ عین لوک سبھا انتخابات کے دوران کانگریس جیسی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سارے بینک کھاتوں کو منجمد کرکے اسے مالی طور پر معذور کر دیا تھا۔ عوام کے اس فیصلے کو اسی کا جواب سمجھا جاسکتا ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK