ملک بھر میں محکمہ صحت کی ناقص کارکردگی کی درجنوں مثالیں آئے دن خبروں کا حصہ بنتی ہیں لیکن جب معاملہ صوبے کے سربراہ کے شہر سے تعلق رکھتا ہوتو تشویش بڑھ جاتی ہے۔
EPAPER
Updated: August 20, 2023, 2:54 PM IST | Ejaz Abdul Gani, | Mumbai
ملک بھر میں محکمہ صحت کی ناقص کارکردگی کی درجنوں مثالیں آئے دن خبروں کا حصہ بنتی ہیں لیکن جب معاملہ صوبے کے سربراہ کے شہر سے تعلق رکھتا ہوتو تشویش بڑھ جاتی ہے۔
ملک بھر میں محکمہ صحت کی ناقص کارکردگی کی درجنوں مثالیں آئے دن خبروں کا حصہ بنتی ہیں لیکن جب معاملہ صوبے کے سربراہ کے شہر سے تعلق رکھتا ہوتو تشویش بڑھ جاتی ہے۔ گزشتہ سنیچر کی رات کلوا کے چھترپتی شیواجی مہاراج سرکاری اسپتال میں ناقص انتظام اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی ونیم طبی عملہ کی کمی کی وجہ سے چند گھنٹوں میں ۱۸؍ افراد زندگی کی جنگ ہار گئے۔ ایک دن میں اتنے بڑے پیمانے پر موت واقع ہونے سے اسپتال انتظامیہ کی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں مراٹھی اخبارات نے اس پر کیا کچھ لکھا ہے۔
مہاراشٹر ٹائمز (۱۵؍اگست)
اخبار اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’تھانے شہر، تھانہ ضلع اور تھانے کو تقسیم کر کے بنایا گیا پال گھر ضلع کی مشترکہ آبادی تقریباً دو کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔تاہم اتنی بڑی آبادی کیلئے طبی سہولیات کا فقدان سرکار کی بے حسی کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔تھانے میونسپل کارپوریشن کے چھترپتی شیواجی مہاراج اسپتال (کلوا) میں ۲۴؍ گھنٹوں میں ۱۸؍ اموات نے سرکاری اسپتالوں کے ناقص طبی نظام کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔مہاراشٹر کے۱۵؍ اضلاع میں ایک بھی میونسپل کارپوریشن نہیں ہے مگر تھانے ضلع میں ۶؍ میونسپل کارپوریشن ہیں ۔اس سے ضلع کی گھنی آبادی کااندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود ضلع میں طبی سہولیات سے لیس کوئی اچھا سا اسپتال نہیں ہے۔کلوا اسپتال جہاں بڑے پیمانے پر مریضوں کی موت واقع ہوئی، وہاں محض۵۰۰؍ بستر ہیں جبکہ یومیہ داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔اسپتال میں جہاں جگہ میسر ہو وہاں بستر لگا کر مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔یہ انتہائی خوفناک صورتحال ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ کلوا اسپتال میں ۹۰؍ مریضوں کیلئے صرف ایک نرس ہے۔اس وقت آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) کی شاخیں ملک بھر میں پھیل رہی ہیں ۔تھانے میں بھی ایمسں کھولنے کا مطالبہ کیا جارہا ہےتاہم کسی بڑے ادارے کے کھل جانے کا ہرگز مطلب نہیں ہے کہ پورا طبی نظام سدھر جائے گا۔ہر کوئی چاہتا ہے کہ تھانے میں ایمس جیسا معیاری اسپتال شروع ہومگر موجودہ سرکاری اور میونسپل اسپتالوں میں ناقص طبی خدمات کی وجہ سے عام لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑ رہی ہیں ۔ ۲۴؍گھنٹوں میں اتنی اموات کے بعد حکومت نے انکوائری کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہےلیکن جب ساری چیزیں واضح طور پر نظر آرہی ہیں تو انکوائری کمیٹی کی کیا ضرورت ہے؟ کورونا بحران میں تھانے میونسپل کارپوریشن انتظامیہ نے مہنگی طبی سہولیات کا انتظام کیاتھا، وہ سب کہاں گئیں ؟ گزشتہ کئی مہینوں سے کورونا کے مریض نہ ہونے کے برابر ہیں ایسے وقت میں کووڈ اسپتالوں میں رکھی تمام طبی سہولیات کو کلوا اور دیگر سرکاری اسپتالوں میں منتقل کیوں نہیں کیا گیا؟
لوک مت(۱۵؍اگست)
اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ’’ پورے ملک میں آزادی کا جشن روایتی جوش وخروش کے ساتھ منایا گیا۔ملک کو آزاد ہوئے سات دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت جانے کے باوجود ممبئی جیسے بڑے شہر سے ملحقہ تھانے کے کلوا سرکاری اسپتال میں سنیچر کی شب سے اتوار کی صبح تک ۱۸؍ غریب مریض معمولی بیماریوں سے فوت ہوگئے۔ہم نے انگریزوں کی غلامی سے نجات تو یقیناً حاصل کرلی لیکن آزادی کے حقیقی مفہوم تک نہیں پہنچ سکے۔طبی سہولیات انسان کا بنیادی حق ہے لیکن سرکاریں انہیں فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہیں اور ہم اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ کتنے ہندوستانی ارب پتیوں نے فوربس کی فہرست میں جگہ بنائی۔انگریز حکمراں بڑے ظالم تھے لیکن انہوں نے ممبئی میں کے ای ایم اور جے جے اسپتال کی بنیاد رکھ کر ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔آزادی کے بعد ہماری حکومتوں کے ذریعہ تعمیر کردہ اسپتالوں کی حالت حراستی کیمپوں سے مختلف نہیں ہے۔ کئی اسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کے قدم تو نظر آتے ہیں مگر ان کی واپسی کے نشانات نظر نہیں آتے ہیں ۔دعویٰ کیا جارہا ہے کہ تھانے کے سول اسپتال کی نئی عمارت زیر تعمیر ہونے کی وجہ سے اسے مینٹل اسپتال میں کی عمارت میں منتقل کیا گیا ہے اس لیے اچانک کلوا کے چھترپتی شیواجی مہاراج اسپتال میں مریضوں کا بوجھ بڑھ گیا۔ تھانے جیسے تیس لاکھ آبادی والے شہر میں سرکاری اسپتال کی منتقلی سے جو صورت حال پیدا ہوئی اگر اس کا صحیح اندازہ میونسپل کارپوریشن اور ریاستی حکومت کو نہیں آیا تو ذمہ داران کو فوراً استعفیٰ دے دینا چا ہئے۔ تھانے کے سرکاری اسپتالوں میں نہ صرف شہر بلکہ پال گھر ،شاہ پور، ناسک اور رائے گڑھ کے مریض اپنا علاج کروانے آتے ہیں بلکہ دوسرے دور دراز کے اضلاع سے بھی آتے ہیں ۔وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کا تعلق تھانے سے ہونے کی وجہ سے کلوا سانحہ پر سیاست ہونا فطری ہے اگرچہ اس حساس موضوع پر سیاست نہیں ہونی چاہئے مگر تھانے شہر کی خوبصورتی پر کروڑوں خرچ کرنے والے حفظان صحت کی بنیادی سہولیات کو نظر انداز کریں تو اسے کیا کہا جائے ؟
نو شکتی(۱۵؍اگست)
اخبار نے لکھا ہے کہ ’’آزادی کے امرت کال میں بھی ناسک، پال گھر اور تھانے ضلع کے دور دراز علاقوں میں بسنے والے قبائلیوں کو آج بھی سرکاری اسپتال میں داخل ہونے کیلئے میلوں سفر کرنا پڑتا ہے۔ دوردراز کے علاقوں میں آٹو رکشا چھوڑو چھوٹی ایمبولینس بھی نہیں پہنچ پاتی ہیں جس کی وجہ سے بے چارے مریض بر وقت علاج نہیں ملنے کے باعث دم توڑ دیتے ہیں ۔وہیں ریاست کے عام مریض دُہرے بحران میں مبتلا ہیں ۔اول وہ پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کی استطاعت نہیں رکھتے جبکہ سرکاری اسپتالوں میں مناسب طبی سہولیات میسر نہیں ہیں ۔ریاست کے ہر ضلع میں سرکاری اسپتال ہے مگر زیادہ تر اسپتالوں میں ڈاکٹر ،نرسیس اوروارڈ بوائے کی کمی پائی جاتی ہے ۔حالیہ دنوں میں بڑے شہروں میں واقع میونسپل اسپتالوں کی تعداد آبادی کے لحاظ سے کم پڑنے لگی ہیں ۔ تھانے، کلوا، ممبرا، دیوا، ڈومبیولی، بھیونڈی،الہاس نگر اور دوسرے شہروں سے یومیہ۵۰۰؍ سے زائد مریض کلوا کے چھترپتی شیواجی مہاراج اسپتال میں آتے ہیں ۔یہاں بستروں کی تعداد مریضوں کی تعداد کے مقابلے بہت کم ہیں ۔گزشتہ جمعرات کو ۵؍ مریضوں کی موت ہونے کے بعد لواحقین نے خوب ہنگامہ کیا تھا۔ ابھی یہ معاملہ سرد بھی نہیں پڑا تھا کہ سنیچر اور اتوار کے درمیان۱۸؍ مریض دوران علاج فوت ہوگئے۔یہاں ایک وارڈ میں ۴۹؍ مریضوں کی گنجائش ہے اور فی الوقت۹۰؍ مریضوں کو رکھا گیا ہے جن کی دیکھ بھال محض ایک نرس کررہی ہے۔درحقیقت یہ صورتحال کلوا کے سرکاری اسپتال تک محدود نہیں ہے بلکہ پوری ریاست کا صحت عامہ کا نظام وینٹی لیٹر پر چلا گیا ہے۔اس پر ریاستی حکومت کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔