زندگی کے تمسخر انگیز پہلو کی عکاسی ادب میں اسی قدر ضروری ہے جس قدر زندگی کے رقت انگیز پہلو کی۔ زندگی میں روشنی بھی ہے تاریکی بھی، خوشی بھی ہے اور غم بھی۔ ادب اس روشنی اور تاریکی، غم اور خوشی اور آنسو کا آئینہ ہے۔
EPAPER
Updated: August 25, 2024, 12:45 PM IST | Kaleemuddin Ahmed | Mumbai
زندگی کے تمسخر انگیز پہلو کی عکاسی ادب میں اسی قدر ضروری ہے جس قدر زندگی کے رقت انگیز پہلو کی۔ زندگی میں روشنی بھی ہے تاریکی بھی، خوشی بھی ہے اور غم بھی۔ ادب اس روشنی اور تاریکی، غم اور خوشی اور آنسو کا آئینہ ہے۔
زندگی درد و غم کا دوسرا نام ہے۔ ہماری زندگی ہی ہماری مصیبتوں کا پیش خیمہ ہے۔ ہم اس دنیا میں ستائے جانے کیلئے لائے گئے ہیں۔ انسان کمزور ہے اور اس کا ماحول لاپروا۔ انسان حساس ہے اسلئے اس کادل بہ آسانی رنج و الم کا نشانہ ہو سکتا ہے۔ اس کے دل میں فطرت نے ایسی امنگیں، ایسی تمنائیں ڈال دی ہیں کہ وہ فطری طور پر ان امنگوں اور تمناؤں کو عملی جامہ پہنانے پر مجبور ہو جاتا ہے لیکن جہاں اس کی تمناؤں نے عملی صورت اختیار کی وہیں اس کی تکلیفوں کی داستان شروع ہو گئی کیونکہ جس دنیا میں اسے لایا گیا ہے وہ اس کی تمناؤں کی مطلق پروا نہیں کرتا۔ یہ دنیا، نہ اس کی تمناؤں سے آگاہ ہے اور نہ اس سے آگاہ ہونا چاہتی ہے۔ کمزور لیکن حساس انسان اس بے حس لیکن طاقتور دنیا سے ٹکراتا ہے اور تکلیفیں سہتا ہے۔
یہ زندگی کی حقیقت ہے لیکن یہ پوری حقیقت نہیں۔ اگر یہی پوری حقیقت ہوتی تو شاید زندگی دشوار ہو جاتی۔ زندگی میں ایسے واقعات، ایسے مناظر اور ایسے لمحے بھی آتے ہیں جب انسان اس تلخ حقیقت کو وقتی طور پر بھول جاتا ہے۔ پس منظر میں ہمیشہ یہی تلخ حقیقت مہیب دیو کی طرح موجود رہتی ہے لیکن پیش منظر میں اکثر ایسے واقعات، ایسے مناظر اور ایسے متبسم لمحے بھی ملتے ہیں کہ انسان اس خوفناک اور تاریک پس منظر کے باوجود بھی مسکرا اٹھتا ہے یا قہقہے بلند کرتا ہے۔ یہ واقعات، مناظر اور لمحے بھی زندگی کے اجزا ہیں اور جو حضرات انہیں پس پشت ڈال دیتے ہیں وہ یونان کے گریاں فلسفی کی طرح حقیقی زندگی سے پوری واقفیت نہیں رکھتے۔
کہا گیا ہے کہ انسان ہنسنے والا جانور ہے۔ یہ پوری حقیقت نہیں لیکن اس مقولے میں انسان کی ایک اہم خصوصیت کا انکشاف ہے۔ فطرت نے انسان کو ہنسی کا مادہ عطا کیا ہے اور ہنسی مختلف وجوہ کی بنا پر آتی ہے۔ یہاں ہنسی کی ماہیت اور اس کے اسباب پر روشنی ڈالنے کا موقع نہیں۔ یہ بات مسلم ہے کہ ہم ہنستے ہیں جیسے ہم غصہ کرتے ہیں، نفرت یا محبت کرتے ہیں، جاگتے یا سوتے ہیں۔ اور ہنسی صحت کے لئے ضروری ہے۔ اگر ہنسی کا مادہ انسان سے سلب کر لیا جائے، اگر وہ اسباب نیست و نابود ہو جائیں جن کی وجہ سے ہم ہنستے ہیں تو پھر انسان ممکن ہے کہ فرشتہ ہو جائے لیکن وہ انسان باقی نہ رہےگا۔ غالباً فرشتے ہنستے ہیں نہ ہنسی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ جہاں ہر شے مکمل، موزوں و متناسب ہو وہاں ہنسی کا گزر نہیں ہو سکتا۔ ہنسی عموماً عدم تکمیل اور بے ڈھنگے پن کے احساس کا نتیجہ ہے۔ جسے اس کا حساس نہیں یعنی جسے ہنسی نہیں آتی اسے ہم انسان شمار نہیں کرینگے۔
ادب میں انسان کے تمام دماغی اوصاف، اس کے سارے حواس کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ہنسی بھی ایک انسانی خصوصیت اور زندگی کی ناتمامی کا نتیجہ ہے۔ اس لئے ادب میں اس کا بھی وجود ناگزیر ہے۔ ادب زندگی، زندگی کے ہر شعبے، زندگی کے نشیب وفراز، زندگی کے جملہ محاسن و معائب کی ترجمانی کرتا ہے۔ ہنسی بھی انسانی زندگی کا ایک اہم عنصر ہے اس لئے ادب ہنسی کا بھی ترجمان ہے، زندگی کے تمسخر انگیز پہلو کی عکاسی ادب میں اسی قدر ضروری ہے جس قدر زندگی کے رقت انگیز پہلو کی۔ زندگی میں روشنی بھی ہے تاریکی بھی، خوشی بھی ہے اور غم بھی۔ ہم روتے بھی ہیں اور ہنستے بھی ہیں۔ ادب اس روشنی اور تاریکی، اس غم اور خوشی، اس ہنسی اور آنسو کا آئینہ ہے۔
عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ ادب کا وہ حصہ جو ہنسی کا ترجمان ہے زیادہ اہم نہیں۔ یہ محض تفریح طبع کا ذریعہ ہے اور بس۔ کہا جاتا ہے کہ انسان ہمیشہ سنجیدہ ومتین زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ وہ ہر وقت اہم، پیچیدہ اور گہرے امور میں دلچسپی نہیں لے سکتا۔ اس لئے اسے ضرورت محسوس ہوتی ہے تفریح طبع کی، دل بہلانے کی اور دماغ میں شگفتگی پیدا کرنے کی۔ جس طرح ہم روزانہ کام کی تھکن، یک رنگی اور دشواری سے وقتی نجات حاصل کرنے کے لئے سنیما چلے جاتے ہیں، بجنسہ اسی طرح ہم سنجیدہ اور مشکل تحریروں کے مطالعہ سے تنگ آ جاتے ہیں تو ان ہلکی لطیف تحریروں کی طرف رجوع کرتے ہیں جن سے سنجیدہ تحریروں کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر غلط ہے۔
موضوع سنجیدہ ہو یا غیر سنجیدہ، بوجھل ہو یا ہلکا، دشوار ہو یاآسان، پیچیدہ ہو یا سیدھا سادہ، غرض ہر قسم کا موضوع محض خام مواد ہے جس سے ادیب مصرف لیتا ہے۔ اگر وہ صحیح معنوں میں ادیب ہے تو وہ ہر قسم کے موضوع پر اپنے آرٹ کے سارے ساز و سامان صرف کرتا ہے اور پڑھنے والا دونوں قسم کی تحریروں، سنجیدہ اور مزاحیہ کو ایک نظرسے دیکھتا ہے۔ موضوع مزاحیہ سہی لیکن اگر ادیب نے اپنے موضوع پر بحث کرنے میں صنعت کارانہ سنجیدگی سے کام لیا ہے تو پڑھنے والا بھی سنجیدگی کے ساتھ پڑھتا ہے۔ موضوع سنجیدہ یا غیر سنجیدہ ہو سکتا ہے لیکن آرٹ ہمیشہ سنجیدہ ہوتا ہے۔ میں نے کہا ہے کہ ہنسی عدم تکمیل، بےڈھنگے پن، کمی یا کوتاہی کے احساس کا نتیجہ ہے۔ جس دنیا میں ہم سانس لیتے ہیں وہ تکمیل سے خالی ہے۔ انسان اور انسانی فطرت میں بھی یہی ناتمامی ہے اس لئے ہنسی کے مواقع کی کمی نہیں۔
دنیا اور زندگی کی ناتمامی اور ناموزونیت مسلّم ہے۔ ہم محض اس ناتمامی کے احساس کا اظہار کر سکتے ہیں یا اس احساس کے ساتھ ساتھ اس نقص کو دور کرنے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں۔ یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ دوسرے احساس میں پہلے احساس کا وجود ضروری ہے لیکن پہلے احساس کے ساتھ دوسرے احساس کا وجود لازمی نہیں۔ پہلے قسم کے احساس کا نتیجہ خالص ظرافت ہے، دوسرے کا طنز اور ہجو۔
خالص ظرافت نگار کسی بے ڈھنگی شے کو دیکھ کر ہنستا ہے اور پھر دوسروں کو ہنساتا ہے۔ وہ اس نقص، خامی اور بدصورتی کو دور کرنے کا خواہش مند نہیں۔ ہجوگو اس سے ایک قدم آگے بڑھتا ہے۔ اس ناقص و ناتمام منظر سے اس کا جذبۂ تکمیل حسن، جذبۂ موزونیت اورجذبۂ انصاف جوش میں آتا ہے اور وہ اس جذبہ سے مجبور ہوکر اس مخصوص مذموم منظر کو اپنی ظرافت اور طنز کا نشانہ بنانا ہے۔ نظری اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ خالص ظرافت اور ہجو کی راہیں الگ الگ اور منزلیں جدا جدا ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں کو الگ کرنا دشوار ہے۔
خالص ظرافت نگار ہو یا ہجو گو دونوں صناع ہیں۔ دونوں کے کارنامے تخلیقی ہوتے ہیں۔ ظرافت نگار محض کسی بے آہنگی کا مضحکہ خیز بیان نہیں کرتا۔ وہ اس بے آہنگی کی تخلیق بار دگر کرتا ہے اور اسے دلچسپ تر بنا دیتا ہے۔ اس لحاظ سے ظرافت نگار اور کسی دوسرے صناع میں بنیادی فرق نہیں۔ وہ بھی مشاہدہ سے کام لیتا ہے، اس کی آنکھیں دنیا کی زندگی کے وسیع اور بوقلموں مناظر کو دیکھتی ہیں اور ان میں ایسی چیزوں کا انتخاب کرلیتی ہیں جو اس کے مخصوص آرٹ کیلئے موزوں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے لئے وسعتِ نظر ضروری ہے۔ وہ دنیا کے ہر گوشے، زندگی کے ہر شعبے سے واقف ہوتا ہے کیونکہ اس کا مواد ہر جگہ ہے اور اگر اسے اپنے فن کی اہمیت کا صحیح احساس ہے تو وہ کسی چیز سے قصداً احتراز نہیں کرےگا۔ وہ اپنا مواد کاوش کے ساتھ جمع کرتا ہے، اس پر غور کرتا ہے۔ مشاہدہ کی کمی یا بے رنگی کو رنگینی ٔ تخیل، رعنائی ٔ خیال کی مدد سے پورا کرتا ہے اور دیکھی ہوئی یا تصور کی ہوئی چیزوں کو صنعت کارانہ حسن و صداقت سے مزین کرتا ہے۔ اس کے دل میں اصلاح کا جذبہ موجزن نہیں ہوتا۔ وہ صناع ہے خامیٔ اصلاح نہیں۔ اس کے کارنامے بھی صحیح معنوں میں تخلیقی ہوتے ہیں۔ یہ کارنامے ہماری تفریح کا باعث ہوتے ہیں لیکن تفریح اصل مدعا نہیں۔ اس کا مقصد ایک حسین، مکمل اور موزوں کارنامے کی تخلیق ہے۔ جو تفریح ہمیں حاصل ہوتی ہے وہ ایک حد تک اتفاقی ہے۔
ظرافت نگار کسی مشاہدہ کو دیکھ کر مسکرا ا ٹھتا ہے لیکن اور کسی قسم کا جذبہ اس کے دل میں نہیں ابھرتا۔ اسی جگہ ظرافت نگار اور ہجو گو کی راہیں الگ الگ ہو جاتی ہیں۔ ہجو گو بے ڈھنگے، ناقص اور بدصورت مناظر کو دیکھ کر بیتاب ہو جاتا ہے۔ ناانصافی، بے رحمی اور ریاکاری کی مثالیں دیکھ کر اس کے دل میں نفرت، غضب، حقارت اور اسی قسم کے جذبات ابھرنے لگتے ہیں، اس کی ہجو میں انہی جذبات کی ترجمانی ہوتی ہے۔ وہ بھی صناع ہے، اس لئے وہ اپنے جذبات کو محض سیدھے سادے طور پر بیان نہیں کرتا۔ وہ اپنے جذبات سے ان کی شدت کے باوجود علاحدگی اختیار کرتا ہے اور ان سے الگ تھلگ ہوکر، انہیں اپنے قابو میں لاکر ان کا صنعت کارانہ اظہار کرتا ہے اور اس صنعت کارانہ اظہار کی وجہ سے جذبات کی شدت میں کمی نہیں زیادتی ہوتی ہے۔ ہجو گو ایک بلند پایہ اخلاق کا حامل ہوتا ہے اور وہ اپنے بلند مقام سے انسانی کمزوریوں، خامیوں اور فریب کاریوں کو طنز کا نشانہ بناتا ہے۔
لیکن ہجو گو انسان ہے اور انسانی حدود میں گھرا ہوا ہے۔ اس لئے اگر ہمیشہ نہیں تو اکثر اس کی ہجوؤں کی ابتدا کسی ذاتی جذبہ سے ہوتی ہے لیکن اگر وہ اپنے فن کی اہمیت اور اس کی ضروریات سے آگاہ ہے تو وہ اپنے ذاتی جذبہ سے علاحدگی اختیار کرتا ہے اور اسے ایک قسم کی عالمگیریت عطا کرتا ہے۔ بہر کیف ہجو گو ان تمام جذبات پر تصرف رکھتا ہے۔ وہ ہنستا بھی ہے اور روتا بھی ہے۔ وہ ہمدردی، ترحم، انصاف اور فیاضی کے جذبات کو ابھارتا ہے اور ساتھ ساتھ وہ غصہ، بغض اور حقارت کے جذبات کو بھی بھڑکاتا ہے۔ ظرافت نگار کے مقابلہ میں اس کی جذباتی دنیا زیادہ وسیع و کشادہ ہے۔
(طویل مضمون کا ایک باب)