اس فیصلے کے بعد بھی اوقاف کے بہی خواہوں کی جد و جہد جاری رہنی چاہئے۔
EPAPER
Updated: September 17, 2025, 1:40 PM IST | Dr. Syed Zafar Mahmood | Mumbai
اس فیصلے کے بعد بھی اوقاف کے بہی خواہوں کی جد و جہد جاری رہنی چاہئے۔
آج وقف ایکٹ ۲۰۲۵ پر آنے والےسپریم کورٹ کے عبوری حکم کا مؤثرحصہ پیرا ۲۰۹ میں تحریر ہے۔ اس کے مطابق تمام حالات و واقعات کے پیشِ نظر سپریم کورٹ کو ایسا نہیں لگا کہ پورے قانون کے نفاذ پر روک لگانے کی کوئی بنیاد موجود ہے لہٰذا پورے متنازع ایکٹ پر عمل درآمدکو روکنے کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے البتہ ایسا کرتے ہوئے فریقین کے مفادات کے تحفظ اور انصاف کے تقاضوں کے پیش نظر، جب تک یہ مقدمات زیرِ سماعت ہیں، سپریم کورٹ نے وقف ایکٹ ۲۰۲۵ء کی چند شقوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔
وقف ایکٹ ۲۰۱۳ء کے سیکشن۹؍ کے مطابق مرکزی وقف کاؤنسل میں۱۴؍ممبر ہوتے تھے جس کے صرف چیئرمین ہی کیلئے ممکن تھا کہ وہ مسلمان نہ ہوں کیونکہ متعلقہ وزیر ہی کاؤنسل کا چیئرمین ہوتا ہے۔۲۰۲۴ء کے ترمیمی ایکٹ کے مطابق ممبروں کی تعداد بڑھا کر ۲۳؍کر دی گئی اور اس میں سے دو ممبروں کیلئے منفی پابندی ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہوں گے بلکہ اس امکان کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ مزید ۱۱؍ ممبر بھی مسلمان نہ ہوں یعنی ۱۳؍ ممبر تک کیلئے مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے لہٰذا اکثریت غیر مسلم ممبران کی ہو سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے۱۵؍ ستمبر ۲۰۲۵ء کے آرڈر کے مطابق مرکزی وقف کونسل میں۲۲؍ اراکین میں سے۴؍سے زیادہ غیر مسلم شامل نہیں ہوں گے جبکہ ۲۰۲۴ء کے ایکٹ کے تحت جوڑے گئے ۲۳؍ویں ممبر کے بارے میں عدالت نے اپنے حکم نامے میں خاموشی اختیار کی ہے۔ اور اسی طرح سپریم کورٹ کے تازہ حکم کے مطابق صوبائی وقف بورڈوں میں۱۱؍ اراکین میں سے۳؍سے زیادہ غیر مسلم شامل نہیں ہوں گے۔
اس سلسلے میں اوقاف کے بہی خواہوں کی جد و جہد جاری رہنی چاہئے۔ دراصل وقف ایکٹ ۲۰۲۴ء کے تحت مرکزی وقف کاؤنسل اور صوبائی وقف بورڈوں کے کم از کم ۲؍ افراد کیلئے ضروری ہے کہ وہ مسلمان نہ ہوں، اس شق کو مسترد کر دیا جانا چاہئےکیونکہ یو پی، کیرالا، کرناٹک، تمل ناڈو ، آندھرا پردیش وغیرہ صوبوں میں ایسے قوانین موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہندو مذہب کی املاک کے امور کا انتظام کرنے والوں کا ہندو مذہب کا پیروکار ہونا ضروری ہے۔ ٹھیک اسی طرح، وقف کی جائیدادوں کا انتظام مسلمانوں کے ذریعے ہی کیا جانا چاہئے لہٰذا کور ٹ میں یہی زور دیا جائے کہ ۲۰۱۳ء کے وقف قانون کی اس شق کو برقرار رکھا جائے جس کے تحت مرکزی وقف کاؤنسل اور صوبائی وقف بورڈوں کے اراکین کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ۲۰۱۳ کے وقف قانون میں مقررہ ’انتخاب‘ کو ریاستی حکومت کے ذریعہ ’نامزدگی‘ سے تبدیل نہیں کیا جانا چاہئے۔ یہاں یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ مذہبی امور میں ایسی بیجا مداخلت کی قانونی تردید۱۶۰؍ برس سے زائد سے ہمارے ملک عزیز میں قائم ہے کیونکہ۱۸۶۳ء کے مذہبی اوقاف ایکٹ کے سیکشن ۸؍ میں لکھ دیا گیا تھا کہ ’ کمیٹی کے اراکین کو ان افراد میں سے مقرر کیا جائے گا جو اس مذہب کے پیروکار ہوں جس کے مقصد کیلئےمسجد، مندر یا دیگر مذہبی ادارہ قائم کیا گیا تھا یا جسے اب تک برقرار رکھا گیا ہے۔ موجودہ دور میں بھی جس طرح ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں کے مذہبی امور میں کسی دیگر مذہبی طبقے کی اور حکومت کی مداخلت نہیں ہوتی ہے اسی طرح اوقاف میں بھی کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔
دوئم، سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ ترمیم شدہ وقف ایکٹ کی دفعہ’تین سی‘ کی ذیلی دفعہ (۲) کی تحت شق بشرطیکہ جب تک نامزد افسر اپنی رپورٹ پیش نہ کرے، ایسی جائیداد کو وقف جائیداد نہیں مانا جائے گا اور دفعہ تین سی کی ذیلی دفعات(۳) اگر نامزد افسر یہ طے کرے کہ جائیداد سرکاری ہے، تو وہ ریونیو ریکارڈ میں ضروری ترمیم کرے گا اور اس بارے میں ریاستی حکومت کو رپورٹ دے گا اور (۴) ریاستی حکومت نامزد افسر کی رپورٹ موصول ہونے پر، بورڈ کو ریکارڈ میں مناسب ترمیم کرنے کی ہدایت دے گی ’معطل‘ رہیں گی۔
سوئم سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ جب تک وقف جائیداد کی ملکیت سے متعلق معاملہ، جیسا کہ دفعہ تین سی کے تحت ہے، دفعہ ۸۳؍ کے مطابق قائم شدہ ٹریبونل میں حتمی طور پر طے نہیں ہو جاتا اور ہائی کورٹ کے آئندہ احکامات کے تحت، نہ تو اوقاف کو جائیداد سے بے دخل کیا جائے گا اور نہ ہی ریونیو ریکارڈ یا وقف بورڈ کے ریکارڈ میں کوئی ترمیم کی جائے گی۔ علاوہ ازیں، جب دفعہ تین سی کے تحت انکوائری شروع ہو جائے تو ٹریبونل کے تحت دفعہ۸۳؍ میں حتمی فیصلے تک اور ہائی کورٹ کی اپیل میں آئندہ احکامات کے تحت، ایسی جائیدادوں کے سلسلے میں کسی تیسرے فریق کے حقوق پیدا نہیں کئے جائیں گے۔
سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ اگرچہ وہ ترمیم شدہ وقف ایکٹ کی دفعہ۲۳؍ کو معطل کرنے کیلئے بہت مائل نہیں ہے، پھر بھی اس نے ہدایت دی ہے کہ حتی المقدور کوشش کی جائے کہ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (جو بحیثیت عہدہ سکریٹری بھی ہیں) کا تقرر مسلم برادری سے ہی کیا جائے۔ اوقاف کے بہی خواہوں کو سپریم کورٹ سے درخواست کرنی چاہئے کہ ۲۰۱۳ کے وقف ایکٹ کی اس شق کو برقرار رکھا جائے جس کے تحت صوبائی وقف بورڈوں اور مرکزی وقف کاؤنسل کے سیکریٹری کا مسلمان ہونا لازمی ہے۔
وقف ایکٹ ۲۰۱۳ء کے سکشن۳ (r) میں وقف کی بہت جامع تعریف دی ہوئی ہے یعنی کسی شخص کی جانب سے کسی بھی حرکت پذیر یا بےحرکت جائیداد کو مستقل طور پر نذرکردینا کسی ایسے مقصد کیلئے جو مسلم قانون کے تحت متقی ، دینی یا صدقہ جاتی تسلیم کیا گیا ہو۔ ۲۰۲۴ء کے ترمیمی ایکٹ کے ذریعہ لفظ ‘کسی شخص’ کو ہٹا کر اس کا متبادل لایا گیا ہے ’کوئی بھی شخص جو کم از کم پانچ برس سے مذہب اسلام پر عمل کر رہا ہو‘ ۔ یہ تجویز بنیادی اخلاقیات اور شائستگی کے خلاف ہے اور دستور ہند کی روح پر ضرب کرتی ہے۔ اس پیمانہ پر چلتے ہوئے تو ملک کے کسی بھی قانون میں جہاں کہیں کسی بھی مذہب کے ماننے والے کا ذکر ہو تو اس قانون کا نفاذ اس شخص پر تب ہی مانا جائے گا جب کہ وہ اس مذہب پر کم از کم پانچ برس سے قائم اور عمل پذیر ہو۔ ملک کے ہر شہری کی بنیادی دستوری ڈیوٹی ہے کہ وہ ہندوستان کے تمام لوگوں کے درمیان مذہبی و فرقہ وارانہ تنوع سے بالاتر ہو کر ہم آہنگی اور مشترکہ بھائی چارے کے جذبے کو فروغ دے۔ سپریم کورٹ نے اپنے آرڈر میں کہا ہے کہ ترمیم شدہ وقف ایکٹ کی دفعہ ۳؍ کی شق (r) کا حصہ ’’کوئی بھی شخص جو یہ ظاہر کرے یا ثابت کرے کہ وہ کم از کم ۵؍ برس سے اسلام پر عمل پیرا ہے‘‘ اس وقت تک معطل رہے گا جب تک ریاستی حکومت ایسے قواعد نہ بنا لے جن کے تحت یہ طے کرنے کا طریقہ وضع ہو کہ آیا کوئی شخص کم از کم پانچ برس سے اسلام پر عمل پیرا ہے یا نہیں۔ مسلمانوں کو ۲۰۱۳ء کے وقف قانون کی تعریف کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کرنا چاہئے۔
آخر میں سپریم کورٹ نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس آرڈر میں درج مشاہدات صرف عدالت کے ابتدائی غور و خوض پر منحصر ہیں، تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ متنازع ایکٹ یا اس کی دفعات پر عارضی روک لگائی جائے یا نہیں۔ یہ مشاہدات فریقین کو اس بات سے نہیں روکیں گے کہ وہ ترمیم شدہ وقف ایکٹ یا اس کی کسی بھی دفعہ کی آئینی حیثیت اور جواز پر اپنے دلائل پیش کر سکیں لہٰذا یہ ضروری ہے کہ مرکزی وقف کاؤنسل کے سابق ممبروں ، صوبائی وقف بورڈوں، متولیوں اور اوقاف کے سبھی بہی خواہوں کو چاہئے کہ سپریم کورٹ کے آرڈر کے اصل متن سے متعلق عوامی بیداری پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یہ بھی یقینی بنایا جانا چاہئے کہ وقف ایکٹ ۲۰۲۴ء کی جن شقوں کو سپریم کورٹ نے اسٹے نہیں کیا ہے ان پر بھی اوقاف کے بہی خواہ صاحبان گرمجوشی سے اپنا مدعا سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرتے رہیں۔n
(مضمون نگارزکوۃ فائونڈیشن آف انڈیا کے صدراور سابق آئی آر ایس افسر ہیںجووزیر اعظم کے دفتر میں اوایس ڈی بھی رہ چکے ہیں)